چند دن قبل برطانیہ کے موقر جریدے دی انڈیپنڈنٹ میں شائع ہونے والا ایک آرٹیکل میری نظر سے گزرا، تحریر کا عنوان جتنا حیران کُن تھامواد اتنا ہی جاندار تھا۔میں جیسے جیسے پڑھتا گیا، صاف و سادہ زبان میں حال ِدل کا مشاہدہ کرتی یہ تحریر مجھے اپنے سحر میں جکڑتی گئی ۔ برطانوی جریدے کے اردو ورژن میں پاکستانی صحافی اے وسیم خٹک کے شائع کردہ آرٹیکل بعنوان ’’کاش ہمارے گاؤں میں پھر سے ہندو آجائیں‘‘نے میری عدالتی جدوجہد کے حوالے سے یادیں بھی تازہ کردیں جب میں نے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع کرک کے تاریخی قصبے ٹیری میں واقع شری پرم ہنس جی مہاراج کی سمادھی کا احترام یقینی بنانے کیلئے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکایا تھا، آنجہانی مہاراج ایک ایسی انسان دوست شخصیت تھے جن کے آشرم پرقیام پاکستان تک ُدکھی انسانوں کا ہمیشہ رش رہتا تھا۔اس تحریر نے یقینی طور پرمجھ جیسے بے شمار انسانی و اقلیتی حقوق کیلئے سرگرم کارکنوں کا حوصلہ بلند کیا ہے جو اپنی پرامن جدوجہد کا محور بانی پاکستان قائداعظم کے وژن کو سمجھتے ہیں، جو دل و جاں سے اس امر کے قائل ہیں کہ قیام پاکستان کے بنیادی اغراض و مقاصد میں برصغیر کی اقلیتی مسلمان کمیونٹی کو اکثریت کے استحصال سے محفوظ رکھتے ہوئے ایک ایسا مثالی رول ماڈل دنیا کے سامنے پیش کرنا تھا جہاں تمام باشندے اکثریت و اقلیت کی تفریق سے بالاتر ہوکر ملکی ترقی و خوشحالی میں اپنا حصہ ڈالیں، قائداعظم کی یقین دہانی پر پاکستان بھر میں بسنے والے بے شمار ہندو گھرانوں نے ہجرت کا ارادہ ترک کرکے پاک سرزمین کو اپنی دھرتی ماتا بنالیاتھا، قیامِ پاکستان سے لے کر تاحال محب وطن پاکستانی ہندو کمیونٹی کی ملک و قوم کی خوشحالی و سربلندی کیلئے ہر شعبہ زندگی میں بیش بہا کاوشیں ہیں۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان اور بھارت کے اولین وزرائے اعظم لیاقت علی خان اور جواہر لال نہرو کے مابین لیاقت نہرو اکارڈمیں دونوں اطراف سے اپنے اپنے ملک میں بسنے والی اقلیتی کمیونٹی کے حقوق کے تحفظ کے عزم کا اعادہ کیا گیا تھا، یہ برصغیر کی تاریخ کا وہ ناقابل فراموش دور تھا جب غیرملکی سامراج کی نفرت انگیز پالیسیوں کی بناء پرہزاروں سال ایک ساتھ امن و آشتی سے زندگی گزارنے والے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے تھے۔ انگریز تو نوے برس حکومت کرنے کے بعد چلا گیا لیکن اپنے پیچھے ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘کاایسا مہلک فارمولا چھوڑ گیا جس کی وجہ سے آج بھی دونوں ممالک میں بسنے والی اقلیتی کمیونٹی احساسِ عدم تحفظ کا شکار نظر آتی ہیں۔لیاقت نہرو اکارڈ کے موقع پر دونوں ممالک کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے اتفاق کیا گیا تھا کہ بھارت میں موجود مسلمانوں کے مقدس مقامات کی ذمہ داری بھارتی مسلمان شہری جبکہ پاکستان میں موجود غیرمسلموں کے مذہبی مقامات کی حفاظت کویقینی بنانے کیلئے مقامی پاکستانی ہندو شہری کو حکومتی سطح پر فائز کیا جائے گا۔ افسوس کا مقام ہے کہ بھارت میں تو ہمیشہ مقامی مسلمان وزیر یہ اہم ذمہ داری نبھاتا آرہا ہے، اسرائیل تک میں مسلمانوں کے وقف مقامات کی نگہبانی مقامی مسلمان شہری کے حوالے ہے لیکن پاکستان میں روز اول سے محب وطن ہندو کمیونٹی کومکمل نظرانداز کیاجارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قومی متروکہ وقف املاک ادارہ نہ صرف غیرمسلموں کے مذہبی مقامات کی حفاظت سے قاصر ہے، پاکستان ہندوکونسل کے ایک محتاط اندازے کے مطابق لگ بھگ اٹھارہ سو مندروں اور گوردواروں میں سے صرف پچاس فعال ہیں جبکہ باقی ساڑھے سترہ سومقامات زبوں حالی کا شکار ہیں یا ان پر ناجائز قبضہ برقرار ہے۔ انہی عوامل کی بناء پرمیں مسلسل یہ مطالبہ کرتا آرہاہوں کہ قومی متروکہ وقف املاک بورڈ کی سربراہی اصولی بنیادوں پرکسی قابل ہندو شہری کو سونپی جائے ، میں جب بھی یہ بات کرتا ہوں تو مجھے کہاجاتا ہے کہ مندروں کے آس پاس ہندوؤں کی آبادی بہت کم ہے، جب یہاں ہندو رہتا ہی نہیں تو پھر مندر گوردوارے کھولنے کا کیا فائدہ؟ وغیرہ وغیرہ۔برطانوی جریدے میں شائع کردہ اپنی تحریر میں صحافی اے وسیم خٹک نے اس بیانیہ کواس طرح رد کردیا ہے کہ ’’ضلع کرک کے قصبے ٹیری میں مندر کی تعمیر کے بعد امید ہو چلی ہے کہ شاید اب علاقے کی ترقی کا باب کھل جائے کیونکہ ہمارے حکمرانوں نے تو کچھ نہیں کیا، البتہ ممکن ہے ہندو زائرین کے آنے سے علاقے کو کچھ فائدہ ہو جائے‘‘۔پاکستا ن ہندوکونسل کے توسط سے میں بھی یہ یقین دہانی کرانا چاہتا ہوں کہ شری پرم ہنس جی مہاراج کے ماننے والے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں اور پاکستانی ہندوکمیونٹی ٹیری کی ترقی و خوشحالی کیلئے دعاگو ہے۔ دنیا کا ہر مذہب دوسرے مذاہب کے مقدس مقامات کا احترام سکھلاتا ہے، خدا کے ماننے والوں کیلئے آسانیاں پیدا کرنے والوں پر خدا کی رحمت برستی ہے۔ برصغیر کی ہزار سالہ تاریخ گواہ ہے کہ جب تک تمام مقدس مقامات کا احترام یقینی بنایا جاتا رہا، برصغیر ترقی و خوشحالی کے سفر میں سب سے آگے رہا۔ آج بھی دنیا میں وہ ممالک خوشحال اور ترقی یافتہ ہیں جہاں کسی قسم کی مذہبی تفریق کرنے کی روایت نہیںاوروہاں کی حکومتی پالیسیاں سب شہریوں کیلئے یکساں ہیں۔ آج مجھے اپنی انتھک جدوجہد رنگ لاتی محسوس ہورہی ہے کہ صرف چند برس قبل تک ٹیری مندر کی بحالی ایک خواب تھا جو تیزی سے حقیقت میں بدل گیا ہے اور سب سے اہم یہ کہ مقامی آبادی بھی اس کا خیرمقدم کررہی ہے، میری نظر میں یہ سلسلہ رکنا نہیں چاہئے بلکہ مرحلہ وار تمام مقدس مقامات بشمول ہنگلاج ماتا مندر بلوچستان اور پرہ لادپوری مندر ملتان کو فعال کرنے کا راستہ ہموار ہونا چاہئے۔ یہ مقامات نہ صرف ہمارے پیارے وطن کے حوالے سے مذہبی ہم آہنگی، ثقافتی ورثے اور انسان دوستی کا پیغام اجاگر کرنے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں بلکہ مذہبی سیاحت کے فروغ کی بدولت ملکی معیشت کے استحکام میں بھی کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)