• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے بہتّر سالہ دورِ آزادی میں بڑے نازک موڑ آئے کیونکہ ہم نے اپنا جغرافیہ خود تخلیق کیا تھا۔ انگریزوں نے فوجی طاقت کے بل بوتے پر 1857میں مسلمانوں سے حکومت چھین لی اور ہندو اکثریت کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ وہ علمائے حق جو انگریزوں کے خلاف مزاحمت کا عظیم الشان کردار ادا کرنے پر کمربستہ تھے، اُنہیں سولی پر چڑھا دیا یا کالے پانی بھیج دیا۔ مسلمان ایک طرف انگریزوں کا جور و ستم سہہ رہے تھے اور دُوسری طرف ہندو آبادی اُن سے اپنی ایک ہزار سالہ غلامی کا انتقام لینے پر تلی ہوئی تھی۔ ایک طویل سیاسی جدوجہد کے بعد قائدِاعظم محمد علی جناح کی صدارت میں آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس منٹو پارک، لاہور میں منعقد ہوا اور پورے ہندوستان سے ایک لاکھ مندوبین نے شرکت کی۔ دو روزہ غور و خوض کے بعد قراردادِ لاہور منظور ہوئی جس میں مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا گیا۔ سات سال کی جاںگسل کشمکش کے بعد 14؍اگست 1947ء کی شب پاکستان وجود میں آیا جو حُسنِ اتفاق سے لیلۃ القدر تھی۔

12مارچ 1949کو پاکستانی قوم کے نمائندوں نے ’قراردادِ مقاصد‘ کے ذریعے اپنے رب سے ایک عہد کیا جس کا پہلا نکتہ یہ تھا کہ اقتدار ایک مقدس امانت ہے جسے فقط عوام کے چنے ہوئے نمائندے بروئے کار لانے کے حقدار ہوں گے۔ دوسرا یہ کہ مسلمانوں کو اپنی اِنفرادی اور اِجتماعی زندگی میں قرآن و سنت کے احکام بجا لانے کے قابل بنایا جائے گا۔ تیسرا یہ کہ غیر مسلم اقلیتیں اپنے عقائد پر عمل پیرا ہونے اور اپنی تہذیب و معاشرت کو فروغ دینے میں پوری طرح آزاد ہوں گی۔ چوتھا یہ کہ تمام شہری قانون کی نگاہ میں برابر ہوں گے اور اُنہیں انصاف مہیا کیا جائے گا۔ پانچواں عہد یہ کہ عدلیہ آزاد ہو گی، اظہار اور اِجتماع کی مکمل آزادی ہو گی اور جمہوری رویوں کی پابندی کی جائے گی۔ یہ بیسویں صدی کا ایسا ایک عظیم الشان عہدنامہ تھا جس کی نظیر کسی اور مسلم ریاست میں نہیں ملتی۔ پاکستان کے آغاز ہی میں لٹی پُٹی مسلم آبادی ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آئی جسے مقامی لوگوں نے سینے سے لگایا اور ہجرتِ مدینہ کی یاد تازہ ہو گئی۔ عوام کے جذبۂ ایثار اور شبانہ روز محنت سے مملکتِ خداداد پہاڑوں جیسے مسائل پر قابو پانے میں کامیاب رہی، مگر بدقسمتی سے ستمبر 1948میں قائدِاعظم رحلت فرما گئے اور اکتوبر 1951میں اُن کے دستِ راست نوابزادہ لیاقت علی خاں راولپنڈی میں شہید کر دیے گئے۔ اِس کے بعد جن حوادث نے جنم لیا، وہ آج تک ہمارا تعاقب کر رہے ہیں۔

آج ہم اپنی سوسائٹی میں جو اعصاب شکن مناظر دیکھ رہے ہیں، اُن کی جڑیں بہت گہری اور دُور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ میرے منہ میں خاک، لیکن آثار یہ بتا رہے ہیں کہ ہمارا معاشرہ ٹوٹ رہا ہے۔ لاہور کے اسپتال پر حملہ محض ایک وقوعہ نہیں بلکہ ایک سلسلۂ حادثات ہے جو ہمیں ایک خوفناک انجام کی طرف دھکیل رہا ہے۔ یہ جو چند نوجوان وکلا ہر وقت طیش میں دکھائی دیتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی باتوں پہ تشدد پر اُتر آتے ہیں اور یہ جو کچھ نوجوان ڈاکٹر ہفتوں ہڑتال پر چلے جاتے ہیں اور مریضوں کے علاج سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں اور یہ جو چند اساتذہ، طلبہ کی تعلیم سے غافل رہتے ہیں، یہ سب کے سب ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کے مظاہر ہیں جو شدید ناانصافی، عدم مساوات، تنگ نظری اور زور آوری کے ماحول میں نشوونما پاتا ہے۔ مختلف طبقات کے انسانیت سوز رویوں سے مجھے بہت خوف محسوس ہو رہا ہے۔ صاحبانِ اقتدار کے اعمال سے ایسا لگتا ہے کہ اُنہیں خوفِ خدا ہے نہ فکرِ آخرت۔ اُن کی زبانیں انسانی رشتے کاٹنے والی قینچیاں بنی ہوئی ہیں اور اُن کی نااہلی اور غیر سنجیدگی پورے نظم و نسق اور رِیاستی اداروں کو مفلوج کیے دے رہی ہے۔ خوف اور بے یقینی کے سایوں میں سرکاری عمّال نے دیانت داری اور فرض شناسی سے کام کرنا چھوڑ دیا ہے جبکہ پولیس شتر بے مہار ہو گئی ہے۔ سیاسی جماعتیں جو معاشرے کو متحد رکھتی ہیں، موروثیت کی علامت بن کے رہ گئی ہیں اور بالعموم ’طاقت وروں‘ کے سامنے سرنگوں رہتی ہیں۔ دراصل ہمارے ہاں جتھوں کی حکمرانی کا چلن عام ہوتا جا رہا ہے۔ بلاشبہ ہمارے ملک میں اعلیٰ اخلاق اور بے پناہ صلاحیتوں کے حامل اولوالعزم افراد بھی ہیں اور جماعتیں بھی، لیکن ہر سطح پر وہ لوگ غالب آتے دکھائی دیتے ہیں جو بلا کے حریص، جھگڑالو، توازن سے عاری اور حد درجہ ابن الوقت ہیں۔

یہ سب کچھ اِس پاکستان میں کیونکر وقوع پذیر ہوا جو انوارِ الٰہی سے معمور لیلۃ القدر میں دنیا کے نقشے پر جلوہ گر ہوا تھا۔ یہ اِس لیے ہوا کہ ہم نے قراردادِ مقاصد میں اپنے رب اور اَپنے عوام سے جو عہد باندھا تھا، اُس پر خلوصِ نیت اور صدقِ دل سے عمل نہیں کیا۔ ہماری حکمران اَشرافیہ نے اقتدار کو ایک مقدس امانت سمجھنے کے بجائے اسے عوام کی گردنوں پر سوار ہونے کا ایک پُرشکوہ ذریعہ سمجھ لیا۔ پھر ایک مخصوص طبقہ اِس کا مالک بن بیٹھا جسے عدلیہ کی معاونت بھی حاصل رہی۔ آئین اور قانون کی بالادستی کا تصور کمزور پڑتا گیا اور جس کی لاٹھی، اُس کی بھینس کا کلچر حاوی ہو چکا ہے۔ عدل و مساوات، مشاورت، قومی مفاہمت اور عوام کی اقتدار میں حقیقی شمولیت کے راستے مسدود ہو جانے سے لوگ جتھوں کی صورت میں منظم ہونے لگے ہیں۔ لاہور میں امراضِ قلب کے اسپتال پر دھاوا بولنے والے نوجوان وکیلوں کا طرزِعمل اِسی جتھے بندی کا شاخسانہ اور حکومتی مشینری کی انتہائی نااہلی کا کھلا ثبوت تھا۔ اب یہ تاثر عام ہے کہ غیر آئینی اور غیر قانونی طریق اختیار کرنے ہی سے اپنی حاکمیت اور چوہدراہٹ قائم کی جا سکتی ہے۔ وہ تمام بنیادی عناصر جو معاشرے کو باندھ کر رکھتے ہیں، ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ محض ڈاکٹروں اور وکیلوں کے مابین صلح صفائی کا معاملہ نہیں، یہ تو ایک ہمہ پہلو جراحی کا سخت جان مرحلہ ہے جو ایک عظیم اخلاقی انقلاب، دستور کی بالادستی اور سخت ترین خود احتسابی اور داخلی ہم آہنگی کا متقاضی ہے۔ ہماری قلبی حالت کا سراغ مصحفیؔ نے بہت پہلے لگا لیا تھا اور شاعرانہ لہجے میں کہا تھا کہ ’تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا‘۔

تازہ ترین