• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان قائداعظم کا پاکستان نہیں رہا، ہندوستان بھی گاندھی کا ہندوستان نہیں رہا۔ دہلی سے کلکتے تک بھارتیوں کے سرخ احتجاجی چہرے امبیدکر، گاندھی، نہرو کے ہند کے سقوط کا اعلان کر رہے ہیں۔ مودی نے ہندوتوا کا ترشول مسلمانوں کے سینے میں اتارنا شروع کیا تو ہندوستان کا 5اگست سے خراٹے لیتا ضمیر جاگنا شروع ہوگیا۔ اب بھارتی پنجاب کے سوا ساری ریاستوں میں بھارت کا مستقبل شعلہ فشاں ہے۔ ادیب، شاعر، دانشور، اداکار، فنکار سب گھروں سے نکل آئے۔ بھارت کو مزاحمت کی عادت نہیں رہی تھی۔ وہاں کے ادیب شاعر زیادہ پاکستان کے خلاف ہی آواز بلند کرتے تھے۔ اس لئے پاکستان کی مزاحمتی شاعری ہندوستانیوں کے کام آرہی ہے۔ فیض احمد فیضؔ اور حبیب جالبؔ کا انقلابی کلام بھارت کی نئی نسل کے ہونٹوں پر ہے، دہلی، کلکتے، میرٹھ، دیوبند، اعظم گڑھ، گیا، ممبئی، کالی کٹ، مظفر نگر، اورنگ آباد، علی گڑھ، لکھنو، گلبرگہ، بھوپال، بنگلور۔ گوا، احمدآباد، بھاگلپور کی شاہراہوں پر دیوانہ وار رقص کر رہی ہے، کبھی خاموش نہیں رہتی۔

کراچی آرٹس کونسل میں مورخ عوام ڈاکٹر مبارک علی کے جشن میں بھی ہاتھوں پیروں میں بندھی رسیاں کھولنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایک پانچ ستارہ ہوٹل میں اکرام سہگل 48سال بعد مشرقی اور مغربی پاکستان پر سبز رنگ کے مختلف پرتوں کو کھول رہے ہیں۔ جاوید جبّار، سراج الدین عزیز، لیفٹیننٹ جنرل علی قلی خان اپنے مشاہدات اور تجربات سے 1971کے سانحے کی مزید تہیں تلاش کر رہے ہیں۔ تاریخ جغرافیے پر غالب آرہی ہے مگر ہمارے وزیراعظم بھارت کے اس ہمہ گیر خلفشار سے صرف لائن آف کنٹرول پر کسی چھیڑ چھاڑ کی توقع کر رہے ہیں۔ ایک ایٹمی ملک اور 60فیصد نوجوان آبادی والے ملک کے انتظامی سربراہ کی سوچ اتنی محدود کیوں ہے؟ کون اسے جنوبی ایشیا کی سطح پر سوچنے نہیں دیتا۔

نریندر مودی اکیلا نہیں ہے۔ ایک بھرپور ہندو انتہا پسند سوچ کا نمائندہ ہے۔ یہ شدت پسند فوج میں ہیں، سیاسی پارٹیوں میں بھی۔ جب ہنگاموں میں مزید شدت آئے گی اور جب بھارتی پنجاب میں بھی خالصے باہر نکل آئیں گے تو وہ صرف لائن آف کنٹرول پر چھیڑ چھاڑ نہیں کرے گا۔ وہ بلوچستان میں بھی کوئی راگ الاپ سکتا ہے۔ سندھ میں بھی کسی فتنے کا در کھول سکتا ہے۔ اس نے کلبھوشنیے بہت پہلے سے بکھیرے ہوئے ہیں۔ بلوچستان میں شدت پسند پنجاب والوں کو برداشت نہیں کرتے۔ ایسی عصبیتیں ہر صوبے میں موجود ہیں۔ 18ویں ترمیم نے صوبوں کو خود مختاری دی ہے، خود مختاری کی تربیت نہیں دی۔ اس لئے یہ صوبائی خود مختاری، صوبائی تعصب میں بدل رہی ہے۔ بھارت میں یہ جو احتجاج ہو رہا ہے، جن اقدمات کے خلاف ہو رہا ہے، یہ کسی مارشل لا کا نتیجہ نہیں ہے۔ 72سال سے متواتر جمہوری حکومتوں کے بعد ہو رہا ہے۔ ہم تو ہر غیر جمہوری رجحان کی ذمہ داری فوج پر ڈال کر تسکین محسوس کرتے ہیں۔ بھارت میں اِن تعصباتی قوانین کی ذمہ داری کس پر عائد کی جا سکتی ہے۔ اِس پر کیا ہمارے ہاں کوئی تحقیق ہو رہی ہے۔ کیا کسی قومی سیاسی جماعت نے اپنی سینٹرل کمیٹی کا اجلاس بلاکر غور کیا ہے۔ کیا کسی یونیورسٹی نے اس پر سیمینار منعقد کیا ہے۔ کیا تاریخ سرگوشیاں نہیں کر رہی کہ بھارت میں ان احتجاجی ریلیوں کے چھینٹے پاکستان پر بھی پڑ سکتے ہیں۔ کیا بھارت کے ان مسلسل ہنگاموں پر غور و فکر اور تحقیق صرف فوج یا آئی ایس آئی کی ذمہ داری ہے؟

دہلی سے کولکتہ تک جو اُبال آیا ہوا ہے یہ اچانک نہیں ہے۔ جن سنگھ نے تقسیمِ ہند کے بعد سے ہی اس کی کوششیں شروع کر دی تھیں بلکہ تقسیم سے پہلے سے ہی شدھی تحریک شروع ہوئی کہ ہندو سے مسلمان ہونے والے دوبارہ ہندومت قبول کریں تو ہندوستان میں رہ سکیں گے۔ مغل دور میں اپنائی گئی مسلم روایات، رسمیں چھوڑیں۔ مکّہ مدینہ کو مقدس نہیں، دہلی بنارس کو محترم جانو۔ ہندوتوا صدیوں کی نفرتوں کا مظہر ہے۔ مختلف شہروں میں کیمپ قائم کیے جا رہے ہیں۔ جہاں اپنی شہریت ثابت نہ کرنے والوں کو محصور رکھا جائے گا۔ یہ صدیوں کی باہمی کشمکش ہے۔ اس پر پاکستانی میڈیا کو تسلسل سے ٹاک شوز کرنا چاہئیں۔ اخبارات کو خصوصی ایڈیشن چھاپنا چاہئیں۔ پاکستانیوں کو اس خلفشار کے اصل اسباب سے آگاہ کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ ہم بھی اپنے ہاں یہ شکایتیں دور نہیں کر سکے۔ گلے، شکوے، محرومیاں دلوں، دماغوں میں موجود ہیں۔ اُن کا حل ہماری ترجیح نہیں ہے۔ حکومت کی ادھر توجہ ہے نہ سیاسی پارٹیوں کی اور نہ ہی میڈیا کی۔ اِن سلگتی چنگاریوں کو بھارت کے ایجنٹ ہوا دے سکتے ہیں۔ فکری انتشار ہمارے ہاں موجود ہے۔ یہ بھی دیکھ لیں کہ عالمی رائے عامہ بھارت کے اِن کالے قوانین کی مذمت نہیں کر رہی۔ بھارت کی بڑی منڈی نے اِن بیوپاریوں کے منہ بند کر رکھے ہیں۔ اس لئے بھارت لامحالہ پاکستان میں فتنے اٹھائے گا۔ بہت جلد امریکہ، روس، افغانستان اور بعض دوسرے مسلم ممالک کے ایجنٹ اس میں اس کے مددگار ہوں گے۔ پھر پاکستان کے ہنگامے عالمی میڈیا پر دکھائے جا رہے ہوں گے۔ مودی انسانیت کو روندتا چلا جائے گا۔

عوام کی بے چینی، اپوزیشن کا اضطراب دور کرنا عمران خان کا فرضِ منصبی ہے۔ پاکستان کے لئے یہ پہلا تاریخی موقع ہے۔ صرف عمران خان کی نہیں، سارے سیاسی قائدین، دانشوروں کے تدبر اور دانش کی آزمائش ہے۔ اپنے آپ کو بھارت میں جلتی آگ سے بچانا بھی ہے اور دنیا پر واضح بھی کرنا ہے کہ بھارت وہ نہیں جو دنیا اب تک سمجھتی آرہی ہے۔ سیکولر ہے نہ جمہوری، اور نہ ہی نہ ماڈرن۔ یہ چودہویں عیسوی صدی کی متعصب سوچ والے پنڈت ہیں۔

تازہ ترین