آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی بارہویں عالمی اردو کانفرنس کا میلہ چار روز تک رنگ جماتا رہا۔ اس موقع پر جہاں نظر پڑتی تھی، شاعروں، ادیبوں، فن کاروں، مصوروں، صحافیوں اور الیکٹرونک میڈیا کے نمائندوں کی بڑی تعداد دکھائی دیتی تھی۔ چار روزہ کانفرنس کا افتتاح وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کیا۔اگر چہ اس میںعالمی ادب کے حوالے سے اعلیٰ معیاری سیشن ہوئے، لیکن یہاں ہم صرف شوبزنس سے جڑےسیشنز کا ذِکر کریں گے۔ آرٹس کونسل کے اردو میلے میں سب سے زیادہ رنگ شو بزنس کے غالب رہے۔ کانفرنس کے پہلے روز ضیاء محی الدین اور شیما کرمانی نے حاضرین کے دل جیتے تو آخری روز انور مقصود نے میلہ لوٹ لیا۔
کانفرنس کی افتتاحی تقریب دو گھنٹے تاخیر سے شروع ہوئی۔ اس کا فائدہ مداحوں کو ہوا۔ وہ اپنے پسندیدہ فن کاروں اور ادیبوں کے ساتھ سیلفیاں بناتے رہے۔ آرٹس کونسل کے صدر احمد شاہ اور جنرل سیکریٹری پروفیسر اعجاز فاروقی نے ہندوستان، امریکا، چین، جرمنی اور برطانیہ سمیت پاکستان کے مختلف شہروں سے آئے ہوئے سیکڑوں ممتاز شعرا، ادبا اور فن کاروں کو خوش آمدید کہا۔ بارہویں اردو کانفرنس میں اس بار سب سے زیادہ رونقیں دیکھنے میں آئیں، اس کی وجہ یہ تھی کہ اردو کے ساتھ علاقائی زبانوں، سندھی، بلوچی، سرائیکی، پشتو اور پنجابی زبان کے ادب کو بھی شامل کیا گیا۔ اردو میلے میں چار روز تک ادب، ثقافت، موسیقی، رقص، شاعری، ڈراما، فلم، مصوری اور زبان پر گفتگو ہوتی رہی۔نامور صحافی حامد میر، سہیل وڑائچ، انور مسعود،امر جلیل اور کشور ناہید کے سیشنز نے بھر پور توجہ حاصل کی۔البتہ اداکارہ شبنم کی کمی محسوس کی گئی۔
کانفرنس میں خواتین کے ساتھ بچوں نے بھی دل چسی لی اور فوڈ فیسٹیول میں مزیدار کھانوں سے لطف اندوز ہوئے۔ پہلے روز ادبی سیشن کے ساتھ ساتھ پرفارمنگ آرٹ کا جادو بھی چلتا رہا۔ ایک جانب ضیاء محی الدین، مرزا غالب کی ڈیڑھ سو سالہ برسی کے حوالے سے اپنے دل کش انداز میں کلام اور خطوط ِغالب پیش کرتے رہے تو دوسری جانب موسیقار نفیس احمد نے اپنے شاگردوں کے ساتھ غالب کی شاعری کو خوب صورت دُھنوں کے ساتھ پیش کیا، جسے حاضرین نے بے حد پسند کیا۔
نئی نسل کے گائیک، مرزا غالب کے کلام کو نہایت ہنرمندی اور سلیقے سے پیش کررہے تھے، جیسے ہی ضیاء محی الدین غالب کا کلام پڑھ کر تھوڑا سا وقفہ لیتے، تو دوسری جانب نئی نسل کے فن کار غزلیں گانا شروع کردیتے۔ اس موقع پر وقفے وقفے سے ہال تالیوں سے گونجتا رہا۔پہلے روز معروف ترقی پسند ادیبہ ،شاعرہ، سماجی کارکن اور حقوقِ نسواں کی علمبردار، فہمیدہ ریاض کے جشن کا انعقاد نِت نئے انداز میں کیا گیا، نامور فن کار خالد احمد نے تحت الفظ میں فہمیدہ کا کلام پیش کیا، جسے خُوب سراہا گیا۔
بعد ازاں اُن کی نظموں پر بین الاقوامی شہرت یافتہ فن کارہ شیما کرمانی نے گروپ پرفارمنس دی، جسےبہت پسند کیا گیا۔تقریب کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر آصف فرخی نے انجام دیے۔ عالمی اُردو کانفرنس کے تیسرے روز ”پاکستانی ثقافت، تخلیقی و تنقیدی جائزہ“ کے موضوع پر عمدہ گفتگو کی گئی۔نظامت کے فرائض معروف نقاد،سید جعفر احمد نے بہ خوبی انجام دیے۔
اس موقع پر ممتاز ڈراما نگار امجد اسلام امجد کا کہنا تھا کہ یہ بات سمجھنی ضروری ہے کہ حملہ آوروں نے اس خطے کو بار بار روندا۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ تاریخ کے فیصلے نا پسندیدہ رہے۔ اس کو ماننا ہو گا اور جو غلطیاں ہوئیں اس کا ازالہ کرنا ہو گا۔ اس ترتیب نو میں انصاف سے کام لینا ہو گا کہ جو حق اپنے لیے مانگتے ہیں، دوسرے کے لیے بھی مانگنا چاہیے۔ معروف دانش ور قاسم بگھیو نے کہا کہ ثقافت لوگوں سے ہوتی ہے اور یہاں کے علاقوں میں رہنے والوں نے ہمیشہ نئی نئی ثقافتیں پروان چڑھائیں۔ پاکستان کی ثقافت کی خصوصیت یہ ہے اس کو ہم سب نے مل کر پروان چڑھائیں۔ یہ سلسلہ جاری رہا تو ہم سب اپنی ثقافتوں کو محفوظ رکھتے ہوئے پاکستان کی ثقافت کو مضبوط کر سکیں گے۔ صوبائی وزیر ثقافت سید سردار علی شاہ نے کہا کہ برِصغیر میں سندھ واحد صوبہ ہے، جہاں زبان کے تحفظ کے لیے پہلی یونی ورسٹی قائم کی جا رہی ہے۔
قومی ثقافتی پالیسی کے لیے ضروری ہے کہ وفاق تمام یونٹوں سے مشاورت اور اتفاق کرے، یہ ممکن نہیں کہ پالیسی کوئی اور بنائے اور مجھ سے کہا جائے کہ میں اس کا سپاہی بن جاؤں، پاکستان پانچ قومیت کا ملک ہے، جن کا ہزاروں سال پرانا ثقافتی ورثہ ہے،جس کو محفوظ کرنا بھی ضروری ہے۔ ممتاز صحافی غازی صلاح الدین کا کہنا تھا کہ ہم اس وقت تہذیبی پسماندگی کا شکار ہیں، اس کا دور ہونا ضروری ہے۔ اس کے لیے جمہوری آزادیوں کا ہونا لازمی ہے۔ معروف ادیبہ ثروت محی الدین نے کہا کہ ثقافت رہن سہن کے طریقہ کار سے بنتی ہے۔ زندگی گزرنے کے ساتھ ہر چیز میں تبدیلی آتی ہے، اس کے اثرات ثقافت پر بھی پڑتے ہیں۔ رہن سہن کے طریقے تبدیل ہوتے ہیں۔ اباسین یوسف زئی نے کہا کہ ہماری الگ الگ پہچان ہے، یہی ہمارے معاشرے کی پہچان ہے۔
ادیب سب کے لیے لکھتے ہیں۔ سب ثقافتوں میں بہت ساری چیزیں مشترک ہے۔ ممتاز ڈراما نگار نور الہدیٰ شاہ کا کہنا تھا کہ فطری ارتقاءکے سامنے غیر فطری دیوار کھڑی کرنے سے دیوار بار بار گرے گی، اس کو دوبارہ تعمیر کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں مختلف ثقافتیں رکھنے والی قومیں ایک دوسرے کا منہ نوچتے رہے ہیں۔ ایک دوسرے سے بہت شکایتیں ہیں، مگر ہم کسی اور کے مفاد کے لیے استعمال ہوئے۔ اس میں ہم درجہ بندیوں میں تقسیم ہوئے اور احساس برتری اور احساس کم تری میں مبتلا ہوئے، مگر اب یہ سمجھ گئے کہ ہم سب استعمال ہوئے اور سلسلے میں سب سے زیادہ ادیب ہی استعمال ہوئے۔ افضل مراد نے کہا کہ جس خطہ سے میرا تعلق ہے، وہاں کے لوگ اجنبیت محسوس کرتے ہیں، حالاں کہ بہت کچھ مشترک ہیں۔ ان سب کو جوڑنے کی ضرورت ہے۔ معروف ڈراما نگار اصغر ندیم سید نے کہا کہ کآرپوریٹ کلچر نے تہذیبوں کو نقصان پہنچایا، ہر چیز فروخت ہو رہی ہے۔ اس کی نشاندہی غالب نے بہت پہلے کر دی تھی۔ اس خطے کے میوزک کی الگ الگ شناخت تھی ۔ ممتاز صحافی نذیر لغاری نے کہا کہ دریائے سندھ کے اطراف میں رہنے والے ایک تہذیب کا حصہ رہے ہیں۔ ضروری نہیں کہ یہ سارے خطے ایک وفاق رہے ہوں۔
ایک اور دل چسپ پروگرام مشہور نغمہ نگار سُرور بارہ بنکوی کی ’’کلیات سُرور‘‘کے اجرا کا ہوا، جس میں ماضی کی مشہور اداکارہ شبنم کو شرکت کرنی تھی، مگر وہ کسی وجہ سے شریک نہیں ہوسکیں۔ممتاز شاعر افتخار عارف ، ذکیہ سرور ، اشفاق حسین اور حوری نورانی نے گفتگو کی، جب کہ نظامت کے فرائض آصف فرخی نے انجام دیے۔ اس موقع پر سُرور بارہ بنکوی پر ایک ڈاکیومنٹری ویڈیو دکھائی گئی، جسے آرٹس کونسل آف پاکستان کے ارکان نے بنائی تھی یہ وڈیو 1919 سے 1980 تک کی فلموں اور گانوں کی جھلکیوں پر مبنی تھی۔ تیسرے دن ایک اور شان دار گفتگو ”پاکستان میں فنون کی صورت حال“ کے موضوع پر ہوئی، جس میں شوبزنس کی معروف شخصیت قوی خان، منور سعید، خالد انعم ، شیما کرمانی، حسینہ معین، ایوب خاور، کیف غزنوی اور شاہد رسام نے حصہ لیا، جب کہ میزبانی کے فرائض معروف اداکار نور الحسن نے انجام دیے، مقررین کا کہنا تھا کہ ٹی وی ڈراموں کے ڈائریکٹرز اور فن کاروں کی کبھی بھی ریٹائرمنٹ نہیں ہوتی، کیوں کہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کا تجربہ بڑھتا رہتا ہے۔
آج کا ڈراما آرٹسٹ اس لیے خوش حال ہے کہ اسے پیسے زیادہ مل رہے ہیں۔ قوی خان کا کہنا تھا کہ میں نے درجنون فلمیں بنائیں اور بہت نقصان اٹھایا ہے۔ میں نے ٹیلی ویژن کو آج تک تنہا نہیں چھوڑا۔ ہمارے یہاں فلم بنانے میں بہت وقت لگتا ہے، جب کہ مغرب میں جو فلمیں بنائی جا رہی ہیں، وہ ایک سے ڈیڑھ ماہ میں مکمل ہو جاتی ہیں، جس کی وجہ یہ ہے کہ فلم سے وابستہ ہر شخص اپنے کام خود کرتا ہے اور وقت کو ضائع نہیں کرتا۔ کچھ نئی فلموں میں، میں نے بھی کام کیا ہے۔ نئے لوگ اچھا کام کررہے ہیں، مگر ابھی فلم کے مسائل بہت ہیں، انہیں ٹھیک ہونے میں وقت لگے گا۔
اداکار منور سعید نے کہا کہ سارا مسئلہ اقتصادی ہے، گھر کو چلانے کے لیے رقم کی ضرورت پڑتی ہی ہے، پچاس سال پہلے جب ہم نے کام شروع کیا تھا، تو اس وقت اداکاری کو ہم اپنا کیریئر نہیں بنا سکتے تھے، اس لیے ادا کاری کے ساتھ ساتھ ملازمت بھی کیا کرتے تھے، مگر اب چوں کہ ٹیلی وژن 24گھنٹے چل رہا ہے اور بے شمار چینلز آگئے ہیں، لہٰذا اب اسے کیریئر بنایا جا سکتا ہے، مگر یہ خیال رہے کہ صرف کیریئر بنانا ہی مقصد نہیں ہونا چاہیے ، بلکہ فنون کی ترویج بھی ہونی چاہیے،کئی سپر ہٹ ڈراموں کی خالق حسینہ معین نے کہا کہ آج کے ڈرامے اپنی تہذیب کو بھول چکے ہیں، کئی مکالمے تہذیب کے دائرے سے باہر ہوتے ہیں،اس پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔
شیما کرمانی نے کہا کہ آج کے دور میں تھیٹر پر مزاح کا مزاج ہی بدل گیا ہے ، انسانوں کے رنگ و روپ اور ذات کو نشانہ بنا کر اس گفتگو کو مزاح کا نام دیا جاتا ہے ،جب کہ وہ کسی بھی طور مزاح نہیں ہو سکتا، کیون کہ وہ انسان کی تذلیل ہے، یہ ذمے داری ڈائریکٹرز کی بھی ہے کہ وہ ان پر نظر رکھیں کہ ان کے ڈرامے میں کسی کی بھی تذلیل کا پہلو نہ آنے پائے۔ سینئر اداکارہ ثمینہ احمد نے کہا کہ ہم مشکل پسند ہونے کے بجائے روز بہ روز آرام طلب ہوتے جا رہے ہیں، اصل مارکیٹنگ تو وہ ہے کہ جب کوئی چیز مارکیٹ میں نہ بِک رہی ہو اور آپ اسے فروخت کر کے دکھائیں، اسی طرح فنون سے وابستہ مارکیٹنگ کے افراد کا یہ کام ہے کہ وہ کلاسیکل کام کو آگے بڑھائیں اور عام عوام تک پہنچائیں۔ اداکار خالد انعم کا کہنا تھا کہ معاشرہ اعتدال پسند ہونا چاہیے، اب اگر کوئی ریڈیو چلانے والا ٹی وی چینل چلائے گا تو وہ اپنی سوچ کے مطابق ہی چلائے گا۔ جب تک پروفیشنلز کو کام نہیں دیا جائے گا، فنون کا معاملہ دُرست نہیں ہوگا، مسئلہ سارا اس وقت خراب ہوا، جب تخلیقی کاموں پر مارکیٹنگ نے قبضہ کر لیا ، یہاں تک کے بعض ڈائریکٹرز کی طرف سے بچوں کے پروگرام میں ہوٹ گرل رکھنے کی فرمائش بھی کی جاتی ہے۔ ڈراما نگار ایوب خاور نے کہا کہ پہلے زمانے میں پروفیشنلز یہ طے کرتے تھے کہ ہم نے کیا دکھانا ہے، اب مالکان طے کرتے ہیں کہ کیا دکھایا جائے گا۔
یہ فن کاروں کی بھی ذمے داری ہے کہ اگر اسے کردار غلط لگے، تو وہ اسے کرنے سے منع کر دے۔ شاہد رسام نے کہا کہ کئی لوگ کہتے ہیں کہ کلاسیکل موسیقی کو وہ مقام نہیں مل سکا، جو اس کا حق ہے، مگر یہ کہنے والوں سے کوئی یہ تو سوال کرے کہ انہوں نے خود اس معاملے میں اپنا کیا کردار ادا کیا، بات صرف ذمہ داری نبھانے کی ہے باتیں تو سبھی کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ فنون کے حوالے سے بہت ساری باتیں اس لیے عام عوام تک نہیں پہنچ سکیں کہ ہمارا معاشرہ گرد آلود ہے۔ ہم دوسروں پر اپنا خیال مسلط کرنے والے کون ہوتے ہیں، دوسرے کو کیا دیکھنا ہے یا کیا کرنا ہے، اس کا فیصلہ اسے خود کرنے دیں، آرٹ آپ کی روح سے گرد کو صاف کرتا ہے۔ کیف غزنوی نے کہا کہ جس زمانے میں جو کام کیے گئے، وہ اس زمانے کے لحاظ سے دُرست سمجھے گئے، مگر اب چوں کہ ٹیکنالوجی کی رفتار بہت تیز ہو چکی ہے، لہٰذا کچھ سال یا کچھ ماہ پہلے کی ہوئی چیز آج مناسب نہیں لگ رہی۔
عالمی اردو کانفرنس میں معروف کمپیئر نعیم بخاری کے ساتھ ایک سیشن رکھا گیا۔ اس موقع پر معروف اداکار ارشد محمود نے ان سے دل چسپ سوالات کیے۔ نعیم بخاری نے معروف ادیب منو بھائی، فیض احمد فیض اور احمد فراز کے حوالے سے دل چسپ واقعات سنا کر محفل کو زعفران بنائے رکھا۔کانفرنس کا آخری دِن ممتاز دانش ور، ڈراما نگار انور مقصود کے نام رہا۔ انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں ’’مرزا غالب سے مکالمہ ‘‘سنایا۔ اس موقع پر انہوں نے طنز و مزاح کا طوفان برپا کردیا۔
انہوں نے مختلف موضوعات کو ہلکے پھکے مزاح کے انداز میں حاضرین کے گوش گزار کیا، جسے شرکاء کی جانب سے بے حد سراہا گیا۔ انہوں نے اپنے مکالمے میں قومی کرکٹ کے چیف سلیکٹر اور ہیڈ کوچ مصباح الحق کے ساتھ سابق صدر آصف زرداری کا بھی ذکر کیا۔ یہ ذکر بھی چھیڑا کہ سیاست دانوں کو ان دنوں کن بیماریوں کی تلاش ہے؟معروف شاعرہ فہمیدہ ریاض اور فیض احمد فیض کے درمیان مکالمے کو بھی دل چسپ انداز میں پیش کیا۔ انور مقصود کے سیشن میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے شرکت کی، جن میں وزیر ثقافت سید سردار علی شاہ، آئی جی سندھ سید کلیم امام، اداکار قوی خان، ادیبہ حسینہ معین، ادیب رضا علی عابدی، صوبائی وزیر شہلا رضا، بہروز سبزواری، ایاز خان سمیت دیگر شامل تھے۔
شرکاء انور مقصود کے دل چسپ مکالمات سے لطف اندوز ہوت رہے۔ اجلاس کے آخر میں وزیر ثقافت سندھ سید سردار علی شاہ نے انور مقصود کو گلدستہ پیش کیا۔ اختتامی اجلاس سے خطاب میں صدر آرٹس کونسل احمد شاہ نے کہا کہ گزشتہ 12برس سے عالمی اُردو کانفرنس کے انعقاد کا سلسلہ کام یابی سے جاری ہے اور ائندہ بھی جاری رہے گا۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ 12برس میں جتنے ادیب، شاعر اور ادبی شخصیات جو کانفرنس کا حصہ تھے، جو اب ہم میں نہیں رہے، ان سب کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں ان تمام شخصیات کی کمی عالمی اُردو کانفرنس میں ہمیشہ محسوس ہوتی رہے گی۔
محمد احمد شاہ کا مزید کہنا تھا کہ صرف پاکستان بھر سے نہیں بلکہ پوری دُنیا سے جتنے ادیب، شاعر اور مصنف عالمی اُردو کانفرنس میں شریک ہوئے ہیں، ان سب کو کانفرنس کے کام یاب انعقاد پر مبارکباد پیش کرتا ہوں، آئندہ برسوں میں بھی علم و ادب کے خزانے لٹاتی اس کانفرنس کا انعقاد کرتے رہیں گے۔آخر میں انہوں نے اہلیانِ کراچی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ کراچی علم و ادب سے محبت کرنے والے زندہ دلوں کا شہر ہے، جنہوں نے بڑی تعداد میں اس کانفرنس کا حصہ بن کر اسے کام یابی سے ہمکنار کیا۔ڈاکٹر ایوب، ڈاکٹر ہما میر،عظمیٰ الکریم، ہما بقائی،عاصمہ شیرازی اور محمد احمد شاہ نے مختلف سیشن کی نظامت خوب صورت انداز میں کی۔ اس طرح اپنی نوعیت کی شان دار عالمی اردو کانفرنس اختتام پزیر ہوئی۔