پاکستان خاص طور سے سندھ کے قبائلی علاقوں میں کسی بھی خاتون، مرد یا دونوں کا غیرت کے نام پر قتل قابل فخر تصور کیا جاتا ہے۔اس طرح کے قتل جو جرگے کےحکم پرملکی قوانین سے ماوراء کیے جاتے ہیں ، ان کے مرتکب ملزمان کےلیے’’سیاہ کار‘‘ ، ’’سیاہ کارہ‘‘ ،’’کارا‘‘ یا ’’کاری‘‘ جسے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ کارو کاری کی بھینٹ ایسے’’ مبینہ ملزمان‘‘ کو چڑھایا جاتا ہےجنہوں نے قبیلے کے ’’معززین ‘‘ کی نظر میں خاندان کی عزت کو داغ لگایا ہو۔غیرت کے نام پر قتل کو ان قبائلی علاقوں میں ضروری عمل تصور کیا جاتا ہے اور اگرمذکورہ ملزمان کے رشتہ دار اس روایت سے انحراف کریں تو ان کا سماجی بائیکاٹ کر دیا جاتا ہے۔
اس قبیح رسم کی نذر کیے جانے والوں میں زیادہ تر بے گناہ فراد کی ہوتی ہے جو بااثر شخصیات یا وڈیروں کی ذاتی مخاصمت، یا زمین جائیداد کے تنازعات کی وجہ سے جرگے کے فیصلے کے تحت موت کے گھاٹ اتار دیئے جاتے ہیں۔سال 2019 کےپہلے 6 ماہ کے دوران غیرت کے نام پر 78سے زائدافراد کو قتل کیا گیا جن میں سے زیادہ تعداد خواتین کی تھی۔ قتل کے ان واقعات میں سے صرف 65 کیسز کی ایف آئی آر درج ہوئی ہیں۔21نومبر کودادو کے علاقے جوہی میں ایک 11 سالہ لڑکی کو کاری قرار دے کر سنگسار کیا گیا اور پھر دفنانے کے بعد بھی جہالت اور شقی القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی قبر کو بھی پھانسی دی گئی۔
چند ہفتے قبل ایسا ہی ایک واقعہ نواب شاہ میں بھی پیش آیا جس میں ملزمان نے ایک لڑکی کو کاری قرار دے کر قتل کردیا۔ مذکورہ افراد ’’کاریو ں آھیو‘‘ ۔کے نعرے لگا کر گائوں علی نواز چانڈیو میں واقع لائق خان چانڈیو کے گھر میں داخل ہوئےاورتیرہ سالہ صائمہ پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی ۔ایف آئی آر کے مطابق وہ صائمہ سے کہہ رہے تھے کہ تو کاری ہے اور ہمیں گائوں کے بڑوں نے بتایا ہے کہ تم دوسری قوم کے لڑکے کے ساتھ باتیں کرتی ہو ۔
یہ کہہ کر مٹھو اور عمر چانڈیو جن کے ہاتھ میں رپیٹر تھے صائمہ پر گولیاں داغنا شروع کردیں وہ زخموں سے چورہوکر زمین پرگر گئی اور اس کی روح قفس عصری سے پرواز کر گئی اس اثناء میں دونوں ملزمان نے اس کی چھوٹی بہن آٹھ سالہ مائرہ کو جوکہ اس روح فرسا منظر کی تاب نہ لاکر کچے گھر کے برآمدے میں چھننے کی کوشش کر رہی تھی، دونوں قاتلوںنے اس پر بھی یہ کہہ کر فائر کرنا شروع کردیئےکہ تو بھی کاری ہے اور آٹھ سالہ مائرہ کو خاک اور خون میں نہلادیا ۔ملزمان نعرے لگا رہے تھے کہ انہوں نے کاریوں کو کیفر کردار تک پہنچادیا ہے ۔
یہ کسی فلم کا اسکرپٹ نہیں بلکہ تھانے میں درج کی جانے والی ایف آئی آر کا متن ہے جو کہ چند روز قبل قتل ہونے والی بچیوں کے والد لائق چانڈیو نے پبجو پولیس اسٹیشن پردرج کرائی تھی۔ ایف آئی آر کے مطابق شبیر چانڈیودلی جان چانڈیو ، جنسار چانڈیو اور گل بہارنے مٹھو چانڈیو اور عمر چانڈیو کو بچیوں کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا، اس لیے وہ بھی قاتل ہیں۔ ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ دونوں قاتلوں کے منہ کھلے تھے اور دن دہاڑے وہ گھر میں داخل ہوئے تھے ۔ایف آئی آر کے اندر اج کے بعد پولیس نے ایک ملزم کو پولیس نے گرفتار کرلیاجبکہ دیگر مفرورہیں۔ اس سلسلے میں یہ بھی اطلاع ہے کہ ایک ملزم عدالت میں ضمانت قبل از گرفتاری کرانے کے لیے پہنچا تاہم درخواست مسترد ہونے کے بعد تھرڈ ایڈیشنل سیشن کورٹ کے احاطہ سے بھاگ نکلا ۔
ایس ایس پی تنویر تنیو نےایک ملاقات میں قتل کی وجوہات کے بارے میں نمائندہ جنگ کو تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ گوٹھ علی نواز چانڈیو کے ساتھ ڈاھریوں کا گوٹھ واقع ہے اور کچھ عرصہ قبل گل بہار چانڈیو نامی شخص نے جو کہ اپنے کھیت میں کھڑا تھا مقتولہ صائمہ پر الزام عائد کیا کہ اس نے اس لڑکی کو ڈاھری قوم کے ایک لڑکے سے بات کرتے دیکھا ہے ۔ اس واقعے کے بعد ڈاھری اور چانڈیو برادری کے بعض افراد کے درمیان تلخ کلامی کے بعد ہاتھا پائی ہوئی ، تاہم پولیس کی مداخلت کے بعد معاملہ رفع دفع ہو گیا۔ تاہم چند ہفتے قبل اچانک دونوں بچیوں کے سفاکانہ قتل کا واقعہ رونما ہوا۔ ان کا کہنا تھاکہ ایک ملزم عمر چانڈیو کے بھائی کی منگنی صائمہ کے ساتھ طے تھی۔
تاہم مذکورہ بچیوں کو کاری قرار دے کر قتل کرنے والے دونوں ملزمان کے علاوہ مقدمہ میں نام زد دیگر ملزمان کی مقتول بچیوں اور ان کے والدین کے ساتھ کسی قسم کی قریبی رشتے داری نہیں تھی۔ ایس ایس پی تنویر حسین تنیو نے بتایا کہ ایف آئی آر کے اندراج کے بعد پولیس نے ملزمان کی گرفتاری کے لئے ان کے گھروں پر چھاپہ مارا تو معلوم ہو کہ وہ گائو ں چھوڑ کر فرار ہو چکے ہے تاہم ایک ملزم کو پولیس نے گرفتار کرلیا جبکہ دیگر کی تلاش کے لئے چھاپے مارے جارہے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دونوں بچیوں کے قتل کے بعد ڈاھری اور چانڈیو قبلے کے درمیان قبائلی تصادم کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا لیکن پولیس کی جانب سے بھرپور اقدامات کے باعث بعد معاملہ آگے نہیں برھ سکا ۔ان کا کہنا تھا کہ دیگر ملزمان کو بھی جلد گرفتار کرلیا جائے گا۔
دوسری جانب بچیوں کے والد لائق خان چانڈیونے اپنے گھر کی خواتین ،بچیوں اور رشتے داروں کے ہمراہ زرداری ہائوس کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا ان کے ہاتھوں میں بینر تھے جن پر مقتول بچیوں کی تصاویر اور قاتلوں کی گرفتاری کے لئے نعرے درج تھے ۔اس موقع پر لائق چانڈیو کا کہنا تھا کہ بچیوں کے قتل کے بعد مفرور قاتل انہیں مسلسل دھمکیاں دے رہے ہیں جب کہ پولیس ایک کے سوا کسی کو گرفتار نہیں کر سکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں ا صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر عذرافضل پیچوہو کی زرداری ہائوس میں موجودگی کا معلوم ہوا تھا اور ہم ان سے انصاف کے حصول کے لیے ملاقا ت کرنا چاہتے تھے لیکن زرداری ہائوس کے دوازے ہمارے لیے بند کردیئے گئے ۔انہوں نے کہا کہ میری معصوم اور بے گناہ بچیوں کا خون میرے سامنے بہایا گیا لیکن اس کے باوجود ہم گھر چھوڑ کر دوسرے گائوں میں پناہ گزین ۔ہمیں پناہ دینے والے ہمارے رشتے داروں کو بھی دھمکیاں مل رہی ہیں انہوں نے اپیل کی کہ انہیں اور ان کے رشتہ داروں کو تحفظ فراہم کیا جائے اورمفرور ملزمان کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دی جائے۔