• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے کئی قلمکار دوست آج کل ایران امریکہ جنگ کروانے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ کچھ تیسری جنگِ عظیم کے متمنی ہیں اور کچھ قیامت کی پیش گوئی کر رہے ہیں لیکن میرا ارادہ فی الحال جنگ کروانے کا نہیں۔

میرا خیال ہے کہ دونوں پارٹیاں سمجھ دار ہیں اور جنگ کی تباہ کاریوں سے اچھی طرح آگاہ ہیں اس لیے تند و تیز بیانات اور میزائلوں کے تبادلے کے بعد معاملہ وقت کے ساتھ ٹھنڈا پڑ جائے گا۔

بہت سے قارئین کی مانند میں بھی اخبارات پڑھنے کا عادی ہوں۔ اخبارات پڑھنے کی لت یا عادت کا ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ انسان بڑھکوں اور بلند بانگ دعوئوں سے لطف اندوز ہونے کا عادی ہو جاتا ہے۔

میرے کہنے کی ضرورت نہیں، اگر آپ اخبارات پڑھتے ہیں تو آپ کو اچھی طرح اندازہ ہوگا کہ ہر روز اخبار بلند بانگ دعوئوں اور رنگین وعدوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ حکمران ہوں یا حزبِ مخالف کے درجن بھر لیڈران، اُن میں بیانات کی آتش بازی کا مقابلہ جاری رہتا ہے۔

چنانچہ قاری لاشعوری طور پر اُن کا عادی ہو جاتا ہے۔ اس لیے جب یہ بیانات اور بھڑکیلے اعلانات مدھم ہو جائیں تو قاری انہیں مِس کرنا شروع کر دیتا ہے اور دل ہی دل میں یہ خواہش جنم لینے لگتی ہے کہ اے کاش پھر یہ سلسلہ شروع ہو۔ گزشتہ چند دنوں سے ہمارا سیاسی ماحول بدلا بدلا نظر آتا ہے۔

اس تبدیلی کا نقطہ عروج تو ساری بڑی پارٹیوں کا اتفاق تھا جس کے بطن سے فوجی سربراہوں کی میعاد کے قانون نے جنم لیا۔ اس لیے آپ اسے حُسنِ اتفاق بھی کہہ سکتے ہیں۔ بلاشبہ یہ اتفاق قوم کے لیے باعث ِبرکت ہے لیکن اِس سے مجھ جیسے قارئین کا ایک نقصان ہو گیا ہے جس کا احساس مجھے ہر صبح اخبار پڑھتے ہوئے ہوتا ہے۔

میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ یہ صورتحال اور ٹھنڈا ماحول چند دنوں کا مہمان ہے اور توقع ہے کہ چند دنوں بعد پھر سے ’’فائر ورک‘‘ شروع ہو جائے گا لیکن آج کل اس ٹھنڈے ماحول نے مجھے بہت بدمزہ کر رکھا ہے۔

کتنے ہی دن گزر گئے ہیں کہ آنکھیں یہ بیان پڑھنے اور کان اِن الفاظ کو سننے کو ترس گئے ہیں۔ بھلا وہ کون سا بیان ہے جسے مجھ جیسے قاری ڈیڑھ سال سے سننے اور اخبارات میں پڑھنے کے اس قدر عادی ہو چکے تھے کہ اب اِسے بری طرح ’’مِس‘‘ کرتے ہیں۔

وہ تھا ’’چوروں کو نہیں چھوڑوں گا، این آر او نہیں دوں گا‘‘ جب سے ملکی سیاست کے افق پر کچھ تبدیلیاں آئی ہیں اور کچھ نشانے (ٹارگٹ) نگاہوں سے اوجھل ہوئے ہیں ہم اس بیان کو پڑھنے کے لیے ترس گئے ہیں۔

اگرچہ امریکی اور ایرانی حکمرانوں نے خاصے ’’آتشیں‘‘ بیانات شروع کر رکھے ہیں لیکن یہ اُن بیانات کا نعم البدل نہیں جن کی افیون ہمارے منہ کو لگ چکی ہے۔

چند روز قبل ایک بزرگانہ مجلس میں اسی صورتحال پر تبصرے ہو رہے تھے تو ایک کم گو مگر دور بین بزرگ نے یہ محاورہ سنا کر سب کو خاموش کرا دیا کہ جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں۔ حالانکہ سچ یہ ہے کہ بادل کا کیا بھروسہ، کب گرجنا شروع کر دے اور کب برسنا۔

اس خوفناک خاموشی سے مجھے ایک اور خطرہ بھی لاحق ہو گیا ہے۔ وہ یہ کہ حکمرانوں اور اقتدار کے رقیبوں میں دنگل جاری رہنا میڈیا کے لیے نیک فال ہوتا ہے۔

میں گزشتہ کئی دہائیوں سے جز وقتی صحافت سے منسلک ہوں اور میرے تجربات و مشاہدات کا نچوڑ بتاتا ہے کہ جب تک حکمران اور حزبِ مخالف آپس میں مصروف رہتے ہیں، دوسرے ادارے ’’شامت‘‘ سے محفوظ رہتے ہیں۔

جب اُن کی آپس میں صلح ہو جائے یا کسی وجہ سے فائر بندی ہو جائے تو اقتدار اُدھر سے فرصت پاکر میڈیا کو کنٹرول کرنے کی مہم میں کود پڑتا ہے۔ جنرل ضیاء الحق اسے میڈیا کا قبلہ درست کرنا کہتے تھے۔

وہ چونکہ خود بھی جہادی مزاج رکھتے تھے چنانچہ میڈیا کا قبلہ درست کرنے کو بھی جہاد کا حصہ بنا لیتے تھے اور آہنی گرفت سے گلا گھونٹنے میں عار محسوس نہیں کرتے تھے۔ پرویز مشرف کا دور روشن خیالی کا دور تھا چنانچہ اس کا فائدہ میڈیا کو بھی پہنچا۔

خود پرویز مشرف آزاد میڈیا کے حامی تھے اور ان کے دور میں بہت سے ٹی وی چینلز کو کاروبار کی اجازت ملی لیکن ان کے حواری اور بادشاہ سے زیادہ وفادار درباری اکثر میڈیا کو دبائو کا شکار رکھتے تھے۔

تفصیلات سے گریز کرتے ہوئے اپنے بارے میں صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں جب بھی مشرفی حکومت پر تنقیدی کالم لکھتا تھا تو اکثر فون پر گالیوں سے تواضع کی جاتی تھی۔ فرضی ناموں سے ای میلز بھی دھمکیوں اور خوفناک نتائج کی خبریں لے کر آتی تھیں۔ جنرل مشرف کے ایک جذباتی نوجوان حواری کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ بذاتِ خود فون کرتے ہیں اور دوسری طرف سے ہیلو کی آواز سنتے ہی گالیوں کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں۔

ایک بار میرے ساتھ بھی یہ حادثہ ہوا چنانچہ میں نے پرانے سرکاری اثر و رسوخ کا فائدہ اٹھاکر اس نمبر کی تحقیق کروائی تو وہ ایک گائوں کے ریڑھی فروش کا نمبر نکلا جس نے کبھی موبائل کی شکل بھی نہیں دیکھی تھی۔ مطلب یہ کہ اس ’’وارداتیے‘‘ نے کسی طرح اس کے شناختی کارڈ کی کاپی حاصل کرکے اس پر سم لے لی تھی۔

یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ کسی اور کا ہی کارنامہ ہو۔ انہی دنوں یہ بات بھی مشہور تھی کہ باقاعدہ ایک سیل کام کر رہا ہے جس کا فریضہ مشرف کے مخالف میڈیا سے وابستہ حضرات کی طبیعت صاف کرنا ہے۔

البتہ جب جنرل مشرف اندرونی خلفشار کا شکار ہوئے اور ان کی توجہ اقتدار کے خطرات کی جانب مبذول ہو گئی تب میڈیا کو گالیاں وصول کرنے سے افاقہ نصیب ہوا۔ میرے اندر یہ خوف سا جاگزیں ہے کہ کچھ مشرفی حضرات آج کل موجودہ حکمرانوں کی خدمت پر مامور ہیں۔

کہیں ایسا نہ ہو کہ سیاسی محاذ ٹھنڈا پڑتے ہی وہ اپنی بندوقوں کا رخ میڈیا کی جانب موڑ دیں۔ پہلے تو یہ محض تصوراتی خوف تھا لیکن جب سے ایک بھاری بھرکم وزیر نے صحافیوں کا قبلہ درست کرنے کے لیے باری باری دو حضرات کے چہروں پر تھپڑ رسید کیے ہیں مجھے یہ خطرہ حقیقی لگنے لگا ہے۔

گویا بات گالیوں سے تھپڑوں تک آن پہنچی ہے، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ کہیں یہ میڈیا کی آزادی پر نازل ہونے والی آفت کا پیش خیمہ تو نہیں کیونکہ شنید ہے کہ کابینہ کے اکثر اراکین مارکٹائی کی اس فلم سے خوب محظوظ ہوئے۔

تازہ ترین