• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کچھ تو دے اے فلکِ ناانصاف
آہ و فریاد کی رخصت ہی سہی
ہم بھی تسلیم کی خو ڈالیں گے
بے نیازی تری عادت ہی سہی
جب انسان وطن سے دور ہوتا ہے تو وطن کی یاد اور زیادہ آتی ہے آپ یقین کریں کہ میںجب پاکستان میں ہوتا ہوں تو مجھے ٹی وی دیکھنے اور اخبار پڑھنے کا بہت کم وقت ملتا ہے لیکن جیسے ہی میں پاکستان سے باہر نکلتا ہوں ہر وقت انٹرنیٹ پر پاکستانی اخبارات کی سرخیاں پڑھتا رہتا ہوں اور جہاں کہیں موقع ملتا ہے وہاں پاکستانی ٹی وی چینلز دیکھنا شروع کر دیتا ہوں۔ حال ہی میں نیویارک میں تھا تو پاکستان میں پورے ملک کے بیشتر حصوں میں بجلی غائب ہونے کی اطلاعات اور پھر اس کے ساتھ پھیلنے والی افواہوں نے بیرون ملک پاکستانیوں کو تھوڑی دیر کے لئے کافی پریشان کردیا۔ مجھے آدھے گھنٹے میں دس سے بارہ ٹیلیفون موصول ہوئے اسی طرح تمام لوگ ایک دوسرے کو فون کر کے اپنی پاکستان سے حاصل ہونے والی معلومات کا موازنہ اور مقابلہ کر رہے تھے اور ہر کسی کا اسرار تھا کہ اس کی معلومات مصدقہ ہیں اور ان پر یقین کر لیا جائے۔ بہرحال شکر خدا کا کہ سب کی معلومات اور مصدقہ اطلاعات جھوٹی ثابت ہوئیں نہ تو کوئی مارشل لاءتھا اور نہ ہی کوئی دہشت گردی صرف ایک ٹیکنیکل مسئلہ تھا جو کہ حل ہوگیا۔ اس چھوٹے سے واقعے سے یہ بات سمجھ میں آئی کہ ہمارے بیرون وطن خاص طور پر امریکہ اور برطانیہ میں رہنے والے پاکستانیوں کو اپنے وطن سے کتنی زیادہ محبت ہے اور ہر لمحے اپنے وطن میں ہونے والے واقعات سے باخبر رہنا چاہتے ہیں۔ میں نے یہاں تقریباً تمام پاکستانیوں کے گھروں اور دفتروں میں جیو ٹی وی کی نشریات دیکھیں۔ یہ یہاں کا مقبول چینل ہے۔ گورنر سندھ کے استعفے کی افواہیں بھی عام تھیں خیر وہ واپس آگئے، اچھا ہوگیا۔ نیویارک کے ایک مقامی ہوٹل میں رانا رمضان ایڈووکیٹ نے پاک امریکہ وکلاءسوسائٹی کی طرف سے ایک پُرتکلف عشائیہ کا اہتمام کیا تھا جہاں پاکستان سے تعلق رکھنے والے وکلاءجو کہ نیویارک بار میں انرول ہو کر نیو یارک میں وکالت کر رہے ہیں کافی تعداد میں شریک ہوئے اور ہمارے ملک کی سیاسی صورتحال پرانہوں نے کافی پُرمغز تقریریں کیں ۔ شاہد اقبال صاحب، منور صاحب، رانا رمضان اور جعفری صاحب ایڈووکیٹس نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور پاک فوج کے کردار کو سراہا۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلی دفعہ جمہوری حکومت نے اپنے پانچ سال اپنی تمام تر ناکامیوں اور بدنامیوں کے باوجود مکمل کئے ہیں۔ اس میں عسکری قیادت کے صبر و تحمل کا کمال ہے کہ انہوں نے کسی موقع پر بھی جمہوریت کو پٹڑی سے نہیں اترنے دیا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان اور چیف جسٹس افتخار چوہدری صاحب کے لئے بہت اچھے الفاظ میں بہت زیادہ تعریفیں کی گئیں اور مقررین نے چیف جسٹس اور دوسرے جج صاحبان کے فیصلوں اور عدالتی کارروائی کے دوران دیئے جانے والے ریمارکس کو سراہا اور جمہوری عمل کے مکمل ہونے میں سپریم کورٹ کی طرف سے بار بار اس کے اظہار نے مدددی۔ اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے میں سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے وقتاً فوقتاً فیصلوں اور سماعت کے دوران دیئے جانے والے ریمارکس نے بڑا کردار ادا کیا ہے۔ کسی کو بھی جمہوریت کو پٹڑی سے اتارنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ حکومت کی پانچ سالہ کارکردگی پر تمام مقررین نے مایوسی کا اظہار کیا اور ہر کسی نے اپنی اپنی معلومات کے مطابق واقعات سنائے۔ دوسرے روز خیبر سوسائٹی کا اجلاس تھا ان کی روح رواں سبیقہ خان تھی، یہ لوگ پاکستان میں ٹیلی فون پر پی ٹی اے کی طرف سے ٹیکس عائد کرنے کے خلاف اپنا پروگرام کر رہے تھے ان کا خیال ہے کہ اس ٹیکس کا اثر بیرون ملک رہنے والے پاکستانی جو کہ کالنگ کارڈ استعمال کرتے ہیں ان کی جیب پر پڑے گا اور اب 100 منٹ والا کالنگ کارڈ 10منٹ میں ختم ہو جائے گا وہ لوگ بھی چیف جسٹس آف پاکستان سے رجوع کرنے کے بارے میں تقاریر کر رہے تھے۔ اجلاس کے اختتام پرروزنامہ جنگ اور جیو کے سینئر رپورٹر عظیم میاں ہم سب کو چائے پر لے گئے اور ایک پاکستانی ریسٹورنٹ میں رات دیر تک محترمہ بینظیر بھٹو کے نیویارک کے قیام اور دوروں کی باتیں ہوتی رہیں۔ نیویارک میں سردی بلا کی تھی۔ یہاں میرا پروگرام خواجہ نوید کی عدالت بڑے ذوق و شوق سے دیکھا جاتا ہے۔ بہت لوگوں نے سڑک پر روک کر ہاتھ ملایا اور پروگرام کی تعریف کی۔ سندھ کی سیاست میں ایم کیو ایم کی حکومت سے علیحدگی کو بیرون ملک تشویش سے دیکھتے ہیں اور انہیں خدشہ ہے کہ کہیں امن و امان کی صورتحال مزید خراب نہ ہو۔ کراچی میں ہونے والی روزمرہ اموات سے بیرون ملک پاکستانی نہ صرف افسردہ ہیں بلکہ خوفزدہ بھی ہیں۔ کچھ لوگوں نے تذکرہ کیا کہ وہ پاکستان آنا چاہتے ہیں مگرامن و امان کی صورتحال کی وجہ سے اپنے پروگرام ملتوی اور منسوخ کرتے رہتے ہیں۔ آنے والے الیکشن میں لوگوں کی دلچسپی بہت ہے کچھ لوگ جو امریکہ میں کافی مالدار ہو گئے ہیں وہ ملک واپس آکر الیکشن میں حصہ لینا چاہتے ہیں مگر دہری شہریت کا قانون ان کے آڑے آ گیا ہے۔ وہ مجھے کہہ رہے تھے کہ آپ اس قانون کو سپریم کورٹ میںچیلنج کریں کیونکہ ہم پاکستانی ہیں اور زرمبادلہ کما کر پاکستان بھیجتے ہیں پھر ہم الیکشن کیوں نہیں لڑ سکتے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ہمیں ووٹ کا حق ہے تو پھر الیکشن لڑنے کا حق کیوں نہیں بقول سہیل وڑائچ ”کیا یہ کھلا تضاد نہیں“۔
تازہ ترین