• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نے گزشتہ برس 24اکتوبر کو اپنے کالم بعنوان ہر طرف آگ ہی آگ میں تحریر کیا تھا کہ تاریخی طور پر مڈل ایسٹ کا خطہ عرصہ دراز سے جنگ کی آگ میں جل رہا ہے۔عرب اسرائیل تصادم، ایران اور عراق کے درمیان طویل جنگ ، اس کے بعد عراق کا کویت پر حملہ ، پہلی گلف وار کی تباہ کاریاں ،امریکہ کا عراق پر قبضہ ، داعش کا عروج و زوال، یمن میںحوثی باغیوں کی یلغاراور کردوں کے معاملے پر ترکی کا شام سے تصادم ، یہ سب واقعات ثابت کرتے ہیں کہ مڈل ایسٹ کا معاملہ روز بروز بہت گمبھیر اور پیچیدہ ہوتا جارہا ہے۔اس سے پہلے جب سعودی عرب میں تیل بردار آئل ٹینکرز پر حملہ ہوا تھا اور اس کا الزام ایران پرلگایا گیا تھا تو میں نے تبصرہ کیا تھا کہ مڈل ایسٹ ایک ایسی کھائی میں گرتا جا رہا ہے جس سے نکلنا کوئی آسان کام نہیں ۔ میرے خدشات کو امریکہ نے عراق میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو ڈرون حملے میں نشانہ بناکر صحیح ثابت کردیا ہے، یہ ایک ایسا خطرناک اقدام ہے جس نے تیسری عالمی جنگ کے امکانات میںبے تحاشا اضافہ کردیا ہے، دوسری طرف ایرانی قیادت نے اپنے ردعمل میں واضح الفاظ میں امریکہ سے انتقام لینے کا اعلان کردیا ۔ایک ایسے وقت جب آنجہانی جنرل قاسم سلیمانی کے سفر آخرت کو یادگار بنانے کیلئے ایرانی قوم کا سمندر سڑکوں پر امنڈ آیا ہے اورپورےایران میں مرگ بر امریکہ کے نعرے گونج رہے ہیں، مڈل ایسٹ سے موصول تازہ اطلاعات کے مطابق ایران نے عراق میںواقع امریکی فوجی اڈوں پر میزائل داغ دیئے ہیں،میڈیا رپورٹس کے مطابق ایران نے امریکہ کے تمام اتحادی ہمسایہ ممالک کو بھی خبردار کیا ہے کہ ایران کے خلاف جارحانہ کاروائیاں کرنے والے کسی بھی ملک کو نشانہ بنایا جائے گا۔ عالمی سطح پر رائے عامہ کا جائزہ لیا جائے تو عوام کی بڑی تعداد امریکہ کی جارحانہ پالیسیوں سے نالاں ہے، اس وقت مختلف امریکہ مخالف قوتوں کی دلی خواہش ہے کہ کسی طرح امریکی مفادات کوکاری ضرب لگائی جائے۔خود امریکیوں کو سوفیصدی یقین تھا کہ ایران بدلہ ضرور لے گا لیکن ایران بدلہ کیسے لے گا، کب لے گا اور کس وقت لے گا؟مجھ سے یہ سوالات مختلف ٹی وی ٹاک شوز میں پوچھے گئے تو میں نے کہا تھا کہ ایران کیلئے امریکہ کو براہ راست نشانہ بنانا ممکن نہیں ، تاہم ایران ہمسایہ عرب ممالک میںواقع امریکی فوجی تنصیبات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرسکتاہے یا پھر کچھ غیرریاستی عناصرکی مدد سے پراکسی وار میں تیزی لاسکتا ہے ۔میں سمجھتا ہوں کہ اگر ایران جوابی کارروائی کیلئے مزید کوئی اور انتہائی اقدام اٹھاتا ہے تو خدانخواستہ نہ صرف پورا مڈل ایسٹ بارود کی مانند بھسم ہوسکتا ہے بلکہ دنیا بھر میں تیل اور توانائی کا شدید بحران بھی پیدا ہوسکتا ہے اور اگر امریکہ نے ایرانی اقدام کو جواز بناتے ہوئے ایران پر حملہ کردیا تو موجودہ صدی کی ہولناک عالمی جنگ چھڑسکتی ہے ۔ اس وقت جنگ کے امنڈتے بادلوں نے پڑوسی ممالک کی نیندیں اڑا دی ہیں، حقیقتاً خطے کے لاکھوں کروڑوں عوام سہمے ہوئے ہیں، وہ نہیں جانتے کہ عالمی قوتوں کا یہ بھیانک کھیل مزیدکتنا خون بہائے گا۔بطور محب وطن پاکستانی میرے لئے یہ امر نہایت اہم ہے کہ اپنے پیارے وطن پاکستان کوخطے کی بگڑتی صورتحال سے کیسے محفوظ رکھا جائے، پاکستان کا مشرقی اور مغربی بارڈرتناؤ کا شکار ہے، اوراب اگر ایران کے بارڈر کے پار جنگ چھڑتی ہے تو جنگ کے شعلوں کو پاکستان تک پہنچنے سے کیسے روکا جائے؟ حالیہ ایران امریکہ تصادم نے انیس برس قبل سانحہ نائن الیون کی یادیںبھی تازہ کردی ہیں جب پاکستان کو ایسی ہی نازک صورتحال کا سامنا تھا،اس وقت بھی امریکہ کی نظر میں پاکستان کا اہم کردار تھا اور آج بھی امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیونے پاکستانی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو براہ راست ٹیلی فون کال کرکے علاقائی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح تمام سیاسی جماعتوں نے آرمی ترمیمی ایکٹ کی منظوری کیلئے یکجہتی کا مظاہرہ کیا ہے ، اسی طرح ہمیں امریکہ ایران تصادم کو پارلیمان میں زیربحث لانا چاہئے کہ پاکستان کسی صورت دوسرے کی جنگ اپنی سرزمین پر نہیں لائے گا،بطور پاکستانی ہم سب کا اتفاق ہونا چاہئے کہ پاک سرزمین کو کبھی کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں کیا جائے گا۔ہمیں سفارتی سطح پر ایران امریکہ کے مابین جنگ بندی ، امن عمل اور پُل کا کردار ادا کرنے کی لاحاصل خواہشات کی بجائے سمجھداری اور افہام و تفہیم سے کام لینا چاہئے، ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ ہمارا حالیہ تصادم میں متحرک ہونا نہ صرف کسی دوسرے ملک کی ناراضگی کا باعث بن سکتا ہے بلکہ ہمارے اپنے وطن میں مشکلات کا سبب بن سکتا ہے۔ ایران کی صدیوں پرانی تاریخ گواہ ہے کہ ایرانی قوم زمانہ قدیم سے آزاد اور خودمختار رہی ہے،آج بھی ایرانی غیور قوم اپنے جنرل کا انتقام لینے کو بے قرار ہے لیکن حالات کا تقاضا ہے کہ فی الحال صبر و تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کیا جائے، ایران کو جلدبازی میں کوئی ایسا اقدام نہیں اٹھانا چاہیے جس سے عالمی امن خطرے میں پڑ جائے، یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ایک غلط فیصلہ تباہی کی طرف لے جاتا ہے جبکہ سمجھداری سے کام لینے والے تمام بحرنوںپر قابو پاکرتاریخ میں اپنا نام سنہری حروف سے لکھوالیتے ہیں۔ آج امریکہ کو سابق سپرپاور سویت یونین سے سبق حاصل کرنا چاہئے کہ کیسے افغانستان کے خلاف فوجی جارحیت کے غلط فیصلے نے آخرکار سویت یونین کی عظیم الشان سلطنت کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا،موجودہ حالات میں امریکی کانگریس کی جانب سے صدر ٹرمپ کے جنگی اختیارات کو محدودکرنے کا عندیہ گھپ اندھیرے میں امید کی کرن کے مترادف ہے، امید کی جانی چاہئے کہ امن پسند امریکی ممکنہ تیسری عالمی جنگ سے بچنے کیلئے ا پنے صدر کے جنگی عزائم کے آگے بند باندھنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین