گزشتہ دنوں عدالتی احکامات پر سکھر بیراج کے علاقے اور نہروں کے کنارے واقع اراضی کو ناجائز قابضین سے واگزار کرانے کےلیے سکھر پولیس اور شہری انتظامیہ کی جانب سے آپریشن کیا گیا ۔ اس موقع پر بھاری مشینری کے ذریعے نہروں کے کنارے واقع ناجائز طور پر تعمیر کیے گئے سیکڑوںمکانات اور دکانیں مسمار کردی گئیں، 2سال قبل کئے گئے آپریشن کی طرح اس آپریشن کے دوران بھی پولیس کو ناجائز قابضین کی طرف سےبھاری مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ آپریشن کے دوران پولیس اہلکاروں اور متاثرین میں سخت جھڑپیں ہوئیں، پولیس نے ہوائی فائرنگ، آنسو گیس اور لاٹھی چارج کا استعمال کرتے ہوئے 50 سے زائد افراد کو حراست میں لے لیا۔
انتظامیہ کی جانب سے تجاوزات کے خلاف آپریشن کے آغاز پر نہروں کے کناروں پرقبضہ مافیا کے افراد ،سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے سکھر بیراج پر احتجاج کرنے کی کوشش کی تاہم پولیس نےان کی یہ کوشش ناکام بنادی۔ا آپریشن کے دوران سکھر بیراج کا علاقہ پولیس اہلکاروں اور مظاہرین کے درمیان میدان جنگ بن گیا۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے شیل فائر کیے، لاٹھی چارج کیا اور ہوائی فائرنگ کی جب کہ مظاہرین کی جانب سے پولیس پر پتھراؤ کیا گیا۔
اس دوران مظاہرین نے ایس ایس پی سکھرعرفان علی سموں کی گاڑی پر بھی پتھراؤ کیاگیا۔ اس دوران سکھر بیراج کے علاقے میںامن و امان کی صورت حال ایک گھنٹے تک کشیدہ رہی تاہم ایس ایس پی سکھرکی بہترین حکمت عملی کے سبب مظاہرین کو منتشر کرنے میں پولیس نے کامیابی حاصل کیاور عدالتی احکامات پر سیکڑوں کچے و پکے مکانات، دکانیں مسمار کردیں۔ انسداد تجاوزات آپریشن سے متاثرہ لوگ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہوئے اور انہیں سرد موسم کی سختیاں بھی جھیلنا پڑی۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اگر محکمہ آبپاشی کی جانب سے سرکاری اراضی پر قابض ہونے اور تجاوزات قائم کرنے کے دوران ہی قبضہ مافیا کو روک دیا جاتا تو آج یہ نوبت نہ آتی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محکمہ آبپاشی کے افسران و اہلکار پورا سال کیا کرتے ہیں؟ دریائوں اور نہروں پر تجاوزات قائم کرنے سے روکنا محکمہ آبپاشی کی ذمہ داری ہے مگر محکمہ اپنی یہ ذمہ داری ادا کرنے سے بالکل قاصر نظر آتا ہے کیونکہ جن علاقوں میں تجاوزات قائم کی گئی ہیں وہ شہر کے ساتھ اور سکھر بیراج سے تھوڑے ہی فاصلے پر ہیں اس کے باوجود حیرت انگیز طور پر یہاں تجاوزات کس طرح قائم ہوجاتی ہے یہ محکمہ آبپاشی کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔
تجاوزات قائم کرنے والے بیشتر افراد کواس سلسلے میںآبپاشی افسران و اہلکاروں کی آشیر باد حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ تجاوزات قائم کررہے ہوتے ہیں تو ان کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی نہیں کی جاتی،اس وجہ سے سکھر بیراج کے دائیں و بائیں کناروں سے نکلنے والی نہروں پر تجاوزات کی بھرمار ہے۔
2سال قبل بھی جب آبپاشی انتظامیہ کی جانب سے نہروں سے تجاوزات ختم کی گئی تھیں تو متاثرین اسی طرح کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ اس وقت پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما سید خورشید احمد شاہ کی کاوشوں کی بدولت حکومت سندھ کی جانب سے متاثرین کے لئے روہڑی بس ٹرمینل کے نزدیک 200ایکڑ زمین متاثرین کو دینے کا اعلان کیا گیا تھا مگر اس اعلان پر تاحال عملدرآمد نہیں ہوسکا۔ اب کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور متاثرین پریشانیوں کا احساس کرتے ہوئے تحریک انصاف ضلع سکھر کے رہنما مبین خان جتوئی نے متاثرہ افراد کو 40 ایکڑ زمین دینے کا اعلان کیا ۔
اپنی رہائشگاہ جتوئی ہائوس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مبین خان جتوئی نے کہا کہ اپنے والد حاجی دیدار خان جتوئی کی جانب سے سکھر کے گائوں سعید آباد میں متاثرہ خاندانوں کو فی کس ایک ہزار گز کا پلاٹ دیا جائے گا۔، متاثرین کی امداد کے لئے کمشنر سکھر ڈویژن اور ڈپٹی کمشنر سے رابطہ کرنے کی کوشش کی ہے لیکن وہ رابطہ کرنے کو تیار نہیں۔ انہوں نے کہا کہ متاثرین کو زمین دے کرانہیں فی الحال خیمے فراہم کریں گے۔ اگلے دنوں جمعیت علماء اسلام کی جانب سے بھی ضلع سکھر کے جنرل سیکریٹری مولانا محمد صالح انڈھڑ، مفتی اعظم مہر، قاری لیاقت نے متاثرین آپریشن میں کھانے و پینے کی اشیاء، گرم ملبوسات تقسیم کئے گئے۔
جس کے بعد پیپلز پارٹی کے رہنما و صوبائی وزیر بلدیات سید ناصر حسین شاہ کے فرزند سید کمیل حیدر شاہ نے سکھر بیراج سے نکلنے والی نہروں کے کنارے انسداد تجاوزات آپریشن سے متاثرہ لوگوں سے ملاقات کی، ان میں کھانا، گرم ملبوسات سمیت دیگر ضروری سامان تقسیم کیا۔ اس موقع پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے سید کمیل حیدر شاہ نے کہا کہ متاثرین کو کسی بھی صورت تنہا نہیں چھوڑینگے، حکومت سندھ کی جانب سے متاثرین کے لئے200ایکڑ زمین مختص کی گئی ہے، جلد متاثرین کو الاٹ کی جائے گی۔ ۔
زمینی حقائق کے پیش نظر اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ محکمہ آبپاشی کے بعض افسران تجاوزات قائم کرانے میں مبینہ طور پر ملوث ہیں، ایسے افسران کے خلاف بھی کارروائی انتہائی ضروری ہے تاکہ ہر سال اس طرح کے آپریشن اور کشیدہ صورتحال سے بچا جاسکے۔ آبپاشی افسران کی غفلت، لاپرواہی اور آشیر باد کے باعث لوگوں کی بڑی تعداد نہروں کے کنارے آباد ہے ۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان کینالوں کے کناروں پر جو آبادیاں ہیں یا تجاوزات قائم کی گئی ہیں وہ سکھر بیراج اور چیف انجینئر کے دفتر کے درمیان ہے اور روزانہ کی بنیاد پر انتظامی افسران محکمہ آبپاشی کے افسران نہ صرف ان شاہراہوں سے گزرتے ہیں مگر یہ آبادیاں یا تجاوزات ان کی نظروں سے اوجھل رہتی ہیں۔ 2017میں بھی یہاں آپریشن کیا گیا اور اب پھر آپریشن کیا جارہا ہے، آخر تجاوزات قائم کرنے سے روکنے میں ناکام رہنے والے محکمہ آبپاشی کے افسران کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جاتی۔