• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
منی پاکستان اور ملک کی معاشی شہ رگ دوراہے پر ہے۔ ایک طرف تباہی و بربادی ہے اور دوسری طرف سکون کے آثار ہیں۔ اس شہر کی بے چینی اور بدامنی کی کئی پرتیں ہیں۔ کروڑوں کی آبادی کا ایک جگہ جمع ہونا بذات خود انتشار اور لاقانونیت کا موجب بنتا ہے ۔ ملک بھر سے آبادی جمع ہوتی رہی لیکن اسے سمونے کے لئے انفرااسٹرکچر کو ترقی دی گئی اور نہ مناسب شہری سہولتیں فراہم کی گئیں۔ دیگر عوامل نہ ہوتے تو خود یہ بے ہنگم آبادی بھی لاقانونیت اور تشدد کو جنم دینے کے لئے کافی تھی پھر یہاں کئی لسانی گروہ جمع ہوگئے ان کے درمیان تناﺅ تھا جسے سیاسی مقاصد کے لئے ہوا دے کر مزید بڑھا دیا گیا۔ کراچی وہ شہر ہے جہاں پاکستان میں موجود تمام مسالک کے لوگ خاطر خواہ تعداد میں موجود ہیں اور یہی شہر ان مسالک کی فرقہ پرست تنظیموں کے ہیڈکوارٹر کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ تمام مسالک کے بڑے مدارس بھی یہاں موجود ہیں اور پاکستان بھر سے ان مسلکوں کے متحرک لوگ اسی شہر میں جمع ہوتے ہیں ۔
ملک بھر میں شاید اتنا اسلحہ نہیں ہوگا جتنا صرف کراچی میں موجود ہے۔ کراچی کو خود پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے بھی اسٹرٹیجک مقاصد کے لئے استعمال کیا اور پاکستان میں دلچسپی رکھنے والی تمام عالمی اور علاقائی قوتوں کی نظریں بھی اسی شہر پر جمی ہوئی ہیں ۔ امریکہ ہو کہ برطانیہ ‘ ہندوستان ہو کہ اسرائیل ‘ ایران ہو کہ سعودی عرب سب نے یہاں اپنے مہرے پیدا کررکھے ہیں اور خطے میں جاری نئی گریٹ گیم میں بھی اس شہر کی حیثیت کلیدی ہے۔کسی بھی مافیا کا نام لےں ‘ وہ آپ کو اس شہر میں موجود ملے گا۔ بھتہ مافیا‘ لینڈ مافیا‘ ڈرگ مافیا‘ اسلحہ مافیا‘ عالمی مافیا غرض ہر مافیا کی یہاں موجود گی اپنی مثال آپ ہے۔ مذکورہ عوامل کے تناظر میں وقت کا تقاضا تھا کہ گزشتہ انتخابات میں سندھ کی حکمران بننے والی جماعتیں نہایت تدبر سے کام لیتیں اور مل جل کر بدامنی کے اسباب کو ختم کرنے کی کوشش کرتیں لیکن بدقسمتی سے ایسا کرنے کے بجائے انہوں نے گندی سیاست کو ترجیح دی کہ جس کی وجہ سے حالات مزید خراب ہوگئے۔ تینوں حکمران جماعتوں نے اپنے لئے متحارب گروہ اور مافیا چن لئے، ان کے ذریعے اپنی قوت بڑھائی اور جواب میں حکومت میں اپنے حصے کے مطابق ان کی سرپرستی کرتی رہیں ۔ یوں ہر گروہ اور مافیا مضبوط سے مضبوط ہوتا گیا۔ ادھر سے پیپلزپارٹی نے ایم کیوایم اور اے این پی کو لڑانے کا منصوبہ بنایا اور بدقسمتی سے وقتی مفاد اور مصالح کی وجہ سے یہ دونوں جماعتیں ایک کابینہ میں بیٹھ کر بھی لڑنے لگیں۔ اس لڑائی میں اپنی پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لئے دونوں جماعتیں جرائم پیشہ عناصر کو گود لیتی اور ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرتی رہیں اور جب حکومتی پارٹیاں قانون شکن گروہوں کی سرپرستی شروع کریں تو لامحالہ وہ مزید مضبوط ہوں گی۔ دوسری طرف پیپلزپارٹی ان دونوں کو لڑانے کے ساتھ ساتھ ایک اور طرح کے قانون شکنوں کی سرپرستی کرتی رہی اور اس دوران کئی نئے گروہ بھی اس نے تخلیق کئے ۔ اگرچہ مذہبی انتہاپسند کراچی میں پہلے سے خاطرخواہ تعداد میں موجود تھے لیکن جب اس کے عسکری ونگ یہاں پر متحرک ہورہے تھے تو ان کا راستہ روکنے کے بجائے ان مقتدر جماعتوں نے انہیں ساتھ ملانے اور ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی ۔
سوات اور فاٹا میں آپریشنوں کے بعد جب کراچی کے مقامی عسکریت پسند وہاں واپس لوٹ رہے یا پھر فاٹا سے وہاں کے عسکریت پسند وہاں جمع ہورہے تھے تو اپنے لئے خطرہ سمجھ کر ایم کیوایم نے پوری شدت کے ساتھ ان کے خلاف آواز اٹھائی لیکن اس وقت اے این پی کی قیادت کراچی میں ان کی موجودگی کا انکار کرتی رہی۔ ایم کیوایم جتنی ان لوگوں کے جمع اور متحرک ہونے سے پریشان تھی‘ اے این پی کی مقامی قیادت اتنی خوش تھی۔ کچھ عرصہ بعد ایم کیوایم نے عسکریت پسندوں کے ساتھ درپردہ مفاہمت کرلی اور نتیجتاً ان لوگوں نے اپنی توپوں کا رخ اے این پی کی طرف کرلیا۔ اس دوران ایم کیوایم نے ان کے خلاف سخت زبان کا استعمال بھی بند کیا۔ چنانچہ پچھلے ایک سال کے دوران ان لوگوں نے کراچی میں اے این پی کی خوب خبر لی ۔ اے این پی کے کئی رہنما نشانہ بنائے گئے اور ان کے ایک درجن سے زائد دفاتر پر بھی قبضہ کرلیا گیا۔ ملالہ یوسفزئی کے واقعے کے بعد جب الطاف حسین نے دوبارہ مذہبی عسکریت پسندوں کے خلاف سخت زبان استعمال کرنا شروع کی تو درپردہ مفاہمت ختم ہوگئی اور مذہبی عسکریت پسندوں نے ایک بار پھر ایم کیوایم کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ دوسری طرف اقتدار کا عرصہ ختم ہونے کو آگیا ۔ اب ایک طرف اقتدار کا خاتمہ اور دوسری طرف یہ خطرات ۔ چنانچہ ایم کیوایم کی بھی عقل ٹھکانے آگئی اور اے این پی کی بھی۔ شاید اسی لئے ایک دوسرے کے خلاف دونوں کے رویّے میں کچھ مثبت تبدیلی آگئی ہے بلکہ ایم کیوایم کا رویہ لائق تحسین حد تک مفاہمانہ بن چکا ہے ۔
گزشتہ روز اسلام آباد میں خیبر پختونخوا کے ورکرز کے کنونشن سے خطاب کے دوران الطاف حسین نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر مہاجروں کی طرف سے پختونوں کے ساتھ کوئی زیادتی ہوئی ہے تو وہ ہاتھ جوڑ کر پختونوں سے اس کی معافی مانگتے ہیں۔ اے این پی کا ردعمل بھی مفاہمانہ ہے لیکن اس میں وہ گرمجوشی نہیں جو ایم کیوایم کے ہاں نظر آتی ہے لیکن ایم کیوایم کو مذکورہ نظر آنی والی مشکلات سے بھی ہٹ کر مشکلات کا سامنا ہے اور مستقبل قریب میں اس پر نہایت سخت وقت آنے والا ہے۔ ایک طرف اس کی بیرون ملک قیادت مشکل کا شکار ہونے والی ہے اور دوسری طرف پاکستان میں موجود اس کی قیادت بیرون ملک قیادت کی روز بروز بدلتی پالیسیوں کی وجہ سے شدید ذہنی دباﺅ کا شکار ہے ۔ اب اے این پی‘ پی پی پی ‘ جماعت اسلامی اور ایم کیوایم مخالف دیگر قوتوں کے پاس دو راستے ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ درپیش اور مستقبل میں پیش آنے والی مشکلات کی وجہ سے ایم کیوایم کے مصالحانہ رویّے کا مثبت جواب دیں اور دوسرا یہ کہ وہ اس کی اس کمزور پوزیشن سے فائدہ اٹھا کر اس کے ساتھ حساب برابر کرنے کا سوچیں ۔ اگر پہلے والا ردعمل سامنے آیا تو یہ کراچی میں امن اور شانتی کی راہ ہموار کرسکتا ہے اور اگر دوسرا راستہ اختیار کیاگیاتو تباہی و بربادی کا نیا سلسلہ کھل سکتا ہے۔ ان مخالف قوتوں نے اگر ایم کیوایم کے ساتھ حساب برابر کرنے کی راہ اپنا لی تو اس سے ایک طرف تو ان قوتوں کا کام آسان ہوگا جو کم وبیش تمام سیاسی جماعتوں کی دشمن ہیں ۔ دوسری طرف ایم کیوایم کا امن پسند اور سیاسی سوچ والا عنصر پس منظر میں چلاجائے گا اور یہ جماعت مکمل طور پر انتہاپسند عناصر کے ہاتھ میں چلی جائے گی۔ اس تناظر میں عرض کیا تھا کہ کراچی بدترین تباہی اور امن کے دوراہے پر کھڑا ہے ۔ اب انحصار ایم کیوایم مخالف جماعتوں کے رویّے پر ہوگا ۔ اگر اس کی مشکلات سے فائدہ اٹھا کر اس کے ساتھ حساب برابر کرنے کی کوشش کی گئی تو تباہی و بربادی کا ایک نیا دور شروع ہوگا اور اگر ماضی کو بھلا کر اسے گلے سے لگایا گیا تو کراچی کی سیاست کو تشدد سے پاک کرنے اور اسے ماضی کی طرح محبتوں کا شہر بنانے کا ایک نیا دور شروع ہوگا۔
تازہ ترین