• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پنجاب کے وزیر اعلیٰ جناب شہباز شریف نے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے ساتھ ایک ایم او یو پر دستخط کئے ہیں اور یوں خود کو اور اپنی ٹیم کو احتساب کیلئے پیش کر دیا ہے۔ جو لوگ شہباز صاحب کو قریب سے جانتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے محض تکلف سے کام لیا ہے ورنہ آج تک ان کے کسی منصوبے پر کرپشن کے حوا لے سے انگلی نہیں اٹھائی گئی۔ صرف پنجاب نہیں پاکستان بھر کے لوگ ان کی دیانت اور امانت کے قائل ہیں۔ جو شخص قومی خزانے سے تنخواہ لے کر ایک ہسپتال کو عطیہ کر دیتا ہو، جو سرکاری بیرونی دورے بھی اپنے خرچ پر کرتا ہو اور اس کے ساتھ جانے والے بھی اپنا ٹکٹ خود خریدتے ہوں وہ اگر اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کرتا ہے تو اصل میں وہ اپنے حریفوں پر ”خندہ زنی“ کرتا ہے کہ لو میں نے اپنے کپڑے جھاڑ دیئے ہیں اب جو کچھ میں نے چھپایا ہوا ہے وہ تم دیکھ لو لیکن شہباز صاحب کو غالباً یہ علم نہیں کہ حریفوں کی زبانیں بند نہیں کی جا سکتیں۔ وہ ایک کے بعد دوسرا مطالبہ سامنے لاتے رہیں گے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ جس شخص پر وہ جو الزام لگا رہے ہیں۔ وہ شخص ایسے الزامات کےلئے نہیں بنا۔ پاکستانی سیاست میں اس طرح کی حرکتیں غیر اخلاقی نہیں سمجھی جاتیں۔ ان کا مقصد محض عوام کو کنفیوژ کرنا اور اپنی کرتوتوں پر پردہ ڈالنا یا یہ تاثر دینا ہوتا ہے کہ کرپشن کے حمام صرف ہم نہیں، ہمارے حریف بھی ننگے ہیں!
پنجاب حکومت نے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے ساتھ جس ایم او یو پر دستخط کئے ہیں کہا گیا ہے کہ اس کی رپورٹ بھی عوام کے سامنے لائی جائے گی اور شہباز صاحب کے مطابق اگر ان منصوبوں میں کوئی بے قاعدگی نظر آئی تو ذمہ داروں کو معاف نہیں کیا جائے گا یہ رپورٹ موجودہ حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے سے پہلے سامنے آ جائے گی اور یوں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ اس حوالے سے ایک دلچسپ بات وہ پراپیگنڈہ ہے جس کے مطابق میٹرو بس پر ستر اسی ارب روپے خرچ آنے کی بات کی جاتی ہے جبکہ پنجاب حکومت بار بار اس کی لاگت 30 ارب روپے بتا رہی ہے۔ سو ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ سے یہ بات بھی سامنے آ جائے گی کہ ان دونوں فریقین میں سے کون سچا اور کون جھوٹا ہے۔ اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ اس منصوبے پر تیس ارب روپے لاگت آئی ہے تو ستر اسی ارب روپے والوں کو پھر بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ایک بچہ اپنی ماں کو بتا رہا تھا کہ وہ اپنے دوست سے کوے کا رنگ سفید ہونے کی شرط لگا آیا ہے۔ ماں نے کہا بیٹے یہ شرط تو تم ہار جاﺅ گے کیونکہ کوا تو کالا ہوتا ہے۔ بچے نے جواب دیا ”ماں، شرط تو میں تب ہاروں گا اگر میں نے مان لیا کہ کوا کالا ہوتا ہے!“
اب میٹرو بس کی بات چلی ہے تو یہ لذیزحکایت بھی سنتے جائیں، اس کی افتتاحی تقریب میں شمولیت کے لئے مجھے بھی ایک ”سرکلر“ قسم کی دعوت دی گئی تھی چنانچہ ”مصروفیت“ میرے آڑے آ گئی، ویسے بھی یہ تقریب ایک دعوت عام قسم کی تقریب تھی جس میں ہزاروں لوگ شریک ہو رہے تھے، غالب نے ایک بار پیش گوئی کی کہ وہ فلاں سن میں فوت ہو جائیں گے۔ جب وہ اس سال فوت نہ ہوئے تو انہوں نے دوستوں کو یہ توجیہہ پیش کی کہ دراصل اس سال دہلی میں طاعون کی بیماری سے ہزاروں لوگ ہلاک ہوئے تھے چنانچہ میں نے مناسب نہیں سمجھا کہ ان ہزاروں میں ایک جنازہ میرا بھی ہو۔ بہرحال جب میٹرو کی تقریب بخیر و عافیت منعقد ہو چکی، ایک دن میں نے دوستوں کے ساتھ اس بنی سنوری تیز رفتار اور ماڈرن ”ڈاچی“ پر سیر کا پروگرام بنایا۔ ماڈل ٹاﺅن کے پاس جب میں اس کے اسٹیشن کی سیڑھیاں چڑھنے میں کامیاب ہو گیا (ایسکیلیٹر کام نہیں کر رہا تھا) تو میں نے محسوس کیا کہ میں لندن یا پیرس کے میٹرو اسٹیشن پر کھڑا ہوں، ٹکٹ لینے اور اسٹیشن کی حدود میں داخل ہونے کا سارا نظام خود کار تھا، نئی نویلی بس ”پلیٹ فارم“ کی حدود میں داخل ہوئی تو اس کی سج دھج دیکھ کر طبیعت نہال ہو گئی، لیکن جب میں بس میں داخل ہوا تو عوام کا ایک اژدھام تھا جو اس بہترین سہولت سے فائدہ اٹھانے کے لئے اس میں ”گھسا“ ہوا تھا تاہم ”سینئر سیٹزن“ کے حوالے سے مجھے کھڑکی کی طرف سیٹ مل گئی، مگر اتنی بلندی سے شہر کا نظارہ مجھے اچھا نہیں لگا، بغیر رنگ و روغن کے خستہ مکانات قطار اندر قطار نظر آ رہے تھے، البتہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی اور بادشاہی مسجد اتنی خوبصورت لگ رہی تھیں کہ جی چاہتا تھا بس وہیں رکی رہے۔ میں نے بس میں سوار مسافروں سے انٹرویو بھی کئے۔ وہ انتہائی خوش دکھائی دے رہے تھے البتہ ان کا مطالبہ تھا کہ ایک تو فی الحال اس روٹ پر دیگر ٹرانسپورٹ بند نہ کی جائے اور دوسرے ترکی سے مزید بسیں منگوائی جائیں۔ بہرحال یہ ایک بہترین منصوبہ ہے اور اگر موجودہ حکومت کو عوام کی طرف سے ا یک بار پھر مینڈیٹ ملے تو اس کا دائرہ لاہور کے دوسرے علاقوں کے علاوہ پورے پنجاب اور اگر مرکز میں بھی ان کی حکومت بنے تو پورے پاکستان تک وسیع کر دینا چاہئے! اور ہاں جس اسٹیشن پر میں اترا، وہاں کا ایسکیلٹر بھی کام نہیں کر رہا تھا!
اب دوبارہ واپس آتے ہیں الزامات کی طرف، میرے خیال میں یہ بیماری کسی ایک طبقے تک محدود نہیں بلکہ یہ پوری قوم کے رگ و پے میں سرایت کر چکی ہے، کرپشن کا الزام ”روز مرہ“ بن کر رہ گیا ہے، ہم پوری بے دردی سے ہر ایک پہ یہ الزام عائد کرتے ہیں اور ہمیں خدا کا خوف محسوس نہیں ہوتا، ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک کرپٹ شخص دوسرے شخص کو کرپٹ تو قرار دے رہا ہوتا ہے، ان ظالموں کو اندازہ نہیں کہ کسی بے داغ کردار کے شخص پر جب یہ گندہ اور غلیظ الزام عائد کیا جاتا ہے، اسے اس کی کس قدر تکلیف ہوتی ہے اور اس کے ردعمل میں وہ ان لوگوں کے لئے اپنے خدا سے کیا دعا مانگتا ہے۔ لیکن اگر ہماری زندگیوں میں اور ہمارے اعمال میں خدا کے وجود پر یقین ہی نظر نہ آتا ہو، تو پھر اس موضوع پر ساری گفتگو بیکار نظر آنے لگتی ہے میں کبھی کبھی محسوس کرتا ہوں کہ ہمارے مبلغوں کو سب سے پہلے اپنے اردگرد پھیلے ہوئے ”شکیّ“ القلب لوگوں کے قلب کی دھلائی اور صفائی کا اہتمام کرنا چاہئے!
اور اب آخر میں ممتاز نقاد، افسانہ نگار اور شاعر عباس رضوی (کراچی) کی ایک غزل!
ہم ایک شہر گلوں کا بسانے والے تھے
مگر وہ دن ہی نہ آئے جو آنے والے تھے
وہ رنگ ہی نہ رہے آنکھ میں کہ جن سے ہم
کسی پری کا سراپا بنانے والے تھے
جو گیت ہم نے لکھے آرزو کے موسم میں
وہ گانے والے نہ تھے گنگنانے والے تھے
ہمارے ساتھ زمانے نے ٹھیک ہی تو کیا
ہم ایسے لوگ بھلا سر جھکانے والے تھے
یہ جن کے نقش قدم راہ میں مہکتے ہیں
یہ لوگ بادِ صبا کے گھرانے والے تھے
وہ دل خود اپنی ہی وارفتگی میں ڈوب گیا
تھپک تھپک کے جسے ہم سلانے والے تھے
جہاں گھروں کو جلاتی ہے آگ نفرت کی
اسی نگر میں ہم اک گھر بنانے والے تھے
وہ سو گیا ہے کہانی کی طرح سینے میں
جسے ہم اپنی کہانی سنانے والے تھے
تازہ ترین