• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاہور ایک ایسا شہر ہے جو لوگ یہاں پیدا ہوئے انہیں اس سے عشق ہے، جو لوگ 1947ء میں یا اس کے بعد یہاں آکر آباد ہوئے، انہیں بھی اس شہر سے عشق ہو گیا۔ خصوصاً جو لوگ امرتسر سے لاہور شفٹ ہوئے ان کی تعداد باہر سے آنے والوں میں سب سے زیادہ ہے۔ ویسے بھی امرتسر لاہور سے کون سا اتنا دور ہے۔ ہمیں ایک پرانے بریگیڈیئر امان اللہ جو اب یقیناً نوے سال سے اوپر ہوں گے، نے ایک مرتبہ بتایا تھا کہ وہ لاہور سائیکلوں پر امرتسر سے فلم دیکھنے آیا کرتے تھے اور انہیں لاہور کی ہر چیز پسند تھی۔

پرانے لاہوریے جانتے ہیں کہ لاہور کینٹ سے ذرا آگے جاتے تھے تو دیہی علاقے شروع ہو جاتے تھے۔ لاہور کے بعض علاقے موہلنوال، بھیگوال، ڈھلنوال، ہنجروال، بھیکے وال، چڑے پنڈ، مانا والہ، بھٹہ چوک یہ سب دیہات تھے۔ لاہور کی یہ خوبی تھی کہ ایک طرف تو یہاں پر ماڈل ٹائون، گلبرگ اور سمن آباد جیسی جدید بستیاں تھیں تو دوسری طرف روایتی لاہور شہر، جو بارہ دروازوں اور تیرہویں موری دروازے کے اندر قدیم روایات کو زندہ رکھے ہوئے ہے جہاں نسل در نسل آباد لوگ رہتے تھے۔ جو ان دروازوں سے باہر کی زندگی کو رشک سے دیکھتے تھے اور ہر وقت اس فکر میں رہتے تھے کہ کسی نہ کسی طرح گلبرگ اور ماڈل ٹائون میں جا بسیں۔ کچھ علاقہ ان بستیوں سے ہٹ کر بھی تھا۔ ڈیوس روڈ، ایمپریس روڈ، بیڈن روڈ، انارکلی (نئی اور پرانی) ریٹی گن روڈ، ٹیپ روڈ، سنت نگر، کرشن نگر، رام گلیاں (جہاں کبھی نواز شریف کے بڑے رہائش پذیر تھے) گڑھی شاہو، باغبانپورہ، مزنگ، اچھرہ، دیو سماج روڈ، آئوٹ فال روڈ کچھ اور علاقے بھی جہاں روایتی لوگ رہتے تھے۔ سو لاہور جدید اور قدیم کا ایک حسین امتزاج تھا جو اب کہیں کھو گیا ہے۔ وہ تاریخی اکھاڑے، وہ منٹو پارک میں کسرت کرنے والے پہلوان، ان اکھاڑوں کی مٹی میں کہیں دفن ہو گئے۔ وہ تاریخی موہنی روڈ جہاں رستم زماں بھولو پہلوان، اکی پہلوان اور گاما پہلوان کے اکھاڑے ہوتے تھے، سب کچھ زمانے کی گردش کی نذر ہو گئے، صرف ایک قدیم زری فیکٹری رہ گئی ہے جہاں آج بھی کام ہوتا ہے۔ یہاں کے تاریخی تعلیمی ادارے بھی روایات کو زندہ نہ رکھ سکے وہ اساتذہ بھی نہ رہے جو ان روایات کے امین تھے۔ وہ کوشش کے باوجود اپنی اعلیٰ روایات کو آگے منتقل نہ کر سکے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے ان پرانے اساتذہ کا ریٹائرمنٹ کے بعد ان تاریخی تعلیمی اداروں سے تعلق ختم ہو گیا۔ نئے آنے والے اساتذہ نے پرانے اساتذہ کے تجربے، علم اور سینہ گزٹ سے کچھ نہ سیکھا بلکہ ان کو بھلا دیا۔

ان قدیم روایات کے امین اساتذہ کو ان کے تعلیمی اداروں کے قریب نہ آنے دیا۔ گورنمنٹ کالج لاہور (اب یونیورسٹی) کے نامور پرنسپل مرحوم ڈاکٹر نذیر احمد کہا کرتے تھے ’’جب گورنمنٹ کالج لاہور کا لڑکا سڑک پر آئے تو لوگ خود کہیں کہ یہ جی سی کا طالبعلم ہے، اس کے چلنے کا انداز، بات چیت کرنے کا طریقہ، اس کا لباس ہر پہلو سے پتا چلے کہ وہ جی سی کا ہے۔ آج کیا وہ جی سی زندہ ہے؟ کیا آج وہ گورنمنٹ سینٹرل ماڈل اسکول لوئر مال زندہ ہے؟ کیا آج وہ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ زندہ ہے؟ کس کس ادارے کا نام لکھوں اور کس کس کو یاد کروں؟ وہ لاہور ہی کھو گیا تو پھر وہ تاریخی ادارے کیونکر اپنی روایات کے ساتھ زندہ رہتے؟

وہ شہر کی ٹھنڈی سڑکیں اب لوگوں کے دماغوں کی طرح گرم ہو چکی ہیں، وہ تاریخی مال روڈ اپنا حسن کب سے لٹا چکی ہے۔ وہ ہال روڈ جہاں کبھی شرفا آکر فلپس، پائی کے ریڈیو گرام، گرامو فون ریکارڈ، ریکارڈ چینجر اور ریڈیو خریدا کرتے تھے، وہ کب کے اس جہاں سے کوچ کر چکے۔ مال روڈ کے دو تاریخی ریستوران جو ایک ہی نام سے تھے، جہاں پر کبھی شہر کے پڑھے لکھے لوگ شام کو چکن سینڈوچ اور پیسٹری کے ساتھ چائے پر علمی و ادبی گفتگو کیا کرتے تھے، جہاں کبھی ذوالفقار علی بھٹو بھی آکر بیٹھا کرتے تھے، وہ سب تاریخی ریستوران کب کے برباد ہو چکے۔ وہ ادیبوں کا پاک ٹی ہائوس بھی نہیں رہا۔ اب مقبرہ ایاز کے باہر ملنے والی کشمیری چائے میں وہ مزہ رہا، نہ بھاٹی گیٹ کے اندر بھا کالے کا وہ دودھ دہی رہا۔ لاہور کے تاریخی سینما گھروں میں اب صرف دو تین رہ گئے ہیں، باقی سب ختم ہو گئے۔ کئی تاریخی فلم اسٹوڈیو بھی تباہ و برباد ہو گئے۔ وہ خوبصورت لاہور جس کی شامیں ٹھنڈی اور پُرسکون ہوا کرتی تھیں، آج گرد وغبار، گرمی، اسموگ، دھند اور بو سے بھری پڑی ہیں۔ آج یہ شہر کچرستان کا منظر پیش کر رہا ہے، جگہ جگہ کچرا پڑا ہے۔ کبھی اس شہر کی سڑکوں نے گھوڑوں کی ٹاپوں کی آوازیں سنی تھیں۔ تانگے پر لالٹین، سائیکل پر بتی، سائیکل پر دو سواری، ون وے اور بتی نہ ہونے پر چالان ہوا کرتا تھا، تانگے میں پائوں والی گھنٹی لازمی ہوتی تھی۔ بس، لاری اور سڑک پر ربڑ کا روایتی ہارن جس کو ہاتھ سے دبانے سے آواز آتی تھی، لازمی ہوا کرتا تھا، شہر کے کئی مقامات پر گھوڑوں کو پانی پلانے کے تالاب ہوتے تھے جو آج قبضہ مافیا کی نذر ہو چکے ہیں۔

یہ شہر اب اور لوگوں کا ہے جن کو اس شہر کی کسی روایت کا پتا نہیں۔ اس شہر کے لوگ پتنگ بازی کرتے تھے۔ مجال ہے کہ کسی کا گلا کٹ جائے، مجال ہے کسی کی موت واقع ہو جائے۔ اس شہر کو برباد کرنے میں ہر کسی نے حصہ ڈالا۔ باتیں تو بہت ہیں مگر جگہ کی قلت ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ لوگ دریائے راوی پر ہر اتوار کو سیر کے لئے جایا کرتے تھے، فیملیز جاتی تھیں، کشتی رانی کی جاتی تھی۔ لوگ کامران کی بارہ دری کی سیر کیا کرتے تھے، آج یہ سب کچھ ختم ہو گیا۔ راوی گندا نالا بن گیا اور لاہور کی خوبصورت روایات دم توڑ گئیں۔

تازہ ترین