• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ہم ماں بیٹا سارا دن خجل خوا ر ہو کر چار پیسے کما تے ہیں اورتُو…تُو وہ بھی دھوئیں میں اُڑا د یتا ہے۔ وزیر! اس جُوئے ،نشے کی لت کوچھوڑ کیوں نہیں دیتا…؟ یاد رکھ! اگر تُو نے یہ عادتیں نہیں چھوڑیں، تو مَیں تجھے چھوڑ دوں گی۔ ‘‘’’محبّت کی شادی تھی ہماری ‘‘ وزیر نے چرس کو خالی سگر یٹ میں بھرتے ہو ئے کہا ۔’’اس محبّت کا جنازہ دس سال سے اُ ٹھائے گھوم رہی ہوں مَیں، اب اور نہیں اُٹھا یا جاتا‘‘ نجمہ نے کندھے پر سوئی دو سالہ بیٹی کو چار پائی پر لِٹاتے ہو ئے کہا ۔

نجمہ نے وزیر سے اپنے گھر والو ں کی مرضی کے خلاف شادی کی تھی، اُن دِنوں وزیر اپنا رکشہ تھا ۔ وہ جب کبھی جنوبی پنجا ب، اپنے گاؤں جا تا، تو سارے گاؤں والو ں کو لاہو ر کے قصّے سنا تا ۔ نجمہ اور وزیر گاؤں میں پڑوسی تھے ،نجمہ کی منگنی اپنی دُور کی ماسی(خالہ) کے بیٹے کے سا تھ ہوچکی تھی۔ وہ لوگ بھی نجمہ کے گھر والوں ہی کی طر ح غربت میں غو طے کھا ر ہے تھے ، جب کہ نجمہ دولت کے صاف شفّاف پانیو ں میں تیرنا چا ہتی تھی۔وزیر کی باتوں سے متاثر ہو کر اس نے بغا و ت کا عَلم بلند کرتے ہوئے، والدین کو وزیر سے شا دی کا فیصلہ سُنا د یا، تو والدین نے بھی اپنی کچھ شرائط پر بیٹی کی بات مان لی۔

اور یوں نجمہ، وزیر کی شادی ہو گئی۔ چند دن بعد وہ نجمہ کو اپنے سا تھ لاہور لے آیا اور ایک گھر کرائے پر لے کر نئی زندگی کا آغاز کیا ۔چھے، سات ماہ تو پیار، محبّت، چین و سکون سے گزرے۔ اسی دوران نجمہ اُمید سے ہو گئی۔ دونوں کی زندگی ہنستےکھیلتے گزر رہی تھی۔ مگر پھر نہ جانے دونوں کی خوشیوں کو کس کی نظر لگ گئی کہ وزیر کو جُوئے کی لت لگ گئی ، چرس تو وہ پہلے بھی پیتا تھا، مگر نجمہ سے چُھپ کر۔ مگر اب اُس نے نجمہ کے سامنے بھی پینی شر و ع کر دی تھی۔ یہاں تک کے ایک دن وہ جُوئے میں اپنا رکشہ ہی ہار گیا ۔

جب نجمہ کا بڑا بیٹا قمر پیدا ہو ا، اُس وقت وزیر کرائے پر کسی کا رکشہ چلا تا تھا ۔ قمر کے بعد نجمہ کے دو بچّے اور ہوئے، جو خورا ک کی کمی کی وجہ سے مرگئے ۔ دوسر ے بچّے کی موت کے بعد نجمہ نے غربت سے تنگ آ کر اقبال ٹاؤن کے چند گھرو ں میں کام شروع کر دیا ۔ امیر گھروں سے اُسے تن خواہ کے ساتھ پرانے کپڑے اور بچا کُھچا کھا نا بھی مل جاتا ، جس سے ان کی دو وقت کی دال روٹی، کپڑے لتے کا تو مسئلہ حل ہو گیا۔ بیوی کے کام کاج کے بعدوزیر مزید ہڈحرا م ہو گیا۔

اُس نے کرا ئے کا رکشہ بھی چلانا چھو ڑد یا ۔ وہ سارا دن گھر میں بیٹھا چرس پیتا اور نجمہ کے آنے کا ا نتظا ر کرتا ،جیسے ہی وہ گھر آ تی اُس کے لائے کھانے سے پیٹ پو جا کرتا اور تیار ہو کر با ہر نکل جاتا۔ ساری رات باہر گزارتا ، اور پھر سویرے سویرے گھر لو ٹ آتا ۔ جوا کھیلنے کے لیے وہ نجمہ کی تنخواہ کے انتظا ر میں ر ہتا ، اگر وہ اُسے پیسے نہ د یتی، تو چھین لیتا۔ مگر چھینا جھپٹی کے دوران بھی اُس نے کبھی نجمہ پر ہاتھ نہیں اُٹھایا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اب تک نجمہ کے دل میں وزیر کی محبّت کا دیا ٹمٹا رہا تھا ۔

اسی دوران نجمہ کے ہاں چوتھے بچّے کی پیدائش ہو گئی ۔ قمر سات سال کا ہوکے بھی اسکول نہیں جا سکا، تو وزیر نے بھی اُسے ا یک ہوٹل میں کا م پر لگوادیا تھا ۔جس دن قمر کو تن خواہ ملنی ہوتی، وہ سرِ شا م ہی ہوٹل پہنچ جاتا اور بچّے کی ساری تنخوا ہ لے کر جوئے خانے کی راہ لیتا، جہاں اکثر و بیش تر ہار ہی اُ س کا مقدّر بنتی۔ وزیر کی انہی حرکتوں پر نجمہ کی اس سے کئی بار لڑائی ہو چُکی تھی، مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہوا۔ ا سی طرح د س سال گزر گئے ۔

’’آج تنخواہ ملنی تھی ناں تجھے، لا پیسے د ے‘‘وزیر نے سگریٹ پیر کے نیچے مسلتے ہوئے کہا ۔’’نشہ کر کرکے ناں تیری مَت ما ر ی گئی ہے۔ آج مجھے نہیں، قمر کو تنخوا ہ ملنی ہے۔‘‘نجمہ کُڑھتے ہو ئے چلّائی، مگر لمحے بھر ہی میں اُسے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ۔ وہ اندر ہی اندرخود کو لعن طعن کرنے لگی، جب کہ وزیر تو بیوی کی بات سُنتے ہی جیسے وہاں سے اُڑن چُھو ہونے کو تھا۔نجمہ نے اُسے پیار سے رو کتے ہو ئے کہا’’وز یر! دو سال ہونے کو آئے ہیں، تُو ہر ماہ معصوم بچّے کی تنخوا ہ جوئے میں اُڑا دیتا ہے۔ کچھ تو شرم کر۔ ایسا کر، اُسے کوئی نیا جوتا،کپڑا ہی لے دے۔

کب تک میر ے بچّے لوگوں کی اُترن پہنیں گے…؟؟‘‘ ’’جب اپنے حصّے کی دو کنال زمین اپنے گھر والو ں کے نام کر رہی تھی ، تب خیال نہیں آیا تھا بچّوں کا؟ تب تو بڑی جلدی تھی شادی کی ‘‘ وزیر نے ملامتی لہجے میں نجمہ کو کئی سال پرانی با ت یاد کروائی۔ ’’مَیں نے تیرے لیے اپنا حصّہ، اپنے ر شتے سب کچھ چھوڑا تھا۔‘‘نجمہ نے وزیر کو جھنجھوڑتے ہو ئے کہا۔’’میرے لیے ؟‘‘ وزیر نے درشتی سے پوچھا ۔’’کیوں، کوئی شک ہے تجھے۔ وزیر… عشق کرتی ہوں مَیں تجھ سے ‘‘۔ ’’عشق…؟عشق نہیں ،عیش کہو۔ تم میرے پیسوں پر عیش کرنا چاہتی تھی، اِسی لیے اپنے اُس فقیر منگیتر کی بجائے مجھ سے شادی کی۔ ‘‘’’تم عیش کرواؤ گے ؟تم تو خو د میرے ٹکڑو ں پر پل ر ہے ہو ‘‘ جیسے ہی نجمہ نے حقارت آ میز لہجے میں کہا۔ 

وزیر نے ایک زور دار تھپڑ اُس کے گال پر جڑ دیا ۔ نجمہ نے ایک سر دآہ بھری اور لرزتی آواز میں گو یا ہوئی۔’’ جہاں جہاں میں کام کر تی ہو ں ، مَیں نے اپنی ہر مالکن کو بڑے مان سے بتا رکھا تھا کہ میرے وزیر کی ا یک خوبی اُس کی سب خامیوں کو کھا جا تی ہے۔ اُس نے نشے میں بھی کبھی مجھ پر ہاتھ نہیں اُٹھایا۔ پر آج تم نے میرا وہ مان بھی تو ڑ دیا۔‘‘وہ سہمی، سِمٹی کمرے کے ایک کونے میں ز مین پر بیٹھ گئی۔ وزیر گھر سے چلاگیا ۔ نجمہ ،جسے صاف شفّاف جھیل کا نا خدا سمجھ بیٹھی تھی وہ راوی میں بہتے گٹرکے پا نیوں کا کشتی بان نکلا ۔

’’اُستا د جی ! وزیر تنخوا ہ لینے آگیا ہے ‘‘ ایک ویٹر نے وزیر کو ہوٹل کے اندر داخل ہو تے دیکھ کر مالک امتیاز کو بتا یا ۔ ’’آج اس کی مرمّت کرتا ہوں، رات بھی نہیں ہونے دیتا ۔‘‘ ا متیا ز غصّے کے عا لم میں ا پنی جگہ سے اُٹھا۔ قمر چائے کی ٹرے اُٹھائے نکل رہا تھا ، امتیاز کی نگاہ ہی نہیں پڑی اور وہ اُس سے ٹکرا گیا ۔چا ئے سے بھر ے شیشے کے پانچ کپ زمین پر گر گئے۔ 

امتیاز نے ایک زور دار تھپّڑ قمر کے گال پر دے مارا ، جس سے قمر ز مین پر منہ کے بل جاگرا۔ وزیر برق رفتاری سے اپنے بیٹے کی طرف لپکا ، قمر کو اُٹھا یا تو، اُس کے چاند سے چہرے پر باریک کا نچ کے چند ٹکڑے چُبھ گئے تھے۔ قمر کی آنکھو ں سے آنسو تو نکلے، پرحلق سے آ واز نہیں نکلی۔ ہوٹل میں بیٹھے افراد نے بےحسی سے سب دیکھا، مگر مجال ہے کسی ایک کی زبان سے بھی امتیاز کے خلاف ایک لفظ بھی نکلا ہو۔

قمر گُم صُم کھڑا تھا، وزیر گُھٹنوں کے بَل اُس کے سامنے بیٹھا، اُس کے چہرے سے باریک کانچ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے نکال رہا تھا۔ قمر اگر چائے گرنے والے مقام پر گر جاتا تو اس کی آنکھیں بھی ضایع ہو سکتی تھیں۔ سارے کانچ نکلنے کے بعد قمر کے چہرے پر خون ایسے پھیلا، جیسے شیشے پر لال سیاہی ۔ وزیر نے کندھے سے اپنا صافہ اُتارا، اُس سے قمر کا منہ صا ف کیا ،اُسے ا یک کر سی پربٹھایا اور آ نکھوں میں انگارے لیے ا متیاز کی طر ف بڑھا۔اور اُسے بھی اُتنی ہی شدّ ت سے تھپّڑ ما را اور پھر کہنے لگا’’تیرا تھپّڑ میر ے بیٹے کے گا ل پر نہیں، میر ے د ل پر لگا ہے۔

جا امتیا ز، مَیں نے آ ج سے جوا اور نشہ چھو ڑ دیا۔ کل سے میرا بیٹا تیرے پاس کام نہیں کرے گا۔ ہمارے پیسے نکال، مجھے اپنے بیٹے کو اسپتال لے کر جانا ہے‘‘ امتیاز نے جلدی سے جیب سے پیسے نکا ل کر وزیر کو پکڑا دیئے ۔ قمر کو کرسی سے اُ ٹھا کر وزیر نے فرطِ محبت سے سینے سے لگایا اور و ہاں سے نکل گیا ۔ ’’اُستاد جی ! آپ کے گا ل پر وزیر کی انگلیو ں کے نشان چَھپ گئے ہیں۔نشئی کا ’’طمانچہ‘‘زور دار تھا کیا…؟؟‘‘ویٹر نے سرگوشی کے انداز میں امتیاز سے پوچھا۔ تو وہ اُسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھتا رہ گیا۔

تازہ ترین