• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لوگ حکومت سے تنگ،وزراءپبلک ڈیلنگ سےنابلد،جی ڈی اےرہنما

کراچی(جنگ نیوز)جیو نیوز کے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں میزبان حامد میر سے گفتگو کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے رہنما فیصل سبزواری نے کہا کہ حکومت کی کارکردگی بہتر کرنے کیلئے کابینہ سے نکل کر حکومت کو جھٹکا دیا ہے،وفاقی حکومت کی غیرسنجیدگی اور لاابالی پن سے خدشہ ہوتا ہے کہ کہیں نیت کا مسئلہ تو نہیں،کابینہ سے استعفے کا مطلب یہ نہیں کہ ایم کیو ایم حکومت کو گرانا چاہتی ہے۔جی ڈی اے کے رہنما غوث بخش مہر نے کہا کہوفاقی وزراء کو ابھی تک پبلک ڈیلنگ نہیں آئی لوگ انکی کارکردگی سے تنگ آگئے ہیں، ہلّے گلّے سے سیاست چلتی ہے حکومتیں نہیں،وزراء کو ایم این ایز کیساتھ بیٹھ کر بات کرنے میں کوفت ہوتی ہے۔لیاری سے منتخب ہونے والے تحریک انصاف کے ایم این اے عبدالشکور شاد نے کہا کہ حکومت سے کوئی اتحادی ناراض نہیں سب اسی تنخواہ پر کام کریں گے،کراچی کے ہی نہیں چند دوسرے وزیروں سے بھی گلہ ہے، یہ وزراء اپنے ایم این ایز سے ہاتھ ملانا بھی گوارا نہیں کرتے ہیں،اپوزیشن تحریک عدم اعتماد لائی تو اسکا وہی حشر ہو گا جو سینیٹ میں ہوا، اپوزیشن کے کئی لوگ حکومت کے ساتھ مل چکے ہیں۔ن لیگ کے رہنما خرم دستگیر نے کہا کہ 71سالوں میں ملک کا قرضہ تیس ہزار ارب تھا، پی ٹی آئی حکومت نے صرف پندرہ ماہ میں 11ہزار 610ارب کا قرضہ لیا ہے حکومت کی نااہلی اور نالائقی نے قوم کو پریشان کردیا ہے، حکومت کی خراب کارکردگی پر اتحادیوں نے اسے جھٹکے دینا شروع کیے ہیں، نواز شریف کی ایک تصویر کی بنیاد پر سیاسی تمسخر اڑانا درست نہیں۔فیصل سبزواری نے کہا کہ ایم کیو ایم کو ہی نہیں دیگر اتحادیوں اور حکومتی ارکان کو بھی حکومت سے شکایات ہیں، حکومت ہم سے کیے گئے وعدوں پر عمل نہیں کررہی ہے، ہمارے ووٹرز کا دباؤ ہے کہ حکومت سے جواب طلب کیا جائے، تحریک انصاف کی طرف سے بسا اوقات غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کیا جاتا رہا، کابینہ سے استعفے کا مطلب یہ نہیں کہ ایم کیو ایم حکومت کو گرانا چاہتی ہے، ایم کیو ایم چاہتی ہے کہ حکومت سنجیدگی سے مسائل کے حل کیلئے سوچے، حکومت کی کارکردگی بہتر کرنے کیلئے کابینہ سے نکل کر حکومت کو ایک جھٹکا دیا ہے۔ فیصل سبزواری کا کہنا تھا کہ خالد مقبول صدیقی کو کل اسلام آباد آنا تھا لیکن وہ نہیں آئیں گے، اس ملک کا عجیب قضیہ ہے کہ 23فیصد مجموعی قومی پیداوار رکھنے والے زراعت کے شعبہ سے ایک فیصد سے بھی کم ٹیکس آتا ہے، سندھ نے زرعی ٹیکس 52کروڑ روپے اکٹھا کیا جبکہ صرف کراچی سے جنرل سیلز ٹیکس اور سروس 156روپے اکٹھا ہوا ہے، آرمی چیف کی توسیع کیلئے تمام جماعتیں غیرمشروط حمایت کرسکتی ہیں تو جن سیکٹرز سے ٹیکس نہیں آتا ان سے ٹیکس لینے اور معیشت کو بحران سے نکالنے کیوں نہیں ساتھ بیٹھتیں۔فیصل سبزواری نے کہا ہے کہ کراچی میں کچھ سڑکیں بن رہی ہیں جو شاہد خاقان عباسی کے دور میں شروع ہوئی تھیں، حکومت نے کراچی کیلئے کوئی نئی اسکیم نہیں دی ہے، ابتر انفرااسٹرکچر کے باوجود کراچی سے ایکسپورٹ کا 55فیصد جارہا ہے۔
تازہ ترین