• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاست2019میں چھائی رہی تو حکومت اور اپوزیشن دونوں کونقصان بھی ہوااورفاٹاکے خیبرپختونخوا میں ضم ہونے کے بعدمئی 2018کےبعدسےان کے تعلقات کافی کمزور ہوئےاسی سال انتخابات بھی ہوئےاور اس سے قبائلی اضلاع کےعوام مرکزی دھارےمیں شامل ہوگئے۔

حکومت اور اپوزیشن نے مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی مظالم کےخلاف مظالم پرایک مشترکہ قراردادبھی منظورکی تھی۔ کشمیرپرسرکاری پالیسی پرملا جلا رجحان ہی رہا خاص طورپروزیراعظم عمران خان کی اقوام متحدہ میں کی گئی تقریرکےبعدجسےمکمل طورپرکافی سراہاگیالیکن اس کےبعدکچھ نہ کرنےپرحکومت پرکافی تنقیدکی گئی۔

  دیکھئے  پروگرام ’رپورٹ کارڈ ‘ میں مظہر عباس کا تجزیہ


وزیراعظم عمران خان نےکسی طرح سےبھی اپوزیشن کے ساتھ تعلقات بہترکرنے کاکوئی عندیہ نہیں دیابلکہ پیش گوئی کی ہے کہ سال 2020ان کیلئے ’براسال‘ہوگااوراشارہ دیاہےکہ ان کےخلاف کچھ بڑے اقدامات کیے جائیں گےجنھیں وہ مافیاکہتےہیں اوراس میں تنقید کرنےوالےمیڈیاکوبھی شامل کیاہے، ان کی حکومت نیب آرڈیننس 2019میں بڑی تبدیلیاں کرکےمضبوط کاروباری کمیونٹی اور بیوروکریسی کے آگےتقریباًجھگ گئی ہے۔

تاہم ان کی بڑی پریشانی اپوزیشن نہیں ہےبلکہ اپیل اورنظرِثانی کی دومشکلات میں قانونی فتح حاصل کرناہےوہ یہ ہیں کہ کس طرح سابق صدرجنرل(ر) پرویز مشرف کوسپریم کورٹ کی جانب سے آئین کےآرٹیکل چھ کے تحت سنائی گئی سزائے موت اور آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کودی گئی چھ ماہ کی توسیع جو ماضی میں کبھی نہیں ہوا۔

ان دوفیصلوں کےباوجود سول ملٹری تعلقات ماضی کی دوحکومتوں کےبرعکس مثالی ہیں، بہت سےلوگوں کامانناہےکہ اس کی بڑی وجہ ہےکہ غیرمثالی مہنگائی خاص طورپرادویات میں اضافہ کے باوجوداپوزیشن عمران خان اور ان کی حکومت کےخلاف کوئی معنی خیزمزاحمت کرنےمیں ناکام ہے۔

معیشت میں وہ اب مزید پُراعتمادنظرآتےہیں اورسال 2020میں ایک بہترپاکستان کی پیش گوئی کی گئی ہے، وہ زیادہ تروزیرِخزانہ حفیظ شیخ کی زیرقیادت معاشی ٹیم پر انحصار کرتےہیں جنھوں نےرواں سال کےآغازپران کےسینئرپی ٹی آئی رہنمااسدعمرکی جگہ لی ہے۔

حکومت کی بڑی پریشانی غیرمثالی مہنگائی ہی ہےخاص طورپر ادویات کی قیمتوں میں اضافہ اور اگریہ 202میں بھی برقراررہتی ہیں تو وزیراعظم عمران خان کی حکومت مشکل میں پڑجائےگی۔ میڈیاباڈیز نے میڈیاکےخلاف وزیراعظم عمران خان کے بیان کو مسترد کردیاہے اور انھیں میڈیا کا وہ کرداریاددلایاہےجب وہ اپوزیشن میں تھے۔

ان کی حکومت پرپریس کوآزادی دینےکیلئے زیادہ کچھ نہ کرنے اور صحافیوں کودھمکانےپربھی تنقیدکی جارہی ہے۔ اپوزیشن کیلئےبھی یہ ایک براسال تھا۔ نام نہاد‘رہبرکمیٹی‘ بنانےکےباوجودساراسال وہ ایک منقسم قوت رہےلیکن ان کےلیےبڑی پریشانی تب آئی جب سینٹ میں واضح اکثریت ہونےکےباوجود چیئرمین سینٹ کےخلاف عدم اعتمادکےووٹ میں شکست کھاگئے۔

اگرچہ ان کے مرکزی رہنمائوں نے جیل، مقدمات،منی لانڈرنگ کاسامنا کیا لیکن اپوزیشن لوگوں کو سڑکوں پر نہ لاسکی سوائے جے یوآئی(ف)کے، جب مولانافضل الرحمٰن تقریباً ایک لاکھ لوگوں کو اپنے آزادی مارچ کیلئے اسلام آباد لے آئے۔ لہذاان کے پاس بھی واپسی کے سوا کوئی راستہ نہ تھا۔

سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری اور چند دیگراپوزیشن رہنمائوں کو کچھ ریلیف ملا جب عدالتوں نے انھیں ضمانت پر رہاکیا۔ نواز شریف کو طبیٰ بنیادوں پر بیرونِ ملک جانے کی اجازت بھی مل گئی اور انھوں نے پنجاب حکومت کولندن میں اپنے قیام میں توسیع کےلیےایک درخواست بھی دے دی ہے۔ اپنی سزا کے خلاف نواز شریف اوران کی بیٹی مریم نوازکیجانب سےدائرکردہ اپیل کا حتمی فیصلہ بھی ایک ماہ میں متوقع ہے۔

سابق صدر آصف زرداری،جن کی بہن فریال تالپوربھی ضمانت پرہیں،کےکیس میں سماعت میں کچھ وقت لگ سکتاہے اور اب تک نیب نےضمانت منسوخی کیلئےعدالت سے رجوع نہیں کیا۔

سیاست سے قطع نظرجن واقعات نے قوم کو ہلا کررکھ دیا وہ ساہیوال میں 19جنوری کوپیش آنےوالاسانحہ تھاجہاں سی ٹی ڈی پنجاب نے ایک جوڑےکوان کے بچوں کےسامنے ایک ’جعلی پولیس مقابلے‘میں ماردیا۔

اس نے ’ریاستِ مدینہ‘کےدعوئوں کا بھی پول کھول دیا کیونکہ اس میں ملوث تمام افراد رہاہوگئے اور لوگ جانتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوا؟

تازہ ترین