• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مقبوضہ کشمیر میں انٹرنیٹ کی بندش بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے

مقبوضہ کشمیر میں انٹرنیٹ کی بندش بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے


بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ کشمیر میں انٹرنیٹ کی بندش کو اظہار رائے کے بنیادی حق کی خلاف ورزی قرار دے دیا۔

بھارتی سپریم کورٹ مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے خلاف اپیلوں پر فیصلہ سنا رہی ہے۔

بھارتی سپریم کورٹ کے جسٹس این وی رمن، جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس سبھاش ریڈی پر مشتمل بنچ نے تمام فریقوں کے دلائل سننے کے بعد کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔

مقبوضہ کشمیر میں 5 اگست سے لگائی گئی پابندیوں کے خلاف ’کشمیر ٹائمز‘ کی ایڈیٹر انورادھا بھسین، کانگریس لیڈر غلام نبی آزاد اور دیگر افراد کی جانب سے درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔

غلام نبی آزاد کی جانب سے کیس میں پیش ہونے والے سینئر وکیل کپل سبل نے اپنی دلیل پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ دفعہ 144 میں قومی سلامتی کا ذکر نہیں ہے، آپ ایسا نہیں کہہ سکتے کہ قومی ہنگامی صورت حال ہے، حکومت کو اس کے لیے ثبوت دینا ہوگا۔

انہوں نے سوال کیا کہ نیشنل ایمرجنسی کا بھی عدالتی جائزہ لیا جا سکتا ہے، کیا حکومت اس حکم کو دکھا سکتی ہے، جس کے تحت اس نے دفعہ 144 کو ہٹایا ہے؟

وکیل کپل سبل نے کہا کہ حکومت کہہ رہی ہے کہ ہم نے اسکول کھولے ہوئے ہیں، لیکن کیا والدین اپنے بچوں کو ایسے حالات میں اسکول بھیج رہے ہیں؟

غلام نبی آزاد کے وکیل کا مزید کہنا تھا کہ کشمیر میں کاروبار، اسکول، زراعت اور سیاحت بری طرح متاثر ہے، ایسے میں عدالتِ عظمیٰ کو قومی سلامتی اور زندگی جینے کے حق میں موازنہ کرنا ہوگا۔

ان کے وکیل نے یہ بھی کہا تھا کہ ٹیکنالوجی کے سہارے اگر کوئی خرابی کر سکتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ آپ انٹرنیٹ سروس بند کر دیں۔

دوسری جانب کیس میں بھارتی حکومت کی جانب سے پیش جنرل تشار مہتہ نے اپنے دلائل پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ریاست میں امن کی بحالی کے لیے پابندیاں لگائی گئی ہیں۔

تازہ ترین