• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب الف انار کی کہانی اپنے انجام کو پہنچتی ہے تو پھر انار-کی-کلی سرِ بازار برہنہ ناچنے لگتی ہے اور جب ’’سیاسی ٹوٹے‘‘ سیاسی ٹوٹکوں پر اُتر آئیں تو پھر ہر طرف انارکی پھیلنے لگتی ہے اور یہیں سے معاشروں کی تباہی کی کہانی شروع ہوتی ہے۔ انار کلی سے انارکی تک کا سفر یونہی طے نہیں ہوتا اس سفر کو انجام تک پہنچانے کے لئے کئی کردار اپنی اپنی حرکتوں اور شرارتوں سے اسے آسان سے آسان تر بناتے چلے جاتے ہیں۔ شدید اضطراب اور شش و پنج کی کیفیت میں یہ خوف طاری ہے کہ آخر انارکی کا اصل مفہوم کیا ہے۔ یہ کیسے جیتے جاگتے معاشروں کو زندہ درگور کر دیتی ہے، اس کے پیچھے کیا محرکات ہوتے ہیں جو انارکلی سے ہرطرف انارکی پھیلنے لگتی ہے۔ کیا کبھی کسی نے سوچا ہے کہ اس انارکی سے ہونے والی تباہی کا انجام کیا ہوگا؟ انارکی پھیلانے والے عناصر کیا کیا انداز اختیار کرتے ہیں اور کیسے اس گھنائونے کھیل کو منطقی انجام تک پہنچاتے ہیں۔ ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک ایک سیاسی نفرت سے بھرا ٹویٹ نظروں سے گزر کر دماغ کے آخری کونے تک کو گھما گیا اور مجھے انارکی کا حقیقی مفہوم مطلب و مطلوب آسان لفظوں میں سمجھا گیا کہ تنگ نظر، گھٹیا سوچ رکھنے والے ایسے گروہ، شخصیات یا پوشیدہ عناصر جو غیر محسوس انداز میں عام لوگوں کی رگوں میں شر پسندی کا ایسا زہر گھولتے ہیں اور بار بار میں نہ مانوں کی رٹ لگا کر طاقت کے زور پر ریاستی رٹ اور حکومتی نظام کو چیلنج کرتے ہوئے قانون کی دھجیاں بکھیرنے لگتے ہیں اور قانون و انصاف کا اپنے کندھوں پر جنازہ اٹھائے پھرتے ہیں اور گلیوں، بازاروں، اسپتالوں میں انسانیت کو اپنے پائوں تلے روندتے ہیں۔ جیتے جاگتے انسانوں کو قتل کرنے کے بعد لاشوں پر ناچتے اور اپنی فتح کا نشان بناتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو مخالفین کا ٹھٹھہ مذاق بھی اڑاتے ہیں۔ معزز شہریوں، قانون نافذ کرنے والوں، انصاف دینے والوں کے گریبانوں کو اپنے ہاتھوں سے چاک کرتے ہیں اور ملزموں کے کٹہرے سے نکل کر منصفوں کی کرسی پر قبضہ جماتے ہیں۔ انصاف کے ایوانوں میں دست و گریبان ہوکر کرسیاں چلاتے ہیں اور سر بازار انصاف کی متلاشی خواتین کی عزتیں اُچھالتے ہیں۔ وہ دراصل انصاف کی انارکلی کو دیوار میں چنوا کر نہ صرف انارکی پھیلاتے ہیں بلکہ اپنے اندر کی درندگی چھپا کر اپنا کالا قانون جنگل میں نافذ کرکے انتشار کے پرچارک اور محرک بنتے ہیں۔ ایسے عناصر اپنے مذموم سیاسی مقاصد کے حصول کی خاطر ہر وہ کام کر گزرتے ہیں جس سے ریاست مفلوج ہو اور ان کے اندر کے درندے کو سکون میسر آسکے۔ کالا کوٹ آج اپنے اندر کی اسی درندگی کا نشان بنتا جا رہا ہے اور ریاست اس کے سامنے بالکل بے بس ہو چکی ہے۔ بس یہی الف انارکی کی اصل کہانی ہے۔ الف انار سے شروع کہانی کسی نہ کسی کی ایسی کی تیسی پھیر کر ایسا تعفن پھیلاتی ہے کہ جب وہ اپنے انجام کو پہنچتی ہے تو پھر ہر طرف تباہی ہی تباہی نظر آتی ہے اور ایک دن ایسا بھی آتا ہے کہ رضا ربانی جیسے باوقار سیاستدان، جمہوریت نواز، دلیر، وضع دار بھی پٹری سے اتر کر ایسی ٹرین پر سوار ہو جاتے ہیں جس کی کوئی منزل نہیں ہوتی۔ یہ بات ناقابلِ فہم ہے کہ رضا ربانی صاحب کی عمر کا تقاضا ہے یا کوئی مجبوری جو انہوں نے سانحہ لاہور میں متاثرین سے ہمدردی کے بجائے اسپتال پر دھاوا بولنے والوں کی حمایت کر دی۔ یہ ہمارے سیاسی ٹوٹکوں کا ہی کمال ہے کہ آج وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت بھی یہ کہنے لگے ہیں کہ وکلا اور ڈاکٹر اپنی اپنی صفوں میں شر پسند عناصر پر خود نظر رکھیں اور نشاندہی کریں تو حیرت ہی ہوگی کہ آخر انہیں یہ وزارتِ قانون پر عملدرآمد کرنے کیلئے دی گئی ہے یا پھر قانون شکنوں کو ان کے حال پر ہی چھوڑ دینے کیلئے۔ سیاسی ٹوٹے جب سیاسی لوٹے بنتے ہیں تو پھر یہ سب کچھ بھول جاتے ہیں کہ انہیں عوام نے کس مقصد کے تحت اپنے ووٹ کی طاقت سے منتخب ایوانوں تک پہنچایا۔ انارکی زدہ معاشرے کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ معاشرے کے منصف خوف و مصلحت کا شکار ہو جاتے ہیں اور انارکی پھیلانے والوں کے دبائو میں آکر انصاف کے وہ تقاضے پورے نہیں کرتے جس کی ان سے توقع کی جا سکتی ہے۔ پھر یہ سوچنا پڑتا ہے کہ آخر انصاف کے ترازو کے سامنے قانون کی دیوی اندھی اور خاموش کیوں کھڑی رہتی ہے اور یہ کالے کوٹ کا رنگ کالا ہی کیوں ہوتا ہے؟ اس کا رنگ سفید کیوں نہیں ہوتا؟ اور انصاف کی دیوی کی آنکھوں پر پٹی کیوں بندھی رہتی ہے؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین