• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گذشتہ سے پیوستہ)

سب سے پہلے میں ایک غلطی کی وضاحت کر لوں۔ گزشتہ کالم میں، میں نے قائداعظم کے حوالے سے قانون کی اطاعت کا ایک واقعہ لکھا تھا جس میں اے ڈی سی کا نام کیپٹن عطا ربانی لکھا گیا۔ اُس واقعے کے راوی کیپٹن گل حسن ہیں جو اُس وقت گورنر جنرل کے اے ڈی سی تھے اور بعد ازاں پاکستان کے آرمی چیف بنے۔ عقیدت و محبت کے باوجود ہمارے لکھاری قائداعظم کے بارے میں غیرمصدقہ باتیں لکھتے رہتے ہیں۔ منگل کے روز برادر محترم مظہر برلاس نے قائداعظم سے ایک بیان منسوب کیا جو میرے مطالعے کے مطابق بالکل بےبنیاد ہے۔ اُنہوں نے لکھا کہ جولائی 1947میں قائداعظم نے فرمایا تھا ’’اگر پاکستان میں برطانوی طرز کا پارلیمانی نظام نافذ کیا گیا تو بدقسمتی ہوگی۔ پاکستان کا شاندار مستقبل صدارتی نظام میں پنہاں ہے‘‘۔ میں نے قائداعظم کے بیانات کو دوبارہ کھنگالا ہے۔ اُنہوں نے کوئی ایسی بات نہیں کی تھی۔صدارتی نظام کے حامیوں نے یہ بیان خود ہی گھڑ لیا ہے۔ محترم امر جلیل صاحب نے اُس شخص کا نام اور عہدہ پوچھا ہے جس نے قائداعظم کے لئے 11ستمبر 1948کو ایمبولنس کا انتخاب کیا تھا جو ایئر پورٹ سے واپسی پر خراب ہو گئی۔ ہر بات کو سازش کا رنگ دینے سے پہلے تھوڑا سا مطالعہ اور تحقیق ضروری ہوتی ہے۔ اُس شخص کا نام کرنل نولز تھا اور وہ انگریز فوجی افسر گورنر جنرل پاکستان کا ملٹری سیکرٹری تھا۔ قائداعظم کے اے ڈی سی کیپٹن نور حسین زیارت سے کراچی اُن کے ساتھ آئے اور سارے واقعے کے چشم دید گواہ ہیں۔ اُنہوں نے اِس واقعے کی وضاحت اور تفصیل نہ صرف اپنے مضمون 23مارچ 1995دی نیوز میں کی بلکہ مجھے بھی انٹرویو میں بتایا تھا کہ چونکہ مادرِ ملت کے حکم پر گورنر جنرل کی آمد کو پرائیویٹ رکھا گیا تھا اس لئے وزیراعظم کو ان کی آمد کا علم نہیں تھا۔ انہیں اطلاع بعد میں ملی اور وہ ایئرپورٹ پر اس وقت پہنچے جب ایمبولنس نکل رہی تھی۔ ایمبولنس کا انتخاب کرنل نولز نے کیا تھا اور اس نے کراچی میں دستیاب ایمبولنسوں کو منگوا کر اور ان کا معائنہ کر کے یہ ایمبولنس منتخب کی تھی۔ غلطی یہ کی کہ احتیاطاً دوسری ایمبولنس ساتھ بھجوانے کا انتظام نہ کیا۔ ایمبولنس کی خرابی کے بعد دو گھنٹے انتظار والی بات بھی غلط ہے۔ کیپٹن نور حسین اور دیگر اسٹاف ممبران کا کہنا ہے کہ تقریباً نصف گھنٹے میں دوسری ایمبولنس پہنچ گئی تھی۔ عینی شاہدین سے زیادہ معتبر کوئی شہادت نہیں ہوتی۔ حقیقت صرف اتنی ہے، باقی سب افسانہ ہے۔

اب اصل موضوع کی طرف آتے ہیں اور اصل موضوع یہ ہے کہ ہم قائداعظم سے محبت اور عقیدت کا اظہار تو بڑی فراخدلی سے کرتے ہیں لیکن اُن کی تعلیمات، ذاتی مثالوں اور نصیحتوں کو درخور اعتنا نہیں سمجھتے۔ یہ بات افراد سے لے کر اداروں تک سبھی پہ صادق آتی ہے۔ قائداعظم نے صوبائیت اور علاقائیت کو زہر قرار دیا اور پاکستانیوں کو نصیحت کی کہ اِس زہر کو اپنے جسم سے نکال کر باہر پھینک دیں۔ دیکھ لیجئے آج کی ساری سیاست علاقائیت، برادری ازم اور صوبائیت کے گرد گھوم رہی ہے۔ لیڈران کو ووٹ لینے اور سیاسی حمایت حاصل کرکے اسمبلی میں پہنچنے کے لئے صوبائیت، علاقائیت اور برادری ازم کے جذبات کو بھڑکانا پڑتا ہے اور وہ ووٹوں کے حصول کے لئے ہر قسم کی نفرت کا ایندھن جلاتے ہیں۔ یہ سلسلہ گزشتہ سات دہائیوں سے جاری ہے اور پاکستانیوں کو ایک قوم بننے نہیں دیتا۔ محترم جنرل شاہد حامد مرحوم فیلڈ مارشل آکن لیک کے سیکرٹری تھے اور قیامِ پاکستان کے آخری مراحل میں وائسرائے ہائوس ہی میں مقیم تھے۔ وہ اپنی کتاب Disastrous Twilightمیں لکھتے ہیں کہ میری ملاقات قائداعظم سے ہوئی تو میں نے ان سے کہا کہ پاکستان جانے والے بہت سے فوجی افسران آپ کی جھلک دیکھنا چاہتے ہیں۔ 3اگست 1947کی شام قائداعظم میرے گھر آئے۔ وہ خوشگوار موڈ میں تھے۔ تھوڑی دیر کے لئے اُن کا موڈ اُس وقت خراب ہوا جب اُن کو ایک سوال ناگوار گزرا۔ سوال یہ تھا کہ پاکستان میں پروموشن کے کتنے امکانات ہوں گے۔ قائداعظم نے کہا کہ مسلمان یا آسمان کو چھونے کی کوشش کرتا ہے یا پھر پستی میں ڈوب جاتا ہے۔ توازن کا راستہ اپنائیے، ترقی اپنے وقت پر ہوگی لیکن پاگل پن جلدی کی توقع نہ رکھیں۔ پاکستان کی حکومت منتخب سویلین حضرات پر مشتمل ہو گی۔ جو شخص جمہوری اصولوں کے برعکس سوچتا ہے اسے پاکستان میں ہجرت نہیں کرنا چاہئے۔ فی الحال ہمیں ملک و قوم کو مضبوط بنانے کے لئے محنت کرنی ہے اور اسلامی ریاست کی شناخت کو مستحکم بنانا ہے جو آسان کام نہیں۔ انہوں نے کہا

"Ideology of Pakistan must be preserved... He laid stress on sound system of education..." P.219

( نظریہ پاکستان بہرحال قائم و دائم رکھنا ہے۔ قائداعظم نے بہترین نظامِ تعلیم پر زور دیا)

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ افسران سے تندہی سے فرائض کی انجام دہی کی توقع کرتے تھے اور غیر پیشہ ورانہ سوچ کو ناپسند کرتے تھے۔ قائداعظم کا جون 1948میں اسٹاف کالج کوئٹہ کے فوجی افسران سے خطاب نہ صرف فکر انگیز ہے بلکہ راہ نما اصول کی بھی حیثیت رکھتا ہے۔ فوج کے جذبے اور نظم و ضبط کی تعریف کرنے کے بعد انہوں نے کہا کہ دورانِ گفتگو مجھے احساس ہوا ہے کہ افواجِ پاکستان نے جو حلف اٹھایا ہے اور آئینِ پاکستان سے وفاداری کی قسم کھائی ہے وہ اُس کا صحیح مفہوم اور روح سے پوری طرح آگاہ نہیں۔ چنانچہ اُنہوں نے حلف کے الفاظ دوبارہ پڑھے اور افسران کو آئین سے وفاداری کی تلقین کی۔ کیا پاکستان میں قائداعظم کی اِس نصیحت پر عمل کیا گیا؟ کیا قائداعظم کے وژن کے مطابق حلف بردار آئین کی وفاداری پر سختی سے قائم رہے؟ اگر ایسا ہوتا تو پاکستان میں چار مارشل لا نہ لگتے۔ مختصر یہ کہ قائداعظم سے ہماری عقیدت محض الفاظ کی حد تک ہے۔ زبانی عقیدت اور عمل کے درمیان منافقت کا سمندر حائل ہے۔ فی الحال تھوڑے لکھے کو بہت سمجھیں۔

تازہ ترین