• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

فلم سازی کی رفتار سُست، کامیابی کا تناسب کم رہا

 فلموں میں رانگ نمبرٹو، باجی، سپر اسٹار، پرے ہٹ لو، چھلاوہ اور ہیر مان جا، نمایاں رہیں، پرے ہٹ لو، میں بھاری کاسٹ اور بھرپور گلیمر غالب رہا۔ ہدایت کار احتشام الدین کی ’’سپر اسٹار‘‘ 2019ء کی ان دو تین فلموں میں سے ایک ہے، جس نے اپنے موضوع، کردار نگاری اور ذہانت آمیز ہدایت کارانہ ٹریٹمنٹ کی بدولت کام یاب قرار پائی۔ہدایت کار ارباز خان نے 70ء اور 80ء کے فارمیٹ پر ’’رائونڈ ابائوٹ‘‘ پیش کی ، لیکن فلم میکنگ کے بدلتے ہوئے منظرنامے میں کوئی مقام نہ بنا سکی۔2019ء میں پنجابی سنیما حسبِ سابق سخت جمود کا شکار رہا۔ فضا علی نے ’’کاف کنگنا‘‘ میں ایک بھارتی وزیر کی بیٹی کے کردار میں موثر پرفارمنس دی اور اپنے کردار کو نہایت وقار اور متانت سے ادا کیا۔ ثمینہ احمد نے ’’شیر دل‘‘ میں ایک شہید کی بیوہ اور ایک غازی کی دادی کے کردار سے بھرپور انصاف کیا۔ نشو بیگم نے فلم ’’باجی‘‘ میں نائیکہ کا رول عمدگی سے ادا کیا، جب کہ صائقہ خیام نے فلم ’’کاف کنگنا‘‘ میں ایک عمر رسیدہ خاتون کے روپ میں مثبت تاثر چھوڑا۔

2019ء بھی تمام ہونے والا ہے۔ سال کے آغاز میں اُمید اور توقعات تو یہی تھیں کہ یہ سال فلمی صنعت اور فلم ٹریڈ کے منظرنامے میں مثبت تبدیلیاں برپا کردے گا۔ فلم پروڈکشن کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ساتھ فلموں کی کامیابیوں کا گراف بڑھنے کی اُمید بھی باندھی جارہی تھی، لیکن توقعات کے برعکس پُورا سنیریو پچھلے برسوں کا ایکشن ری پلے ثابت ہوا۔ 

نہ تو فلم پروڈکشن کی تعداد میں قابلِ ذکر اضافہ ہوا اور نہ ہی باکس آفس ہٹ فلموں کے تناسب میں بہتری آئی۔ 2019ء میں نمائش کے لیے پیش کی جانے والی اردو فلموں کی تعداد کل 22؍رہی، جن میں ’’گم‘‘ ’’شیر دل‘‘ ’’لال کبوتر‘‘ ’’پروجیکٹ غازی‘‘ ’’جنون عشق‘‘ ’’ رانگ نمبر ٹو‘‘ ’’چھلاوہ‘‘  ’’کتاکشا‘‘ ’’باجی‘‘ ’’ریڈی اسٹڈی نو‘‘ ’’صرف تم ہی تو ہو‘‘’’راؤنڈ اباؤٹ‘‘  ’’تیور‘‘ ’’سپراسٹار‘‘ ’’پرے ہٹ لو‘‘ ’’ہیر مان جا‘‘ ’’دال چاول‘‘  ’’کاف کنگتا‘‘ ’’درج‘‘ ’’تلاش‘‘  ’’بیتابیاں‘‘ اور ’’سچ‘‘ شامل ہیں، جب کہ پنجابی زبان کی فلموں میں ’’شریکے دی اگ‘‘ ’’چل میرا پٹ‘‘ ’’بیٹی گجراں دی‘‘ ’’سچی مچی‘‘ اور ’’بائوجی‘‘ شامل ہیں۔ 

اردو فلموں میں باکس آفس پر بہتر نتائج کی حامل فلموں میں یاسر نواز کی ’’رانگ نمبر ٹو‘‘ ثاقب ملک کی ’’باجی‘‘ محمد احتشام الدین کی ’’سپر اسٹار‘‘ عاصم رضا کی ’’پرے ہٹ لو‘‘ نے نمایاں کام یابی حاصل کی، جب کہ وجاہت رئوف کی ’’چھلاوہ‘‘ اور اظفر جعفری کی ’’ہیر مان جا‘‘ کا بزنس قدرے حوصلہ افزا رہا۔ فلم ڈائریکٹرز میں اظفر جعفری واحد ڈائریکٹر تھے، جن کی زیرہدایت بننے والی دو فلموں کی اس سال نمائش ہوئی اور دونوں ہی فلمیں ’’شیر دل‘‘ اور ’’ہیر مان جا‘‘ کام یابی سے ہمکنار ہوئیں۔ 

پروڈیوڈیوسر نعمان خان کی ’’شیر دل‘‘ کا سبجیکٹ بھی جاندار تھا اور اظفر جعفری نے اسے بہت عمدگی سے ہدایتکارانہ ٹریٹمنٹ دیا۔ پاک، بھارت جنگ اور پاکستان ایئرفورس کی اعلیٰ کارکردگی کے تناظر میں یہ ایک موثر اور معیاری کاوش تھی ، جب کہ ’’ہیر مان جا‘‘ ہلکے پھلکے سبجیکٹ پر مبنی ایک نیم کامیڈی اور سنجیدہ فلم تھی،جس کا ٹریٹمنٹ تو ہرگز قابل تعریف نہ تھا، لیکن جیو فلمز کی غیر معمولی تشہیر نے اس فلم کو فلم دیکھنے والوں کے لیے قابل توجہ بنا دیا۔ ہدایت کار یاسر نواز نے ’’رانگ نمبر ٹو‘‘ کی صورت میں گو کہ اپنی پہلی دونوں فلموں کی نسبت ایک کمزور فلم بنائی، لیکن قسمت کی خُوبی دیکھیے کہ کاروباری اعتبار سے یہ ان کی پچھلی دونوں فلموں ’’رانگ نمبر‘‘ اور ’’لب یو مہرالنساء‘‘ سے بہت بڑھ کر کام یاب ثابت ہوئی۔ 

وجاہت رئوف نے ’’چھلاوہ‘‘ کی صورت میں اپنی تیسری تخلیق پیش کی۔ یہ فلم انہوں نے بہت عجلت میں بنائی تھی ، اس لیے قابل ذکر معیار کی حامل تو قرار نہ پا سکی، لیکن مہوش حیات کا ہیروئن ہونا اس فلم کے کام آیا اور عید ریلیز ہونے کی وجہ سے بھی مناسب بزنس کرگئی۔ ہدایت کار ثاقب ملک کی ’’باجی‘‘ مضبوط اسکرپٹ، جاندار ٹریٹمنٹ، موثر کردار نگاری اور دیگر جملہ خوبیوں کی بدولت عوام و خواص میں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھی گئی بالخصوص ثاقب ملک کی ڈائریکشن فلم کی بڑی خوبی تھی۔ 

کمرشل انڈسٹری سے گو کہ ان کی وابستگی دیرینہ ہے، لیکن بہ طور فل لیتھ فلم میکر کے ’’باجی‘‘ ان کا پہلا پروجیکٹ تھا، جس کی تخلیق کے تناظر میں وہ اپنے کام کے اعتبار سے کہنہ مشق دکھائی دیے اور میرا جیسی مسترد شدہ فن کارہ سے بہترین کام لے کر اپنی ذہانت کا لوہا منوایا۔ اداکارہ آمنہ الیاس نے اس فلم میں شان دار اداکاری کی اور پُوری فلم میں توجہ کا مرکز بنی رہیں۔ ثاقب ملک کی ’’باجی‘‘ کا شعبہ موسیقی قدرے بہتر رہا اور اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ماضی کے دو یادگار گیت ’’یہ آج مجھ کو کیا ہوا‘‘ فلم ’’نوکر‘‘ 1975ء اور ’’کھلتی کلی کو دیکھ کر چپکے سے بھنورے نے کہا‘‘ فلم ’’سبق‘‘ 1972ء سے لے کر ری مکس کیے گئے تھے، جنہیں بے حد پذیرائی ملی۔

معروف ہدایت کار عاصم رضا کی ’’پرے ہٹ لو‘‘ گو کہ باکس آفس پر بڑی ہٹ ثابت ہوئی، لیکن اگر اسکرپٹ، ڈائریکٹر، کردار نگاری اور میوزک کے تناظر میں دیکھا جائے تو ان کی پہلی فلم ’’ہو من جہاں‘‘ ہر اعتبار سے ’’پرے ہٹ لو‘‘ سے کہیں زیادہ بہتر، زیادہ متاثرکن اور معیاری تھا۔ ہاں! یہ ضرور ہے کہ ’’ہومن جہاں‘‘ کے مقابلے میں ’’پرے ہٹ لو‘‘ میں بڑی کاسٹ اور بھرپور گلیمر کی سبقت نمایاں تھی اور غالباً یہی چیز کلک کرگئی۔ 

ہدایت کار احتشام الدین کی ’’سپر اسٹار‘‘ 2019ء کی ان دو تین فلموں میں سے ایک ہے، جس نے اپنے سبجیکٹ، کردار نگاری اور ذہانت آمیز ہدایتکارانہ ٹریٹمنٹ کی بدولت فلم کرٹیکس سے داد پائی۔ بلاشبہ ’’سپر اسٹار‘‘ ایک مشکل سبجیکٹ تھا، لیکن احتشام الدین نے پوری محنت، مہارت اور ذہانت کے ساتھ اسے فلم کا روپ دیا۔ گو کہ فلم کے ٹیمپو پر لوگوں کے کچھ تحفظات رہے، لیکن فلم کے اعلیٰ معیار پر سب متفق نظر آئے۔ دیگر فلموں میں ہدایت کار کمال خان کی ’’لال کبوتر‘‘ ایک خالصتاً آرٹ مووی تھی، جو باکس آفس پر تو رنگ نہ جما سکی، لیکن کرٹیکس نے اسے بے حد سراہا۔ ہدایت کار نادر حسین شاہ کی ’’پروجیکٹ غازی‘‘ فکشن مووی تھی۔ سوا گھنٹے کا انتہائی کم دورانیہ تھا، یہ فلم بینوں کے سر سے گزر گئی۔ 

سینئر ہدایت کار نسیم حیدر شاہ کی ’’جنون عشق‘‘ بزنس اور معیار دونوں حوالے سے مایوس کن ثابت ہوئی۔ ہدایت کار ابو علیحہ کی نفسیاتی ہارر فلم ’’کتاکشا‘‘ چھوٹے بجٹ سے تیار کی گئی، چند کرداروں پر مبنی تخلیق تھی، جسے فلم کے ڈھب پر بنایا جاتا تو بہت اچھا بزنس کرسکتی تھی۔ ’’ریڈی اسٹڈی نو‘‘ ایک ہلکی پھلکی کامیڈی فلم تھی، لیکن عوامی توجہ سے محروم رہی۔ سینئر ہدایت کارہ سنگیتا بیگم نے ماضی کی شاہ کار فلم ’’میرا نام ہے محبت‘‘ سے انسپائرڈ کہانی پر ’’صرف تم ہی تو ہو‘‘ بنائی، لیکن فلم بینوں کی توقعات پر پُوری نہ اتر سکی۔ 

ہدایتکار ارباز خان نے 70ء اور 80ء کے فارمیٹ پر ’’رائونڈ ابائوٹ‘‘ پیش کی، لیکن فلم میکنگ کے بدلتے ہوئے منظرنامے میں کوئی مقام نہ بنا سکی۔ ہدایت کار ابو علیحہ نے ’’کتاکش‘‘ کی ریلیز کے صرف پانچ ہفتے بعد ہی اپنی اگلی کاوش ’’تیور‘‘ عام نمائش کے لیے پیش کردی۔ کراچی میں وقوع پذیر ہونے والے سچے واقعات پر مبنی یہ فلم بھی کام یابی سے اس لیے محروم رہی کہ اس کا ٹریٹمنٹ فلمی نہیں، بلکہ ٹیلی ویژن ڈراموں کی طرز پر تھا، حالاں کہ ابو علیحہ کی اس سوچ کو ضرور سراہنا چاہیے کہ انہوں نے کم ترین بجٹ میں پے درپے دو عدد فلمیں تخلیق کیں، لیکن انہیں فلمی نقادوں کو بھی ملحوظ رکھنا چاہیے تھا۔ تاہم اظفر جعفری کے بعد یہ دوسرے ڈائریکٹر ہیں کہ جنہوں نے ایک ہی سال دو فلمیں پیش کیں۔ 

ہدایت کار اویس خالد نے ’’دال چاول‘‘ کے ٹائٹل سے فلم تیار کی، جس میں رزق حلال اور محکمہ پولیس کے سب کردار کو موضوع بنایا گیا، مگر کام یابی سے یہ فلم بھی دور رہی۔ مصنف و ہدایت کار خلیل الرحمن قمر کی ’’کاف کنگنا‘‘ سے فلمی حلقوں کو بہت زیادہ توقعات وابستہ تھیں۔ سبجیکٹ کے اعتبار سے فلم خاصی جاندار تھی، لیکن ہدایت کارانہ ٹریٹمنٹ کی فاش غلطیاں اور کوتائیاں اس کی کام یابی کی راہ میں رکاوٹ بن گئیں، جب کہ فلم کا میوزک بھی بے حد معیاری تھا۔

خلیل الرحمن قمر نے ’’کاف کنگنا‘‘ کے لیے موسیقار ساحر علی بگا اور نوید علی ناشاد سے نہایت عمدہ دھنیں اور خالص فلمی مزاج کی حامل موسیقی مرتب کروائی اور فلمبندی کے لیے موزوں سچویشنز بھی نکالیں (ماسوائے ایک المیہ گیت کی مضحکہ خیز سچویشن) کے! ’’سپر اسٹار‘‘ اور ’’پرے ہٹ لو‘‘ کے لیے موسیقار اذان سمیع کی کارکردگی قدر متاثرکن اور معیاری رہی۔ تاہم فلم نہ چل سکی۔

شمعون عباسی کی ’’درج‘‘ ایک انتہائی حساس موضوع پر بنائی گئی، مکمل آرٹ فلم تھی، جس میں ایک انسانی جوڑا غربت اور افلاس سے تنگ آکر قبر سے مردے نکال کر اس کا گوشت کھانے لگتا ہے۔ یہ ایک چیلنجنگ سبجیکٹ تھا، جسے ناقدین نے سراہا، لیکن تفریح طبع کے متلاشی فلم بینوں کی پسند اور توجہ سے یہ فلم بھی محروم رہی۔ 

ہدایت کار ذیشان خان کی انتہائی چھوٹے بجٹ میں نہایت بامقصد کہانی پر مبنی فلم ’’تلاش‘‘ بے شک ایک جرات مندانہ پیش کش تھی، لیکن ٹیلی فلم طرز کا ٹریٹمنٹ اسے بھی قابل ذکر کام یابی نہ دلا سکا۔ تاہم کم لاگت کی فلم ہونے کے سبب یہ فلم اپنی انوسٹمنٹ کو پورا کر گئی۔ اس فلم کے تعلق سے ہم فلم بینوں کو یہ بھی بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی 71؍سالہ تاریخ میں ’’تلاش‘‘ وہ واحد ٹائٹل ہے کہ جس کے تحت چار عدد اردو زبان کی فلمیں مختلف ادوار میں بنائی جا چکی ہیں۔ ہدایتکار عبدالماجد خان کی ’’بیتابیاں‘‘ بھی ان فلموں کی صف میں شامل ہوئی کہ جو نہ تو معیار کے اعتبار سے متاثر کن ثابت ہوسکی اور نہ ہی کاروباری اعتبار سے…! جب کہ سال کی آخری فلم ’’سچ‘‘ 20؍دسمبر کو منظرعام پر آئی، جسے ذوالفقار شیخ نے ڈائریکٹ کیا ہے۔

2019ء میں بھی پنجابی سنیما حسب سابق سخت جمود کا شکار رہا۔ ’’شریکے دی اگ‘‘ ’’بیٹی گجراں دی‘‘ اور ’’سچی مچی‘‘ کی صورت میں جو پنجابی فلمیں سامنے آئیں، موضوعات کی فرسودگی اور گھسے پٹے انداز کا ٹریٹمنٹ کسی خوش گوار پیش رفت کا موجب نہ بن سکا۔ 20؍دسمبر کو ہدایت کار امجد ملک کی سوشل فلم ’’بائوجی‘‘ نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ ممکن ہے کہ پنجاب سرکٹ میں یہ فلم مثبت نتائج دے کر پنجابی سنیما کے لیے کچھ راہ ہموار کرسکے۔

 فلم کےہیروز اور ہیرونز کارکردگی کے آئینے میں

2019ء میں جن ہیروز نے شان دار اور متاثر کن کارکردگی پیش کی، ان میں خالد عثمان بٹ فلم ’’باجی‘‘ میکال ذوالفقار فلم ’’شیر دل‘‘ بلال اشرف فلم ’’سپر اسٹار‘‘ بہ طور خاص قابل ذکر ہیں، جب کہ دانش تیمور فلم ’’تم ہی تو ہو‘‘ شہر یار منور فلم ’’پرے ہٹ لو‘‘ علی رحمن فلم ’’ہیر مان جا‘‘ شمعون عباسی فلم ’’درج‘‘ اور احمد زیب نے فلم ’’تلاش‘‘ کے حوالے سے مناسب کارکردگی پیش کی۔

ہیروز کی نسبت ہیروئنز نے پرفارمنس کے شعبے میں زیادہ متاثرکن اور معیاری کارکردگی پیش کی۔ ماہرہ خان نے ’’سپراسٹار‘‘ میں اپنے انتہائی مشکل کردار کیا، جس میں بے شمار شیڈز تھے، بہت زیادہ ورائٹی تھی، لیکن ماہرہ نے بڑی مہارت اور ذہانت سے اس چیلنجنگ رول سے پورا پورا انصاف کیا اور ثابت کیا کہ وہ عصرِحاضر کی صفِ اول کی فن کارہ ہیں۔ 

سینئر اداکارہ میرا نے بھی فلم ’’باجی‘‘ کی وساطت سے کم بیک کیا اور ایک فلمی ہیروئن کے رول کو کمال مہارت سے نبھایا اور ثابت کیا کہ فن کار کی صلاحیتیں کبھی ماند نہیں پڑتیں، بہ شرط یہ کہ انہیں ڈائریکٹر کی صورت میں اچھا جوہری مل جائے۔ آمنہ الیاس نے بھی ’’باجی‘‘ میں بہ طور سیکنڈ ہیروئن میرا کے مقابل جَم کر پرفارمنس دی اور اپنی بھرپور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنا رول نبھایا، جب کہ ’’رانگ نمبر ٹو‘‘ کی ہیروئن نیلم منیر نے اس فلم کے ذریعے اپنی بے ساختہ، بے باک اور حیران کن پرفارمنس سے ثابت کیا کہ ایک بہترین اور کام یاب فلمی ہیروئن ہیں، ان میں بہترین اداکارہ کے تمام جوہر نیلم میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ 

ان کی زبردست کارکردگی اس امر کا عندیہ ہے کہ وہ ٹی وی اسکرین کی طرح سلور اسکرین پر بھی نمایاں مقام بنا لیں گی۔ ایشل فیاض نے ’’کاف کنگنا‘‘ میں اعلیٰ کردار نگاری کا مظاہرہ کرکے نقادوں سے بھرپور داد و تحسین پائی۔ ’’طیفا ان ٹربل‘‘ میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے والی مایا علی نے ’’پرے ہٹ لو‘‘ میں بھی اپنا سابقہ معیار برقرار رکھتے ہوئے عمدہ کارکردگی دکھائی ، جب کہ حریم فاروق ’’ہیر مان جا‘‘ مہوش حیات ’’چھلاوہ‘‘ ارمینا رانا ’’شیردل‘‘ فاریہ حسین ’’تلاش‘‘ شیری شاہ ’’درج‘‘ کے توسط سے اچھی کارکردگی دکھانے میں کام یاب رہے۔

2019ء میں بہ حیثیت سپورٹنگ فن کار جن فن کار اور فنکارائوں نے متاثرکن کارکردگی پیش کی، ان میں ماضی کے سپر اسٹار ندیم بیگ نے فلم ’’سپر اسٹار‘‘ میں پچھلی کئی فلموں میں غیر متاثر کن کارکردگی کے بعد بھرپور اعلیٰ اور شان دار پرفارمنس پیش کرکے اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالا۔ عامر قریشی نے ’’جنون عشق‘‘ میں ایک جنونی عاشق کے رول میں نہایت جاندار کارکردگی دکھائی۔ 

حسن نیازی نے ’’مالک‘‘ کے بعد ایک بار پھر ’’شیر دل‘‘ میں بھارتی فلائٹ لیفٹنٹ کے کردار کو بڑی مہارت سے ادا کیا، جب کہ ’’رانگ نمبر ٹو‘‘ میں جاوید شیخ نے لیڈری کے شوقین، احمق، سرمایہ دار پٹھان کے روپ میں اپنی دل چسپ پرفارمنس کے شان دار رنگ بکھیرے۔ خلیل الرحمن قمر کے فرزند آبی خان نے ’’کاف کنگنا‘‘ کی وساطت سے ایک کھلنڈرے نوجوان کے کردار کو یکسوئی اور کام یابی سے نبھایا۔ 

لیجنڈ فن کار عابد علی نے ’’ہیر مان جا‘‘ میں ہیر کے باپ کے رول میں اپنی زندگی کی آخری پرفارمنس دی۔ خواتین ساتھی فن کارائوں میں فضا علی نے ’’کاف کنگنا‘‘ میں ایک بھارتی وزیر کی بیٹی کے کردار میں موثر پرفارمنس دی اور اپنے کردار کو نہایت وقار اور متانت سے ادا کیا۔ ثمینہ احمد نے ’’شیر دل‘‘ میں ایک شہید کی بیوہ اور ایک غازی کی دادی کے کردار سے بھرپور انصاف کیا۔ نشو بیگم نے فلم ’’باجی‘‘ میں نائیکہ کا رول عمدگی سے ادا کیا، جب کہ صائقہ خیام نے فلم ’’کاف کنگنا‘‘ میں ایک عمر رسیدہ خاتون کے روپ میں مثبت تاثر چھوڑا۔

فلموں میں اداکاراؤں کے دل کش آئٹم نمبرز

2019ء میں اکثر فلموں میں آئٹم نمبرز کی شمولیت کو ناگزیر خیال کرتے ہوئے فلموں کا جزو بنایا گیا اور بلاشبہ فلمی شائقین آئٹم نمبرز کو پسند کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ’’باجی‘‘ میں مہوش حیات بہ طور آئٹم نمبر گرل نظر آئیں اور شان دار ڈانسنگ پرفارمنس دی۔ ’’سپر اسٹار‘‘ میں کبریٰ خان آئٹم نمبر کے ساتھ جلوہ افروز ہوئیں۔ ’’پرے ہٹ لو‘‘ میں ماہرہ خان کا آئٹم نمبر ’’ہیر مان جا‘‘ میں زارا شیخ کا آئٹم نمبر اور ’’کاف کنگنا‘‘ میں نیلم منیر بہ طور آئٹم گرل منظرعام پر آئیں، لیکن ان میں سب سے زیادہ پرفیکشن ڈانسر پرفارمنس مہوش حیات نے دی۔

قابلِ ذکر اور خوش ایند بات یہ ہے کہ جو بہترین اسکرپٹ سامنے آئے، ان میں عرفان عرفی اور ثاقب ملک کے اشتراک میں تحریر کردہ فلم ’’باجی‘ ایک متاثر کن اور مضبوط سبجیکٹ، عمدہ اسکرین پلے اور موثر مکالمات سے آراستہ فلم تھی۔ اظفر جعفری کی ’’شیر دل‘‘ کے لیے نعمان خان کا تحریر کردہ اسکرپٹ دل چسپ، مربوط اور اثر خیزی کا حامل تھا۔ ’’سپر اسٹار‘‘ کے لیے اذان سمیع خان اور مصطفی زیدی نے مل کر بہت ہی اعلیٰ معیار کا حامل اسکرپٹ تحریر کیا۔ 

خلیل الرحمن قمر نے عمدہ سبجیکٹ اور نہایت طاقت ور مکالموں سے ’’کاف کنگنا‘‘ کے اسکرپٹ کو آراستہ کیا، لیکن ہدایت کارانہ خامیاں اس بہترین اسکرپٹ کی تمام خوبیوں پر پانی پھیر گئیں۔ ’’تلاش‘‘ کے لیے ندیم قریشی کا تحریر کردہ اسکرپٹ مقصدیت کے اعتبار سے نہایت قابل قدر تھا ،لیکن فلمی اسلوب کی کمی کے سبب اسے بہت زیادہ پذیرائی نہ مل سکی۔

تازہ ترین
تازہ ترین