• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

نام ہی سُن رکھا تھا

’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں فاروق اقدس نے برطانوی شاہی جوڑے کی پاکستان آمد کی رُوداد بہت عُمدگی سے تحریر کی۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ سے ہدایت پائی، تو ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا قومی طاقت کے ساتھ موجود نظر آئے۔ ’’خانوادے‘‘ میں ڈاکٹر قمر عباس نے اے ڈی اظہر اور اسلم اظہر پر کیا ہی شان دار مضمون تحریر کیا۔ ’’عقل داڑھ‘‘ سے متعلق ڈاکٹر اطہر رانا کا مضمون بہت معلوماتی تھا۔ اس سے پہلے تو میں نے صرف نام ہی سُن رکھا تھا۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

ج:صرف نام سُن رکھا تھا…؟ کیوں بھئی، کیا اب تک نکلی نہیں۔ عقل داڑھ کے نام سے زیادہ تو اِس کے نکلنے کی تکلیف کا شہرہ ہے۔ ویسے کچھ عجیب بات بھی نہیں ہے، ہمیں تو کئی بابوں، چاچوں کی باتوں سے بھی لگتا ہے کہ عقل داڑھ بس نکلتے نکلتے رہ ہی گئی۔

زور کا جھٹکا

تازہ شمارہ سامنے ہے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا کے مضمون پر سرسری نگاہ ڈال کر آگے بڑھا۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں ڈاکٹر سیّد محمد غفران سعید نے بہت اچھا لکھا۔ ’’انٹرویو‘‘ میں محمود احمد خان کی باتیں ٹھیک تھیں۔ ہاشم ندیم کا ناول حسبِ روایت مقبول ہورہا ہے۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں اپنا بھیجا واقعہ دیکھ کر زور کا جھٹکا لگا، اس لیے کہ یہ واقعہ پورے2سال بعد شایع ہوا ہے۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں کچھ نئے نام دیکھ کر خوشی ہوئی کہ میگزین کے چاہنے والے بڑھ رہے ہیں۔ (سیف اللہ، سبّی، بلوچستان)

ج:خیر ہے، ایسے چھوٹے موٹے جھٹکے تو زندگی میں لگتے رہنے چاہئیں۔ زندہ ہونے کا احساس برقرار رہتا ہے۔

مقبولیت میں سرِفہرست

اس بار مَیں بھی دو شماروں پر تبصرہ کروں گی۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں برطانوی شاہی جوڑے کی پاکستان آمد سے متعلق رپورٹ شان دار تھی۔ ساتر ملبوسات کا انتخاب کرکے کیٹ میڈلٹن ہمیں بہت کچھ سمجھا گئیں، اگر ہم سمجھنا چاہیں تو… بڑی خوشی اور کسی قدر حیرت کی بات ہےکہ سنڈےمیگزین کےمتعدد قارئین ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کا اس قدر ذوق و شوق سے مطالعہ کرتے ہیں۔ منور راجپوت نے خواتین سیلز ایجنٹس کے بارے میں بتایا بھی اور سمجھایا بھی۔ حقیقت یہی ہے کہ آج کے اس ہوش رُبا منہگائی کے دَور میں خواتین کو بھی باہر نکل کر کمانا پڑ ہی رہا ہے، مگر سلام ہے ایسی باہمّت خواتین کو، جو رزقِ حلال کے لیے محنت کررہی ہیں۔ چوں کہ مَیں خود بھی ایک معلّمہ ہوں، تو انٹرویو میؒں احمد سایہ کی باتیں اس قدر پُراثر لگیں کہ اپنے طلبہ کو بطورِ خاص وہ انٹرویو پڑھنے کی ہدایت کی۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ’’بریسٹ کینسر‘‘ کے حوالے سے اچھی معلومات دی گئیں اور ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں ڈینگی کے بارے میں تفصیلاً جو معلومات فراہم کی گئیں، اُن کا تو کوئی جواب ہی نہیں تھا۔ اس قدر جامع، مکمل اور بھرپور تحریر خال ہی کہیں دیکھی ہوگی۔ پھر ’’سیلفی نارسیزیزم‘‘ کے بارے میں پڑھ کربھی بڑی حیرت ہوئی کہ یہ بھی کوئی نفسیاتی بیماری ہے۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کی کہانی بھی اچھی لگی۔ اور اب آتے ہیں ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی طرف، یہ صفحہ اپنے آغاز سے آج تک مقبولیت کے اعتبار سے سرِفہرست ہی ہے اور یہ اس کی بڑی کام یابی ہے۔ (مدیحہ کرامت، ہجیرہ، پونچھ، آزاد کشمیر)

ج:ویسے جس قدر محنت اس صفحے پر ہوتی ہے، اسے سرِفہرست رہنا بھی چاہیے۔

ڈاکٹرز کے شوٹس

نوازش، کرم، شکریہ، مہربانی، آپ نے انبیائے کرام کی فہرست لکھ دی۔ یقین کریں میں دل سے ممنون ہوں۔ ’’تبدیلی سرکار‘‘ سے متعلق کچھ کہنا چاہتی ہوں اور وہ یہ کہ پہلے تو صرف ہمارا حکمراں گنجا تھا، اس نام نہاد تبدیلی، آسمان کو چھوتی منہگائی نے عوام کی اکثریت کو گنجا کردیا ہے۔ بات کروں شمارے کی، تو میگزین کھولتے ہی چارسو میٹر کی دوڑ لگائی اور سیدھی پہنچی ’’عبداللہIII‘‘ پر۔ ’’کہی اَن کہی‘‘ میں بلال اشرف کی باتیں دل کو بھاگئیں۔ ڈائجسٹ (ہاضمہ) پڑھ کربھی ہضم نہیں ہوا اورکھولا ’’ناقابلِ فراموش‘‘، بہت خُوب، دونوں واقعات اپنا اثر چھوڑ گئے۔ لو جی آگیا میرا صفحہ (آپ کا صفحہ) ارے وہی چاچے، بابے، راجے، شہزادے اور پروفیسر۔ ان لوگوں نے تو قبضہ ہی کرلیا ہے پورے صفحے پر۔ کم از کم ایک ہفتے کے لیے ان سب کا داخلہ بند ہونا چاہیے۔ اور یہ کیا ڈاکٹرز نے پارٹ ٹائم ماڈلنگ شروع کردی ہے۔ دو ڈاکٹرز کے شوٹس لگا چُکی ہیں آپ۔ کہی اَن کہی میں سجل علی، عمران عباس، احمد شہزاد (کرکٹر) اور ہمایوں سعید کےانٹرویوز بھی کروائیں۔ (سونیا رائے سونم)

ج:ماڈلز کے نام کے ساتھ ڈاکٹرز دیکھ کر تمہاری طرح ہم بھی حیران ہوئے تھے، مگر پھر کراچی کے کچھ ینگ ڈاکٹرز کو فاسٹ فوڈز اور سُوپ بیچتے دیکھ کر حیرانی جاتی رہی۔ اس مُلک کے ساتھ پچھلے 70 برسوں سےجو کھلواڑ ہو رہا ہے، اب تو یہاں جو نہ ہو، کم ہے۔

تیرا غم، میرا غم، ایک جیسا صنم…

زیرِنظر شمارے کی سرورقی ماڈل کے پیراہن کی دل کشی اور رنگارنگی پر شہ سُرخی ’’مجھ کو تتلی نے اپنے رنگ دیئے‘‘ سو فی صد فِٹ لگی۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں شاہی جوڑے کے دورئہ پُرجمال کی رپورٹنگ فاروق اقدس نے کمال حُسن سے کی۔ ویسے رائل کپل اگر مسئلہ کشمیر پر محض یہ گُنگنا ہی دیتا ’’تیرا غم، میرا غم، ایک جیسا صنم…‘‘ تو ہم بھی صدقے واری جاتے۔ ڈاکٹر قمر عباس خانوادے میں عہدِ رفتہ و عہدِ حاضر کی عہد ساز شخصیات کی ناوکِ قلم سے ایسی تصویرکشی کرتے ہیں کہ وہ ہمیں پہلوئے دل میں براجمان معلوم ہوتی ہیں۔ آپ سے گزارش ہے کہ مولاناابوالکلام آزادسےمتعلق بھی کچھ پڑھوادیں۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نے وارثانِ ’’نیا پاکستان‘‘ کو نکتۂ مت پیش کیا کہ ’’دنیا سے اپنا اصولی موقف منوانے کےلیے پہلے اپنی داخلی صورتِ حال کو بہتر کرنا ہوگا‘‘ مگر کیا کیا جائے کہ خود کو شاخِ زعفران سمجھنے والا اعادہ کرتا ہے۔ ’’این آر او نہیں دوں گا‘‘ (مُراد کہ آپ کا نوکر ہوں، بینگنوں کا نوکر نہیں ہوں)۔ بیسٹ ٹیچر ایوارڈ ونر، احمد سایہ کا انٹرویو شایع کرکے تو آپ نے آتما ٹھنڈی کردی اور ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر رانا کی ’’عقل داڑھ‘‘ عقلِ سلیم کو جِلا بخش گئی۔ اس پر یاد آیا کہ ہماری تبدیلی ٹیم (کھلاڑی مِکسڈ اناڑی) کی بھی رسمِ منہ دکھائی کی جائے کہ کتنے بِن عقل داڑھ ہیں اورکتنےعقلِ کُل۔ جب سے عبداللہIII پڑھنا شروع کیا ہے، تب سے قلبِ سلیم میں جذبہ عشق ملٹی پلائی بائی تھری (افزوں سے افزوں تر) ہوتا جارہا ہے اور عرفان جاوید کی نایابی کے بعد اب رائو شاہد اقبال بھی Out of Sightہوگئے ہیں کیا؟ آخر میں بات بزم احباب، ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی۔ نواب زادہ صاحب، پروفیسر حمیدی، برقی اور بشیر بھٹی کے اظہارِ پسندیدگی کا شکریہ اور اس ہفتے کی محفل لُوٹنے پر شہزادہ بشیر کو مبارکاں۔ (محمّد سلیم راجا، لال کوٹھی، فیصل آباد)

سوال گندم، جواب چنا

ارے یہ کیا… کوئی بھی تو نظر نہں آرہا، کہاں گئے آپ کا صفحہ کے راج دُلارے…؟ سلیم راجا، ملک رضوان، رونق افروز، پروفیسر منصور، پروفیسر مجیب ظفر اور اطہر رانا وغیرہ۔ سب ایک ساتھ آئوٹ۔ آپ کیا ثابت کرنا چاہ رہی ہیں کہ کسی کے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، چاپلوسوں اوہ، میرا مطلب ہے، قدر دانوں کی آپ کے پاس کوئی کمی نہیں۔ خیر، گزشتہ برقی خطوط کے پہلے خط نے ہونٹوں پر تبسّم بکھیر دیا۔ ڈاکٹر طاہر مسعود صاحب نے فلم اور ڈرامے کا فرق خوب سمجھایا۔ بقول اُن کے ڈراما حقیقت، اور فلم، جھوٹ پر مبنی ہوتی ہے، لیکن میرے خیال میں فلم ظاہری جھوٹ اور ڈراما مخفی جھوٹ پر مبنی ہوتا ہے۔ مریم خان کی بنتِ حوّا پر تحریر بہت اچھی تھی، لیکن انہوں نے کوئی حل تجویز نہیں کیا۔ میرے خیال میں اس مسئلے کے تدارک کے لیے وجوہ پر نظر ڈالنی چاہیے۔ صوبائی حکومت کے ترجمان، اجمل وزیر کا انٹرویو پڑھا، تو ایسا محسوس ہوا کہ سوال کچھ، جواب کچھ ہیں۔ بہرحال، یہ اجمل صاحب کی غلطی نہیں، حکومتی پالیسیاں اور کارکردگی ہی اتنی شان دار ہے کہ سوال گندم، جواب چنا ہی ہوگا۔ (عبدالسلام صدیقی بن عبیداللہ تائب، نارتھ کراچی، کراچی)

ج:آپ سے تو کسی نے گندم کا سوال بھی نہیں کیا، آپ نے بلاوجہ ہی چنے پڑھنے شروع کردیئے۔ مریم خان کے مضمون کی آڑ لے کر کیا کیا نہ وجوہ گنوا دیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک تجویز بھی پیش کردی۔ خاص طور پر چار شادیوں کی اجازت کی بات پر تو آپ حضرات کی باچھیں ایسے کِھلتی ہیں کہ جیسے دین بس یہیں سے شروع ہوکر یہیں ختم ہوجاتا ہے۔ او بھائی! بے حیائی، بے راہ روی کی اور بھی اَن گنت وجوہ ہیں۔ مگر ’’آپ کا صفحہ‘‘ ایسی باتوں کے لیے مناسب فورم نہیں، آپ اس موضوع پر الگ سے کوئی مضمون لکھ کر اپنا شوق پورا فرمائیں۔

تبدیلی کا دَور دَورہ

اس بار چار شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ چار میں سے تین جرائد میں رُوح کو منوّر کرنے والا سلسلہ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ موجود تھا۔ کے پی، کے صوبائی وزیر کے ارادے بہت بلند نظر آئے۔ ’’عبداللہ تھری‘‘ اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ نہ صرف جاری و ساری ہے، بلکہ ہمیں اپنے سحر میں بھی جکڑ رکھا ہے۔ سلگتے، بلکتے، سِسکتے کشمیر کے حوالےسےپورا ایڈیشن ہی بے مثال تھا۔ آپ نے پوچھا ہے میرا بازار کیسے تبدیل ہوگیا۔ تو چوں کہ تبدیلیوں کا دَور دَورہ ہے، تو میں نے سوچا کیوں ناں اپنے بازار ہی کا نام تبدیل کرلوں۔ پردیسیوں کے میرپور سے متعلق پڑھ کر دل بہت دُکھی ہوا۔ معروف کالم نگار، محمّد بلال غوری کی گفتگو بہت فکرانگیز تھی اور ’’اسٹائل‘‘ کے صفحات میں گل و گل زار، گُہر، چاند، ستاروں سے بچّوں کے شوٹ اور آپ کے رائٹ اپ کا جواب نہ تھا۔ ایک شمارے کے ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں آپ نے پروفیسر مجیب ظفر انوار حمیدی کی سخت سرزنش کی، دوسرےمیں انہیں ’’اِس ہفتے کی چٹھی‘‘ کا مزہ بھی چکھا دیا۔ کیا یہ کُھلا تضاد نہیں۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)

ج:اس میں کیا کُھلا تضاد ہے، جو بات قابلِ سرزنش ہوگی، اس پر سرزنش کی جائے گی اور جو لائقِ توصیف ہوگی، اس کی توصیف ہی کی جائے گی۔

تین نشستوں کی ملاقات

تازہ شمارہ، تازہ دَم، چنار کے پتّوں کے بارڈر سے سجے سرِورق کے ساتھ ملا، تو جھومتے ہوئے پڑھا۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں محمّد تنویر ہاشمی پاکستان میں پولیو کے مرض سے متعلق تحریر لائے اور بروقت لائے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میگزین کا مقبول ترین سلسلہ ہے۔ ’’انٹرویو‘‘ میں جنگ پینل نے خیبر پختون خوا کے مشیر سے ملاقات کروائی، کچھ خاص بھائی نہیں۔ مرکزی صفحات میں عالیہ کاشف نے موسمِ خزاں کی مناسبت سے گلگت بلتستانی پیراہنوں کا تعارف کروایا، لیکن کپڑوں کے نام لیتے، تو زبان میں بل سے پڑتے ہیں۔ منور مرزا ’’شام میں ترک فوج کی کارروائی‘‘ پڑھوا رہے تھے۔ ’’عبداللہ‘‘ میں یکایک دو پروفیسرز بھی شامل ہوگئے۔ اب ایسی آفاقی مخلوق کے دخول کے بعد ناول کا تو اللہ ہی حافظ ہے، تم اب کسی دوسرے ناول کا بندوست کرلو، جو پروفیسر پروف ہو۔ ’’پیارا گھر‘‘میں شائستہ افتخار بازی لے گئیں اور دستر خوان جھاڑنے کے طریقے سے کتنے ہی ماضی اشک بار کر گئیں۔ ’’نئی کتابیؒں‘‘ میں جاں فشانی کے ساتھ مختصر، لیکن موثر تبصرہ جارہا ہے، بلکہ اضافی محنت سےسلسلےکومزیدنکھارتے ہوئے ’’توجّہ فرمایئے‘‘ کی ونڈو میں موصولہ کتب کی اطلاعات و کیفیات بھی بیان کی جارہی ہیں۔ بہترین! ’’آپ کا صفحہ‘‘ اپنے دامن میں نادیہ ناز غوری کی اعزازی چٹھی لیے طلوع ہوا۔ صفحے کا سب سے اچھا خط ضیاء الحق قائم خانی کا تھا اور سب سے اچھا جواب پروفیسر سیّد عزیز مدنی کو دیا گیا۔ اگلے شمارے میں فاروق اقدس کے رنگارنگ، باغ و بہار، رپورٹ نما ’’رپوتاژ‘‘ نے میگزین کو دو چاند لگادیئے (ظاہر ہے پرنس اور پرنسز دو ہی تو آئے تھے) منور مرزا نے’’حالات و واقعات‘‘میں پاکستان کی ناقص خارجہ پالیسی کا بہترین تجزیہ کیا۔ ’’خانوادے‘‘ میں قمر عباس نے اسلم اظہرکے بارے میں لکھا، اللہ کرے تحقیقی حوالوں سے بھی مضمون سو فی صد درست ہو۔ منور راجپوت، منور مرزا کے بعد دوسرے نمبر کے پسندیدہ صحافی ہیں۔ ’’خواتین سیلز ایجنٹس‘‘ کا ابتدائیہ ایسا باکمال لکھا کہ رپورٹ کو مکالمہ بنادیا، واہ واہ، ویل ڈن راج پوت۔ شفق رفیع نے پروفیسر کے انٹرویو میں عجلت سے کام لیا، تین نشستوں کی ملاقات کو شاید ایک سِٹنگ میں بُھگتا دیا اور یہ آدھے صفحے کے ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ کا احسان دھرنے کی کیا ضرورت تھی۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ چھائی تو ’’پیارا گھر‘‘ نگل گئی، ’’ڈائجسٹ‘‘ گُل کرگئی۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ اُڑاگئی۔ حد ہے بھئی۔ (پروفیسر مجیب ظفر انوار حمیدی، گلبرگ ٹائون، کراچی)

ج:پروفیسر صاحب! کم بولنا، کم کھانا، کم سونا سنّتِ نبویؐ ہے۔ جب زبان کترنی کی طرح بلاوجہ چلتی ہے، تو کام کی باتیں کم، اول فول زیادہ اگلتی ہے۔ نتیجہ سامنے ہے۔ اور ہم سے بھی10، 15صفحات کا بس ایسا ہی ’’متنجن‘‘ تیار ہو پاتا ہے، اس سے بہتر ممکن نہیں اور ہاں، شفق کے کیے گئے خاصے تفصیلی انٹرویو کو بھی جو جامع شکل دی گئی، بہت سوچ سمجھ کر دی گئی۔ جیسے آج آپ کے تین ’’طول ناموں‘‘ کو کاٹ چھانٹ کے اس حال تک پہنچایا ہے۔

میرا قصور بتادیں

اپنی حالت کی عین مناسبت سے ایک گھسٹا پٹا لطیفہ مجبوراً آپ کو سُنانا پڑرہا ہے۔ ایک مایوس شخص اپنے دوستوں سے ذکر کررہا تھا کہ ’’یار، جس کام میں ہاتھ ڈالتا ہوں ناکامی ہوتی ہے، کوئی نوکری کروں ناکامی،کاروبار شروع کرلوں ناکامی، اب تو مجھے یقین ہوگیا کہ اگر ٹوپیاں بنانے کا کام شروع کروں گا، تو انسان بغیرسرکےپیدا ہونا شروع ہوجائیں گے۔‘‘ مَیں نے پہلی بار سنڈے میگزین کے پسندیدہ سلسلے ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے لیے ایک ایسا سچّا واقعہ بھیجا، جسے پڑھ کر ہرقاری دنگ رہ جاتا، لیکن افسوس آپ نے وہ سلسلہ ہی بند کردیا۔ کم ازکم ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں دو سطروں میں میرا قصور ہی بتادیں۔ وہ واقعہ دو امریکی صدور کی حالات کی یک سانیت کے بارے میں تھا۔ حالاں کہ دونوں کےدورِ صدارت میں سو سال کا وقفہ ہے۔ (محمّد یوسف، لاہور)

ج:آپ قصور نہ پوچھتے تو زیادہ اچھا تھا، مگر اب پوچھ ہی لیا ہے، تو پھر آپ کی ساری ہی خطائیں گِنوادیتے ہیں۔ اوّل، یہ الہام کہاں سے اُترا کہ صفحہ بندکردیا گیا ہے۔ دوم، امریکی صدور کے واقعات کا ’’ناقابلِ فراموش‘‘ سے کیا لینا دینا۔ جب آپ کو سِرے سے صفحے کا فارمیٹ ہی نہیں پتا، تو یہ آپ کا پسندیدہ ترین صفحہ کیسے ٹھہرا۔ بھائی، اس صفحے پر وہ سچّے واقعات شایع کیے جاتے ہیں، جو کسی کے ساتھ خود پیش آئے ہوں۔ وہ اُن کا چشمِ دید گواہ ہو یا اُس نے کسی قابلِ اعتبار شخص کی زبانی سُنے ہوں اور یہ عمومی نوعیت کے واقعات ہوتے ہیں، کوئی عالمی حالات واقعات نہیں اور سوم، لطیفہ بھی، قطعاً لطیف نہیں۔

                                                                                 فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

گنبدِ خضریٰ سے مزّین سرِورق، حضورِ پُرنور ﷺ کی حیاتِ مطہّرہ کی ضوفشاں کرنوں سے منوّر، عطربیزگوشوں سےمعطّر ’’آمدِرسولﷺ اسپیشل ایڈیشن ‘‘ پیامِ پُرکیف لیے آیا کہ ؎ دِلوں کو نُور دینے کے لیے نُورِ مُبیں آئے…مُبارک ہو جہاں کو رحمۃُ لِلعالمیں آئے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں نورِ مجسّم، نیّرِ اعظم، سرورِ عالم ﷺ کی سیرتِ طیّبہ کی خوشبوؤں نے دل کو معمور، روح کو مسرور کیا، تو ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں ڈاکٹر حافظ محمّد ثانی نے خورشیدِ درخشاں، روحِ ایماں ﷺکی بارگاہِ اقدس میں مدحت و محبتِ رسولﷺ کے گلاب پیش کرتے ہوئے پیغام دیا کہ کائنات میں روشنی اسی وجودِ مسعود سے ہوئی، جسے ربُّ العزّت نے ’’سراجاً منیراً‘‘ قراردیا۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں سفرنامہ ’’سرزمینِ انبیاؑء پر چند روز‘‘میں ذکرِ مسجدِ اقصیٰ نے اُس لمحۂ نشاط انگیز کی یاد تازہ کی کہ جب اللہ نے اپنے محبوب کو’’ اِمامُ المرسلین‘‘ کےمنصبِ اعلیٰ پرفائزکیا۔ ’’متفرّق‘‘ میں مضمونِ اوّل ’’حج…اُمّتِ مسلمہ کے لیے ہمہ گیر عبادت‘‘ اور مضمونِ ثانی ’’کعبے کی رونق، کعبے کا منظر‘‘ دونوں نےمشعلِ محبّتِ رسولﷺ کی لَو بڑھائی، تو پیارے سے ’’پیاراگھر‘‘ نے رسولِ رحمت، مونسِ آدمﷺ کی خانگی زندگی سے روشناس کرواتی تحریر ’’محمّدﷺ سراپامحّبت و رحمت‘‘ پیش کر کے اُس ہستی کو خراجِ عقیدت پیش کیا کہ جس کے ؎ گیسوئے مُشکیں، روحِ مزمّل…رُخ پہ طلوع نورِ سحر ہے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں پیاری سی گڑیا ننّھی حیا کے ذہن میں ایمان کے بیج بوتی، مقدّس عنوان سے موسوم کہانی’’تسبیح‘‘ نے کیف انگیز تاثر مرتب کیا، تو نعتیہ ادب سے منتخب کلام نے ؎ ’’کرم آمیز، دل آویز، کیف انگیز کتنا ہے…مِرے آقاﷺ کا اسمِ پاک راحت خیز کتنا ہے‘‘ زباں پر دُرود و سلام کے نغمے رواں کردیے۔ موقعے کی مناسبت سے صفحہ’’نئی کتابیں‘‘ نے بھی سیرتِ نبیﷺ اور نعتیہ کلام کےبحرِ زخّار سے بارہ کتابوں کا انتخاب سجا کر سفینۂ محبتِ رسولﷺ ساحل آشنا کیا۔ اور اب وقتِ رُخصت، بس اتنا کہ خوش قسمت ہیں وہ، جو خونِ جگر سے ہدیہ (ربیعُ الاوّل اسپیشل ایڈیشن) تیّار کر کے سیرتِ طیّبہ کی خوشبو پھیلانے میں کوشاں ہیں اور نیک نصیب ہیں وہ قلم، جو آفتابِ عالم تاب سراجِ منیرﷺ کی تعلیمات کی جھلملاتی کرنیں بکھیر رہے ہیں۔ سن ڈے میگزین نے سیرتِ مصطفیٰ ﷺ کے سدابہار گلشن سےچندپھول چُن کر مشّامِ جاں معطّر، قلب و روح منوّر کرنے کی اپنے تئیں جو کوشش کی، اللہ اُسے قبول فرمائے،آمین۔ (نادیہ ناز غوری،لانڈھی،کراچی)

گوشہ برقی خُطوط

پلیز، ہمایوں سعید کا انٹرویو شایع کردیں، پلیز، پلیز، پلیز… (عائشہ لاہور)

ج: دھیرج رکھو، کوشش کررہے ہیں۔

’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ اور ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے صفحات غائب کرنے کی وجہ پوچھنے کی جسارت کرسکتی ہوں۔ (شاہدہ نثار)

ج: اب آپ نے جسارت کر ہی ڈالی ہے، تو بتائے دیتے ہیں۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ رعنا فاروقی کی علالت کے سبب اور ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ نئے سلسلے کے مضامین کی تیاری کے سبب ڈراپ کیے گئے۔ اور کچھ.....؟؟

مَیں نے دو عدد کہانیاں ارسال کی تھیں۔ کچھ اتا پتا مل سکتا ہے؟ (ڈاکٹر محمد ظہیر اختر، سیکٹر بی، اسلام آباد)

ج:ایک شایع ہوچُکی۔ دوسری تیاری کے مراحل میں ہے۔ ویسے سنڈے میگزین میں کچھ اشاعت کے لیے بھیجیں ،تو صبر کا دامن تھامے رکھا کریں۔

’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے صفحے کے ساتھ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ پر حافظ محمد ثانی کی تحریر نے دل جیت لیا۔ (گریجویٹ بوائے)

ج: گریجویشن کرلیا ہے، تو ماسٹرز کے لیے اپلائی کردیں، مگر پلیز اگلی بار ای میل کے ساتھ اپنا نام ضرور لکھیں۔

میگزین شان دار ہے، بس ’’ڈائجسٹ‘‘ کا صفحہ ڈراپ نہیں ہونا چاہیے۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ سب سے زیادہ ذوق و شوق سے پڑھا جانے والا سلسلہ ہے۔ ہاں، البتہ خادم ملک مجھے کوئی ذہنی، نفسیاتی مریض معلوم ہوتے ہیں۔ عجیب و غریب سی باتیں کرتے ہیں۔ میرے خیال میں تو ان کے خطوط ریگولر شایع بھی نہیں ہونے چاہئیں۔ (رمشہ الیاس راجپوت، مرغزار کالونی، لاہور)

ج: مسئلہ یہ ہے کہ ’’آبیل مجھے مار‘‘ کا یہ سلسلہ ہم نے خود ہی شروع کیا ہے۔ ’’قارئینِ کرام!ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کُھل کر اپنی رائے دیجیے‘‘ کا دعوت نامہ دے کر۔ تو پھر یہ سینگیں، ٹکریں تو کھانی ہی پڑیں گی۔

’’سرچشمہ ہدایت‘‘ کا سلسلہ تو اپنی جگہ لاجواب ہی ہے، سینٹر اسپریڈ میں حافظ محمّد ثانی کا رائٹ اپ دل چُھو گیا۔ ویسے میگزین کا تو ہر سلسلہ ہی اپنی مثال آپ ہے۔ (اسعد، بھکّر)

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk

تازہ ترین