اپنا گھر بار،رشتے ناتے چھوڑ کربیرون ملک، دیارِ غیر جا بسنے والےپاکستانیوں (تارکین وطن) کے لیےعام طور پر گزرتے دن،مہینے اور سال ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔سال کیسا گزرا،کیا کھویا، کیا پایا،سال بھر کی رپورٹیںاوران کے اعداد و شمارجیسی باتیں عموماًدن رات کی چکی میں پسنے والے، اِن محنت کشوں کے شب وروز پر اثرانداز نہیں ہوتیں کہ اکثرضروریاتِ زندگی پوری کرنے اورمعیار زندگی بہتر بنانے کی دوڑہی میں اُ ن کے کئی سال یا پوری زندگی ہی تج جاتی ہے۔بہرحال سال 2019کے حوالے سے بات کی جائے تو ایک عام بیرونِ ملک مقیم پاکستانی کی زندگی تو،یقیناً گزشتہ برسوں جیسی ہی رہی،لیکن اعدادوشمار میں اُلٹ پھیر ضرور دیکھا گیا ۔
افرادی قوت کی برآمد پاکستانی معیشت میںکلیدی کردار ادا کرتی ہے،اس کے ذریعے ملک کے باصلاحیت نوجوانوں کو نا صرف روزگار حاصل ہوتا ہے بلکہ وہ اپنے قیمتی زرمبادلہ سے ملک کی معیشت کو سہارا بھی دیتے ہیں۔رواں سال پاکستان سے روزگارکے لیےسعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جانے والے افراد کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ ہوا ۔وزارت سمندر پار پاکستانیز کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال کے پہلے 10 ماہ میں 2 لاکھ 58 ہزار 215 افراد روزگار کی تلاش میں سعودی عرب گئے ،جبکہ اسی عرصے میں ایک لاکھ 76 ہزار 947 افراد متحدہ عرب امارات گئے۔ بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے مطابق سعودی عرب جانے والوں کی یہ تعداد گزشتہ سال کے انہی مہینوں میں 84 ہزار تھی اور یہ ریکارڈ 207 فی صد اضافہ ہے۔صرف ایک ماہ کے حوالے سے بات کی جائے تو وزارت اوورسیز پاکستا نیز نے ماہ اکتوبر 2019ءمیں مختلف ملازمتوں کے سلسلے میں 61,789 افراد کو بیرون ممالک بھجوایا۔
گزشتہ برس کی نسبت بیالیس فی صد زاید پاکستانیوں نے ملک چھوڑا، انسانوں کے اسمگلرز اپنا کام کرتے اور لوگوں کو موت اور مشکلات کے منہ میں دھکیلتے رہے، لڑکیوں کوغلط کام کے لیے شادی کے نام پر چین لے جانے کا اسکینڈل سامنے آیا، ترسیلاتِ زر میں کچھ اضافہ ہوا
وزارت کے اعداد و شمار کے مطابق افرادی قوت کی ایکسپورٹ میں 42 فی صداضافہ ہوا ہے۔2017ءمیں ماہ اکتوبر میں 43,752 افراد کو بیرون ممالک ملازمتوں کے سلسلے میں بھجوایا گیاتھا،سمندر پار پاکستانیوں کی یہ تعدادملکی ترقی اور خوش حالی کے لیےہر دم کوشاں ہے، تاہم افسوس ناک بات یہ ہے کہ جب یہ انسانی وسائل دیار غیر میں ضائع ہوجاتے ہیں تو ملک کی بدنامی کا باعث بھی بنتے ہیں،غیرقانونی طور پر بیرون ملک جانے والے یاغیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے والے یہ ہم وطن،اپنے خاندان کے لیے بھی مشکلات کا باعث بنتے ہیں۔
پاکستان میں مزدور کی منتقلی کے لیے کم زور ضابطہ کار کی وجہ سےہزاروں پاکستانی خاص طور پر کم اجرت پر کام کرنے والے مزدور انسانی اسمگلنگ، جبری مزدوری، بیرون ملک حراست میں ناروا سلوک کا شکار ہیں اور یہاں تک کے ان کی زندگیوں کو بھی خطرات لاحق ہیں۔بیرون ممالک مقیم 96لاکھ پاکستانیوں میں سے 10 ہزار 289 پاکستانی، بیرون ممالک جیلوں میں تاحال قید ہیں، اس حوالے سے رواں ماہ وزارت خارجہ نے تفصیلات قومی اسمبلی میں جمع کروائیں،جن کے مطابق بھارت کی جیلوں میں 572 پاکستانی مختلف کیسز میں قید ہیں، امارات میں 2ہزار 25، برطانیہ میں 300 پاکستانی جیلوں میں،آسٹریلیا میں250،چین 268 اور یونان میں 617 پاکستانی قیدہیں،امریکامیں 109 پاکستانی دہشت گردی اور فراڈ کے کیسز میں قید ہیں،ایران میں غیرقانونی داخلے اور منشیات کے کیسز میں 134 پاکستانی جیلوں میں ہیں۔غیرسرکاری اعدادوشمار کے مطابق تقریباً 11 ہزار پاکستانی، جن میں 3 ہزار 309 سعودی عرب کی جیلوں میں ہیں، اگرچہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب سے فروری میں دورہ پاکستان کے دوران فوری طور پر 2 ہزار پاکستانی قیدیوں کی رہائی کا اعلان کیا گیا تھا، لیکن اب تک ان میں سے صرف 89 کو ہی شاہی معافی دی گئی ہے۔اس بات کا اعتراف جسٹس پروجیکٹ پاکستان کی جانب سے جاری ایک رپورٹ میں بھی کیا گیا ہے۔
پاکستان اور بیرون ملک پاکستانی قیدیوں کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم جے پی پی کی رپورٹ کے مطابق، تقریباً 11 ہزار پاکستانی غیر ملکی جیلوں میں تکلیف کا سامنا کررہے ہیں، لیکن سرکاری محکموں کے درمیان تعاون کے فقدان کی وجہ سے ان کی تکلیف کو کم نہیں کیا جاسکتا۔اس رپورٹ میں اہم معاملات کی نشاندہی کی گئی ہے جو پاکستان میں کم اجرت تارکین وطن مزدوروں کے لیے بھرتیوں کے نظام کو طے کرتی ہے، اس میں آزاد ویزے کا غیر قانونی استعمال، روانگی سے قبل بریفنگ میں کم حاضری اور غریب اور کم زور لوگوں کا استحصال کرنے والے ذیلی ایجنٹوں کا غیر قانونی استعمال شامل ہے۔
رواں برس روزگار کی غرض سےریکارڈ تعداد میں ہم وطن سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات گئے
بیرون ملک موجود پاکستانی نہ صرف غیر ملکی زرمبادلہ بھیجتے ہیں بلکہ یہ پاکستان میں ملازمتوں پر موجود دباؤ کو بھی کم کرتے ہیں، قانون بھرتی کے عمل میں استحصال کرنے والے ذیلی ایجنٹوں کے استعمال سے منع کرتا ہے لیکن یہ بے ایمان عناصر انسانی تجارت میں اضافہ کرنے کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں، اس سلسلے میں پارلیمنٹ کی جانب سے صرف قوانین بنائے گئے ہیں لیکن ان پر عملدرآمد ہوتا کہیں دکھائی نہیں دیتا،جبکہ تارکین وطن ملازمین کو درپیش مسائل پر ایک جامع ڈیٹا بیس بنانے، قونصلر تحفظ پالیسی اور میزبان ممالک کے ساتھ قیدیوں کی منتقلی اور متوفی کی حوالگی کے لیے معاہدہ ہونا ضروری ہے۔
بدقسمتی سے غیرقانونی طور پر دیگر ممالک میں جانے والے تارکین وطن کی تعداد قابل تشویش ہے ،خاص طور پرسعودی عرب میںایسے پاکستانیوں کی گنتی لاکھوں میں ہے ،جو غیر قانونی طور پر مملکت میں رُوپوش ہیں۔اعدادو شمار کے مطابق گزشتہ 24 ماہ سے ’غیر قانونی تارکین وطن سے پاک مملکت‘ کے نام سے جاری اس مہم میں اب تک10 لاکھ 14 ہزار 220 افراد کو گرفتار کیے جانے کے بعد ڈی پورٹ کیا جا چکا ہے۔ مئی 2019میں ویزےکی میعاد ختم ہونے کی وجہ سے ملائشیا میں قید320 پاکستانیوں کو رہا کیا گیا،جبکہ متحدہ عرب امارات کی جانب سے 572 پاکستانی قیدی بھی رہا کردیے گئے۔جولائی میںدورہ امریکا سے واپسی پر وزیراعظم عمران خان نے قطر میں قیام کے دوران پاکستانی قیدیوں کی رہائی کی درخواست کی ،جس کے بعد اگست 2019میں قطر کی مختلف جیلوں میں جرمانے کی رقم ادا نہ کرنے کے باعث طویل عرصے سے قید 53 پاکستانیوں کو بھی آزادی کا پروانہ ملا ۔ایک اندازے کے مطابق 50 ہزار پاکستانی تارکین وطن ترکی سے وطن واپسی کے منتظر ہیں ۔تاہم ان کے بارے میں وزارت خارجہ اور ایف آئی اے کے فراہم کردہ اعداد و شمار ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔
ایف آئی اے کے مطابق ترکی میں کم از کم 30 ہزار پاکستانی پھنسے ہوئے ہیں۔درحقیقت بہت ساری لائسنس یافتہ ٹریول ایجنسیاں انسانی اسمگلنگ میں ملوث ہیں اور وہ ایسے افراد کو بیرون ملک گروہوں کو فروخت کرتے ہیں جو تارکین وطن کو معمولی تنخواہوں پر نوکریاں دینے پر مجبور کرتے ہیں۔غیرقانونی تارکین وطن دنیابھر کے لیے مسئلہ بنے ہوئے ہیں،رواں برس بھی اس حوالے سے ناخوش گوار وقعات رونما ہوئے،حقیقت تو یہ ہے کہ روزگار کی تلاش میں ملکوں ملکوں غیرقانونی ہجرت کرنے والے انسانی المیے کا باعث بنتے ہیں۔اس عمل میں انسانی اسمگلنگ میں ملوث ایجنٹس اہم کردار ادا کرتے ہیں اور اپنے پیسے کھرے کر کے انسانی جانوں سے کھیلتے ہیں۔اس برس بھی یورپ غیر قانونی تارکین وطن کی سرگرمیوں کا مرکز بنا رہا۔
انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن کی رپورٹ کے مطابق رواں سال اگست تک 46ہزار 500 سے زائد افراد غیر قانونی طور پر یورپ میں داخل ہو ئے، تاہم غیر قانونی طور پر یورپی ممالک میںداخل ہونے کی کوشش میں ایک ہزار سے زائد افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، اِن میں سے سیکڑوں بدقسمت افراد سیکورٹی فورسز کی گولیوں کا نشانہ بنے یا پھر سمندر برد ہوگئے ،جبکہ بڑی تعداد سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں گرفتار ہوئی۔ اسپین اور یونان کا شمار اُن یورپی ممالک میں ہوتا ہے جہاں سب سے زیادہ تارکین وطن غیر قانونی طور پر داخل ہوتے ہیں ۔اگست 2019میںترکی بارڈر پر غیر قانونی تارکین وطن کی گاڑی کو حادثہ پیش آیا ، جس میں چھےافراد ہلاک ہوئے،جن میں پاکستانی تارکین وطن بھی شامل تھے،جو ترکی سے یونان میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔
ان افراد کوا سمگل کرنے والے دو انسانی اسمگلرز کوبھی گرفتار کر لیا گیا،ان اسمگلرز کا تعلق بلغاریہ اور الجزائر سے تھا۔نومبر 2019میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے30 سے زائد تارکین وطن فرانس میں ایک ٹرک میں سوار پکڑے گئے،ٹرک کا ڈرائیور بھی پاکستانی تھا۔فرانسیسی سیکیورٹی حکام نے انہیں حراست میں لے لیا ۔ماہ اکتوبر میں بھی برطانیہ میں ایک ریفریجریٹر ٹرک سے39 افراد کی لاشیں برآمد ہوئی تھیں، یہ سب تارکین وطن تھے جو زیادہ سردی کی وجہ سے منجمد ہو گئے تھے، یہ بدقسمت یورپ پہنچ تو گئے مگر لاشوں کی شکل میں۔ایسے انسانی المیے تارکین وطن کے ساتھ آئے روز جنم لیتے ہیں،کتنی ہی ایسے مزدور ہوتے ہیں جنہیں منزل مل جانے کے باوجود بھی واپس بھیج دیا جاتا ہے، ’’لیبر مائیگریشن فرام پاکستان‘‘ کی اسٹیٹس رپورٹ کے مطابق گزشتہ چند برسوں میں بیرون ممالک سے پاکستانیوں کو سب سے زیادہ ڈی پورٹ کیا گیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ گزشتہ 3برسوں کے دوران 3لاکھ سے زائد پاکستانیوں کو بیرون ممالک سے ڈی پورٹ کیا گیا ، جن میں سے اکثریت کا تعلق گجرات، جہلم، بہاولپور، منڈی بہائو الدین اور پاکستان کے دیگر شہروں سے تھا۔ اِن علاقوں کے لوگ یہ دیکھ کر کہ محلے کے کسی خاندان کے نوجوان کے بیرون ملک جانے سے اُس خاندان کے معاشی حالات بہتر ہوگئے ہیں تو وہ بھی اِسی لالچ میں اپنے جوان بیٹوں کو بیرون ملک جانے کی ترغیب دیتے ہیں۔ رواں برس پاکستان میں شادی کے نام پر غریب خاندان کی لڑکیوں کو سہانے خواب دکھا کر چین لے جانے اور انہیں وہاں جسم فروشی پر مجبور کرنے کے متعدد واقعات بھی سامنے آئے۔
بہتر مستقبل کی تلاش میں جہاں مرد اور کم عمر بچے جبری مشقت کا شکار ہوتے ہیں وہیں لڑکیوں اور عورتوں کو بیرون ملک اسمگل کرکے جسم فروشی یا کم اجرت پر روزگارپر مجبور کیا جاتا ہے۔ اس قسم کے انسانی المیوں کی اصل وجہ تیسری دنیا کے ممالک کی غربت اور ناداری ہے جہاں انھیں نہ تو روز گار میسر آتا ہے اور نہ ہی زندگی میں آگے بڑھنے کے مواقعے دکھائی دیتے ہیں ،اس وجہ سے وہ دل برداشتہ ہو کر اپنی جان تک داؤ پر لگانے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔
وطن سے دور ہوکر جب ہم وطنوں،اپنے پیاروں کی یاد آتی ہے تو وطن واپس آنا بھی کسی مسئلے سے کم نہیں ہوتا،حکومت سمندر پار پاکستانیوں کے لیے مختلف پیکجز تو متعارف کرواتی ہے لیکن ابھی تک کوئی ایسی بارآور کوشش سامنے نہ آسکی ہے،خاص کر ویزہ مسائل تارکین وطن کے مصائب دو چند کر دیتے ہیں،اس حوالے سے رواں برس دسمبر میںپارلیمانی کمیٹی نے حکومت کو ہدایت کی کہ خود کو غیر ملکی شہری قرار دے کر یورپی ممالک میں نقل مکانی کرنے والے پاکستانی تارکین وطن کے لیے ویزے کے عمل میں آسانی پیدا کی جائے، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں خصوصاً یورپی ممالک میں رہائش پذیر افراد کو پاکستان اوریجن کارڈز (پی او سی) کی سہولت دی جانی چاہیے تاکہ وہ شادیوں اور اپنے پیاروں کی تدفین میں شرکت کے لیے اپنے ملک واپس جاسکیں۔
اس معاملے پربیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے پی او سی حاصل کرنے کے لیے ایک طریقہ کار وضع کرنے کا عندیہ بھی دیا گیا۔اس اجلاس میںکمیٹی کے بعض اراکین کا خیال تھا کہ وہ پاکستانی جنہوں نے افغان شہریت حاصل کی انہیں مجرم قرار دیا جائے اور انہیں کوئی سہولت فراہم نہ کی جائے۔بیرون ملک بینکوں میں بائیو میٹرک سسٹم کی وجہ سے بھی تارکین وطن مشکلات کا شکار ہیں ،تاہم سرکاری ذرائع کے مطابق بیرون ممالک میں موجود پاکستانیوں کے 2کروڑ 81 لاکھ اکاؤنٹس کی 31 اکتوبر2019 تک بایومیٹرک تصدیق کی جا چکی ہے۔ مزید ایک لاکھ 18 ہزار پاکستانیوں کی بائیومیٹرک کے ذریعے تصدیق ہونا باقی ہے۔رواں برس جون کے اوائل میں بینکنگ پالیسی اینڈ ریگولیشن ڈیپارٹمنٹ (بی پی آر ڈی) کے اعلامیے کے اجرا کے بعد سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو 44 ہزار 590 اکاؤنٹس کی سہولت فراہم کی گئی تھی ۔
پاکستانی روپے کی گرتی قدر مزید لوگوں کو اپنا سرمایہ ملک سے باہر لے جانے پر مجبور کرسکتی ہے۔سرمایہ کار غیرملکی ہو یا سمندر پار پاکستانی، ہر ایک کی یہ خواہش اور منصوبہ بندی ہوتی ہے کہ اُس کا سرمایہ بھی محفوظ رہے اور کاروبار بھی ترقّی کرے۔گزشتہ محض ایک سال کے اندر اندر پاکستانی روپے نے جس تیزی کے ساتھ اپنی قدر کھوئی ہے وہ انتہائی تشویش ناک ہے۔ سمندر پار پاکستانیوں کو سبز باغ دکھانے کے تحریک انصاف حکومت کے وعدے روپے کی گرتی ہوئی قدر کی وجہ سے دھرے رہ گئے۔اوورسیز پاکستانیوں کے لیے تشویش ناک بات یہ ہے کہ آیا پاکستان میں سرمایہ کاری محفوظ اور منافع بخش ہوگی بھی یا نہیں۔
گزشتہ کم ازکم دس برسوں میں جس طرح پاکستان سے سرمایہ باہر گیا ہے، اُس کا کوئی باضابطہ ریکارڈ دستیاب نہیں لیکن بظاہر پاکستانیوں نے ملک میں اپنی جائیدادیں، زمین اور کارخانے فروخت کرکے سرمایہ بیرونِ ملک منتقل کیا ہے۔ اِس کی سادہ سی وجہ سلامتی کی بگڑتی صورتحال، سیاسی عدم استحکام، سماجی بے چینی اور ملک کے مستقبل سے مایوسی ہے۔ اِن عوامل کو واضح طور پر دُور کیے بغیر اُن لوگوں اور اُن کے سرمائے کو پاکستان واپس لانا قدرے مشکل ہوگا جو مستقبل سے مایوس ہوکر آخری اقدام کے طور پر ملک سے باہر منتقل ہوچکے ہیں یا اپنا سرمایہ ملک سے باہر گھروں کی خریداری اور نئے کاروبار میں لگا چکے ہیں۔
سمندرپار پاکستانیوں کے لیے وطن میں منافع بخش سرمایہ کاری کرنے کے لیےجنوری2019 میں وزیراعظم عمران خان نے خصوصی اسکیم ’’پاکستان بناؤ سرٹیفکیٹ‘‘ کا اجراء کیا،جس کے مطابق صرف وہی سمندر پار پاکستانی ان سرٹیفکیٹ میں سرمایہ کاری کے اہل ہوں گے جن کے پاس کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ، نائیکوپ اور پاکستان اوریجن کارڈ ہوں گے ۔سرٹیفکیٹ کی خریداری پر کم از کم سرمایہ کاری کی حد 5 ہزار امریکی ڈالر رکھی گئی تھی ۔
پاکستان بناؤ سرٹیفکیٹ تین اور پانچ سالہ مدت کے لیے جاری کیے گئے،3 سالہ مدت سرٹیفکیٹ پر شرح منافع 6 اعشاریہ 25فی صدرکھی گئی،5 سالہ مدت سرٹیفیکیٹ کے لیےشرح منافع 6 اعشاریہ 75 فیصد رکھی گئی۔سرٹیفکیٹ کو قبل از وقت ان کیش کرنے یا سرمایہ کاری سے رقم نکلوانے کی صورت میں بھی پاکستانیوں کو سہولت دی گئی ، اگر ان کی شپمنٹ پاکستانی کرنسی میں ہوگی تو رقم بغیر کٹوتی کے فراہم کی جائے گی اور اگر زرِمبادلہ میں رقم کی واپسی ہوئی تو معمولی کٹوتی کی جائے گی۔ حکومت نے پاکستان بناؤ سرٹیفکیٹ کے دوسلوگن رکھے، پہلا’’ملکی ترقی میں اپنا ہاتھ بٹائیں‘‘، دوسرا ’’منافع آپ کا مستقبل پاکستان کا‘‘۔شروع میں سمندر پاکستانیوں کی بڑی تعداد اس جانب راغب ہوئی لیکن اب تک خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں کیے جاسکے،ستمبر 2019کی رپورٹ کے مطابق پاکستان بنائو سرٹیفکیٹ (پی بی سی)کے ذریعے حکومت نے نو ماہ میں تقریباً 3 کروڑ ڈالرز جمع کیے ، یعنی یہ اسکیم مطلوبہ سرمایہ کاری کو راغب کرنے میں ناکام رہی ۔اپریل 2019 میںحکومت نے بیرون ملک پاکستانیوں کے مسائل فوری حل کرنے کے لیے نئی ایپ ’ کال سر زمین ‘ متعارف کروائی۔ ایپ ’کال سر زمین‘ کی ایک ماہ کی آزمائشی سروس کے دوران 532 افراد نے شکایات درج کیں، ان میں سے 361 پر فوری ایکشن بھی لیا گیا۔
سمندر پار پاکستانیوں کے مسائل حل کرنے اور سہولیات فراہم کرنے کے لیے اوورسیز پاکستانیز فاؤنڈیشن کئی برسوں سے اپنی خدمات انجام دے رہی ہے،تاہم عموماًایک عام سمندر پار پاکستانی فاؤنڈیشن کی کارکردگی سے نالاں ہی دکھائی دیتا ہے۔اوورسیز پاکستانیز فاؤنڈیشن نے مالی سال 2018-19 میں 111 ملین روپے کی بچت کی،فاؤنڈیشن کی آمدنی 2 ہزار 8 سو 15 ملین روپے، اخراجات 2 ہزار 704 ملین روپے تک رہے،تاہم اوورسیز پاکستانیز فاؤنڈیشن کا کام کبھی کبھار اُس کی ویب سائٹ پر ہی نہیں بلکہ عملی طور پر بھی نظرآنا چاہیے۔
بیرونِ ملک پاکستان کا مثبت امیج اُجاگر کرنے کے لیے سمندر پار پاکستانی نہایت مؤثر اور متحرک کردار ادا کرسکتے ہیں، بشرطیکہ اِس سلسلے میں سرکاری سطح پر بھی عملی کوششیں کی جائیں۔ غیرملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان کی جانب راغب کرنے کےلیے وزیرِاعظم یا وزراء کے بیانات یا تقاریر کہ ملک میں امن وامان ہے یاحکومت نے بیرونی سرمایہ کاری کا ماحول بہتر بنادیا ہے، ناکافی ہیں۔
ترسیلات ِ زر میں اضافہ
اوورسیز پاکستانیوں کی جانب سے مالی سال 2019-20 کے لیےگزشتہ پانچ ماہ میں 9 ارب 29 کروڑ 85 لاکھ ڈالر کی ترسیلات بھیجیں گئیں،جبکہ گذشتہ برس کے اسی عرصے کے دوران 9 ارب 29 کروڑ 85 لاکھ ڈالر کی ترسیلات زر موصول ہوئی تھیں۔رواں برس بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سےترسیلات بڑھی ہیں، نومبر 2019 میں سمندر پارپاکستانیوں کی ترسیلات زر کی مالیت 1 ارب 81 کروڑ 96 لاکھ ڈالر رہی ، جواکتوبر 2019 کے مقابلے میں 9.05فی صد کم، جبکہ نومبر 2018ء کے مقابلے میں9.35 فی صدزیادہ ہیں۔
اسٹیٹ بینک کی جانب سےجاری اعداد وشمارکےمطابق نومبرمیں ترسیلات زرکاحجم ایک ارب اکیاسی کروڑڈالررہا، جو گزشتہ سال نومبرمیں ایک ارب چھیاسٹھ کروڑڈالرتھا،اعداد وشمار میں بتایا گیاہے کہ نومبرمیں سب سے زیادہ ترسیلات زر سعودی عرب سےموصول ہوئیں، دوسرے نمبر پر یو اے ای اور تیسرے نمبر پر امریکا ہے، جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال ترسیلات زرکاحجم بائیس ارب ڈالرسےزائد ہو جائے گا۔مرکزی بینک کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق مشرق وسطیٰ کے علاوہ دیگر ممالک سے آمدنی گزشتہ سال کے مقابلے میں کافی زیادہ تھی، جس سے ملک کے غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری آئی ہے۔
خلیج ریاستوں کو دیکھا جائے تو سعودی عرب سے گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 2.97 فی صد بڑھ کر 5 ارب ڈالر رہی، جو ریاض اور اسلام آباد کے درمیان دوطرفہ تعلقات کی بہتری کا نتیجہ ہے۔اس کے علاوہ امریکا سے بھی آمدنی میں واضح اضافہ ہوا اور یہ 20.15 فی صدتک بڑھ کر 3 ارب 40 کروڑ 90 لاکھ ڈالر رہی۔واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کے باوجود امریکا سے ترسیلات زر میں اضافہ ہوا۔دوسری جانب برطانیہ سے بھی ترسیلات زر میں 17.9 فی صدتک اضافہ ہوا اور بیرون ملک پاکستانیوں نے 3 ارب 44 کروڑ روپے ملک میں بھیجے۔
اسی طرح مالی سال 2019-20یں متحدہ عرب امارات سے ترسیلات زر مالی سال 2018-19 کے 0.7 فی صدکے مقابلے میں 5.98 فی صد تک اضافہ ہوااور کُل 4 ارب 61 کروڑ 90 لاکھ ڈالر ملک میں بھیجے گئے۔مجموعی طور پر اس عرصے میں بہتری کے باوجود جی سی سی ممالک سے آنے والی آمدنی میں منفی رجحان دیکھنے میں آیا اور مالی سال 2018-19کے 7فی صد کے مقابلے میں یہ 1.8 فی صد رہی اور کُل 2 ارب 11 کروڑ 90 لاکھ ڈالر کی ترسیلات زر آئیں۔اس کے باوجود ملائیشیا کوترسیلات زر کے حوالے سے اہم مقام حاصل رہا اور مالی سال 2019-20میں یہاں سے آنے والی آمدنی 35 فی صد تک بڑھ کر ایک ارب 55 کروڑ 10 لاکھ ڈالر رہی،تاہم ماہانہ بنیادوں پر جون میں ترسیلات زر 28 فی صدکم ہوئی ،یہ مئی کی 2 ارب 31 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کے مقابلے میں ایک ارب 65 کروڑ ڈالر رہی۔
بھارتی شہریت بِل اورپناہ گزین....
10دسمبر2019 کوبھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے بھارت کے ایوان زیریں، لوک سبھا میں غیر مسلم تارکین وطن کو بھارت کی شہریت دینے کا متنازع بل پیش کیا،اس قانون کے تحت مسلمانوں کے سوا ،چھے مذاہب کے غیرقانونی تارکین وطن کو بھارتی شہریت دینے کی تجویز پیش کی گئی ،جسے ایوان نے منظور کر لیا، بعدازاں اس بل کو ایوان بالا میں بھی منظور کر لیا گیا۔
اس بل کے تحت پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کے ہندوؤں سمیت دیگر اقلیتوں کو بھارت کی شہریت دینے کی بات کی گئی ہے،جس کے بعد بھارت بھرمیں شدید احتجاج ہوا، جوتاحال جاری ہے،بل کے خلاف امریکاکا بھی سخت ردعمل سامنے آیا۔17دسمبر 2019کو جینوا میں عالمی مہاجرین فورم کا انعقاد کیا گیا، اس موقعے پروزیراعظم عمران خان نے خطاب کرتے ہوئے بھارتی شہریت بل کی شدید مذمت کی ،ان کا کہنا تھا کہ ’’بھارتی حکومت کے ایسے اقدامات سے مہاجرین کابہت بڑا بحران جنم لے سکتا ہے،امیر ممالک بے بس اور بے وسیلہ پناہ گزینوں کے مسائل کا ادراک نہیں کرسکتے،لوگوں کو پناہ گزین بننے سے روکا جائے۔
جون 2019 کو جاری ہونے والی اقوام متحدہ کی سالانہ رپورٹ ’گلوبل ٹرینڈز‘‘ کے مطابق 2019-18میں 23 لاکھ افراد اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے،یہ تعداد 20 برس پہلے کے مقابلے میں دگنی ہے۔رپورٹ کے مطابق 37 ہزار افراد روزانہ اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہیں،جس کی وجہ،خانہ جنگی،تنازعات ،جبری بے دخلی اور روزگار کا حصول بتائی گئی ہے۔ایسے افراد کو پناہ دینے والے ممالک میں ترکی سرِفہرست ہے ،جہاں پناہ گزینوں کی تعداد 37 لاکھ ہے جبکہ پاکستان دوسرے نمبر ہے جہاں اس وقت پناہ گزینوں کی تعداد14 لاکھ ہے۔ یوگینڈا میں 12 لاکھ، سوڈان میں 11 لاکھ جبکہ جرمنی میں بھی 11 لاکھ افراد نے پناہ لے رکھی ہے۔