• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ خواہ مخواہ چھپانے کی کوشش کررہے ہیں۔ میں جانتا ہوں آپ بھی میری طرح نجومیوں کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں۔ آپ جاننا چاہتے ہیں کہ سال 2020ءآپ کیلئے کیسا گزرے گا، آپ کیا کھوئیں گے، کیا پائیں گے؟ املاک خریدنے اور بیچنے کیلئے یہ سال آپ کیلئے کیسا رہے گا؟ 

اس سال اسٹاک ایکسچینج میں سٹہ کھیلنا آپ کیلئے کہاں تک سودمند ثابت ہوگا؟ پہلی بیوی کے ہوتے ہوئے اگر آپ دوسری، تیسری اور چوتھی شادی رچانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو پھر لامحالہ آپ جاننا چاہیں گے کہ اس سال ایسا کرنے سے پہلی بیوی اور جوان بچوں کے ہاتھوں آپ کی درگت تو نہیں بنے گی؟ 

اپنے اعلیٰ افسران کی چاپلوسی اور چمچہ گیری کے عوض اس سال آپ کو out of turnترقی ملے گی؟ ہمارے معاشرے میں کئی والدین ایسے ہیں جو ایک بیٹے کی تمنا میں ہر سال ایک بیٹی کو جنم دیتے ہیں اور سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ایسے والدین جاننا چاہیں گے کہ سن 2020میں ان کے یہاں ایک عدد ولی عہد یعنی بیٹا پیدا ہوگا؟ 

جب سے چائے ایجاد ہوئی ہے، تب سے آپ چائے کے ڈبے پر مخفی نمبر اس امید پر کھرچتے ہیں کہ عمرے کیلئے قرعہ اندازی میں شاید آپ کا نمبر نکل آئے۔ آپ نجومیوں سے پوچھنا چاہیں گے کہ اس سال آپ کو مفت میں عمرے کی سعادت نصیب ہوگی؟ آپ کو جو سہانے سپنے دکھائے جارہے ہیں، کیا اس سال ان سہانے سپنوں کی تعبیر بھی سہانی ہوگی؟

اپنے مستقبل کے بارے میں جاننا آپ کا اور میرا بنیادی حق ہے مگر پرابلم یہ ہے کہ آپ اور میں اپنے مستقبل کے بارے میں جاننے کی صلاحیت نہیں رکھتے مگر ہمارے معاشرے میں ایسے باصلاحیت لوگ رہتے ہیں جو آپ کے اور میرے مستقبل کے بارے میں ہمیں کچاچٹھا دکھانے کا ہنر جانتے ہیں مگر وہ یہ کام مفت میں نہیں کرتے، اچھی خاصی فیس وصول کرتے ہیں۔ 

آپ کو ایک خوشخبری سنا دوں حالیہ ٹیکس رفارمز کے مطابق نجومیوں کو دی جانے والی فیس کے عوض آپ کو انکم ٹیکس میں مناسب چھوٹ دی جائے گی۔ اس سے سرکار کو دو مقاصد حاصل ہوں گے۔ ایک یہ کہ دس لاکھ بیروزگار نوجوان نجومی بن بیٹھیں گے اور روزگار سے لگ جائیں گے۔ 

دوسرے یہ کہ انکم ٹیکس میں چھوٹ کی بنا پر وہ بے دریغ نجومیوں سے رابطے میں رہیں گے اور دلفریب خوابوں کی تعبیروں کے قصے ان کی زبانی سنیں گے۔ بدنصیبوں کیلئے یہ کیا کم ہے کہ دلفریب خواب دیکھتے اور دلفریب خوابوں کی دلفریب تعبیریں سنتے ہوئے زندگی گزار دیں گے۔ اگر آپ کیک کھا نہیں سکتے تو کم سے کم کسی بیکری کے باہر شوکیس میں سجائے ہوئے کیک دیکھ تو سکتے ہیں!

وہ دن ہوا ہوئے جب نجومیوں سے رابطے میں رہنے کو معیوب سمجھا جاتا تھا، لوگ آپ کو ناخواندہ سمجھتے تھے، آپ کو وہمی سمجھتے تھے، آپ کو دقیانوسی سمجھتے تھے۔ تب بیچارے نجومی بھی خستہ حال دکھائی دیتے تھے، اپنے لباس اور حلیہ سے پھٹیچر لگتے تھے۔ 

ان کے پاس پالتو طوطے ہوتے تھے۔ چوری کھانے کے بعد طوطا آپ کی قسمت کا کارڈ تہہ سے نکال کر لے آتا تھا۔ کچھ نجومی آپ کے مستقبل میں جھانکنے کیلئے دوچار گوٹوں پر کچھ پھونک کر چوکور گتے پر چھوڑ دیتے تھے۔ آپ کا اعتماد حاصل کرنے کیلئے کچھ نجومی جیومیٹری کی اشکال بنا کر آپ کو متاثر کرتے تھے۔ 

آپ کو چکر دینے کیلئے کچھ نجومی آپ سے آپ کے والد اور والدہ کا نام پوچھ کر زائچہ بناتے تھے۔ آپ ان پر اعتبار کرتے تھے مگر آج کل ایسا نہیں ہوتا۔ بدلتے اطوار اور اقدار کے پیش نظر آج کل کے نجومی اسمارٹ دکھائی دیتے ہیں، جدید لباس میں ملبوس رہتے ہیں۔

آپ کو متاثر کرنے کیلئے اردو بولتے ہوئے بیچ میں انگریزی الفاظ اور محاورے استعمال کرتے ہیں۔ ایک چھوٹا سا لیپ ٹاپ ساتھ رکھتے ہیں۔ لگے ہاتھوں کچھ نجومی اپنا ایک اسسٹنٹ بھی رکھتے ہیں۔ نجومی صاحب سے ملنے کیلئے آپ کو ان کے اسسٹنٹ سے رابطہ کرنا پڑتا ہے۔ 

اسسٹنٹ صاحب ڈائری کھول کر آپ کو نجومی سے ملنے کیلئے ایک ڈیڑھ مہینہ دور کی تاریخ دیتا ہے۔ آپ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ آپ اندازہ لگا لیتے ہیں کہ نجومی صاحب کس قدر مصروف رہتے ہیں۔ اب نجومیوں سے رابطے میں رہنے کو معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ 

تقریباً تمام سیاستدان کسی نہ کسی نجومی سے رابطے میں رہتے ہیں خاص طور پر حکومت سے وابستہ سیاستدان! پھر وہ چاہے وزیر ہوں یا مشیر ہوں، نجومیوں سے صلاح مشورے کے بعد چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا فیصلہ کرتے ہیں۔ ایسے سیاستدان تعویذ، گنڈوں اور پیروں، فقیروں کے بھی معتقد ہوتے ہیں۔ 

بینظیر بھٹو پہلی وزیراعظم تھیں جو اسمبلی اجلاسوں میں تسبیح کے دانے پھراتی رہتی تھیں۔ سیکھنے سکھانے کے عمل سے وابستہ ماہرین حیران، پریشان ہیں کہ انسان ایک وقت میں یا تو ذکر کرسکتا ہے یا تقریر سن سکتا ہے۔ بینظیر کے بعد ہمارے عمران خان پاکستان کے دوسرے وزیراعظم ہیں جو اسمبلی کے علاوہ دوسرے ممالک کے سربراہان سے گفت و شنید کرتے ہوئے تسبیح کے دانے پھراتے رہتے ہیں۔ 

ایسے لوگ نیلے، پیلے، سبز اور سرخ نگینوں والی انگوٹھیاں پہنتے ہیں۔ ایسے لوگ پیر پرست بھی ہوتے ہیں۔ چھپ چھپا کر پیروں کے یہاں حاضری دیتے ہیں۔ ایسے سیاستدان مارگلہ میں کسی جگہ براجمان تنکا بابا کے یہاں دیکھے جاتے ہیں اور کبھی گجرات میں جلال پور جٹاں کے قریب پیر ٹانڈاں والا کی حاضری میں دکھائی دیتے ہیں۔

مجھے ایک نجومن نے مسکراتے ہوئے بتایا ہے کہ میرا سال 2020ءعین اسی طرح گزر جائیگا جس طرح میرے پچاسی برس گزر گئے ہیں۔ صبح ہوتی ہے، شام ہوتی ہے، عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے۔

تازہ ترین