• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آزاد جموں و کشمیر کے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر بےلاگ خیالات کا اظہار کرنے اور متنازع معاملات پر کھل کر رائے دینے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ اگر یوں کہیں کہ یہ اُن کی شخصیت کی پہچان بن گئی ہے تو بےجا نہ ہوگا۔

اپنے اِس انداز کی وجہ سے انہیں اکثر غیر ضروری مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے مگر مجال ہے کہ راجہ صاحب نے کبھی اپنا طرزِ تخاطب بدلنے کا سوچا ہو۔

گزشتہ ہفتے آپ نے 1990کے اوائل میں وادیٔ کشمیر سے بھاگ کر آنے والے مہاجرین کے ایک گروپ سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان سے مطالبہ کیا کہ وہ کشمیر کی صورتحال پر تمام کشمیری جماعتوں کا فوری اجلاس بلاکر آئندہ کے لئے ایک مؤثر حکمت ِ عملی ترتیب دیں۔

اپنے خطاب میں اُنہوں نے اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ کشمیر کے حوالے سے حکومت پاکستان کی اب تک کی کارکردگی غیر تسلی بخش ہے۔ پچھلے چند مہینوں سے اس قسم کے خیالات کا اظہار آرپار اکثر کشمیری عوام و خواص سے بھی کرتے آرہے ہیں کیونکہ پانچ ماہ سے زائد عرصے سے وادیٔ کشمیر پابندیوں کے نرغے میں ہے مگر دنیا ٹس سے مس ہوتی نظر نہیں آتی جس کی وجہ سے لوگوں میں مایوسی پیدا ہونا ایک فطری امر ہے۔

گزشتہ سال 5اگست کو بھارتی حکومت کی جانب سے ریاست جموں وکشمیر کی خصوصی آئینی اور جداگانہ شناخت کی تنسیخ کے بعد ابھرنے والے حالات سے پیدا ہونے والی مشکل صورتحال کے بعد راجہ فاروق حیدر بار بار کشمیریوں کو درپیش سنگین حالات کی جانب توجہ مبذول کرانے کی کوششیں کرتے نظر آئے ہیں۔

گزشتہ مہینے میں نے اسلام آباد اور مظفر آباد میں انہیں خطاب کرتے ہوئے سنا جہاں انہوں نے نہایت دلدوز انداز میں کشمیر اور کشمیریوں کا کرب بیان کرنے کی کوشش کی جس سے سب حاضرین آزردہ ہوگئے۔ راجہ فاروق اگرچہ آزاد کشمیر میں پیدا ہوئے مگر آپ کشمیری زبان بولتے اور سمجھتے ہیں کیونکہ آپ کے والدین سرینگر سے تعلق رکھتے ہیں۔

1947ء میں پیدا شدہ حالات کی وجہ سے ریاستِ جموںو کشمیر دو ملکوں میں بٹ گئی تو آپ کی والدہ اپنی ایک دختر سمیت سرینگر میں پھنس گئیں۔

دو سال بعد وہ اپنے خاوند کے دوست بخشی غلام محمّد جو بعد میں بھارتی لیڈر جواہر لعل نہرو سے قربت کی وجہ سے ریاست کے وزیراعظم بنائے گئے کی مدد سے دہلی سے لاہور اور پھر مظفرآباد پہنچ گئیں جہاں انہوں نے سیاست میں حصہ لیا اور قانون ساز اسمبلی کی پہلی خاتون ممبر منتخب ہوئیں۔

وزیراعظم آزاد کشمیر کے مطابق ان کے والدین نے ان کو سرینگر سے متعلق ہزاروں باتیں بتائی ہیں جن میں تاریخی مقامات کے علاوہ لال چوک میں واقع پرانی اور مشہور دکانیں اور عمارتیں بھی شامل ہیں۔ خود ان کا آبائی گھر اندرونِ سرینگر کے راجوری کدل علاقے میں واقع ہے۔

مظفرآباد میں ان کے گھر پر ایک حالیہ ملاقات کے دوران انہوں نے بتایا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اب کھلم کھلا کشمیری شناخت، کلچر اور ثقافت کو ختم کرنے کی کوششیں کی جائیں گی۔ ان کے بقول جس کشمیر کے بارے میں ان کے والدین ان کو بتایا کرتے تھے، وہ پندرہ سال کے بعد ختم ہو گیا ہوگا۔

میں نے تفصیل کی گزارش کی تو انہوں نے بتایا ’’کشمیریوں کی زبان کو ختم کیا جائے گا۔ کشمیریوں کا کلچر جس پر ہم سب کو ناز ہے، کو تباہ کیا جائے گا۔ کشمیریوں کی جڑوں کو کاٹا جائے گا۔ یہاں تک کہ ان کے مشہور پکوان و اوزان کو ہریانہ اور پنجاب کے کھانوں سے تبدیل کر دیا جائے گا۔

ہماری کشمیری پوشاک اور دیگر چھوٹی چھوٹی چیزیں جو ہماری میراث کا حصّہ ہیں، ختم ہو جائیں گی۔ بھارت یہاں پر بہار، مہاراشٹر اور راجستھان کی ثقافت کو مسلط کرے گا‘‘۔ وزیراعظم کی جانب سے تشویش کا اظہار بجا ہے کیونکہ ریاست جموں و کشمیر کے ادغام کے بعد پہلے انتظامی فیصلوں میں اردو زبان کی جگہ ہندی کو رائج کیا گیا۔

پچھلے سوا سو سال سے اردو ریاست کی سرکاری زبان تھی جسے اب یک جنبش ِ قلم متروک کر دیا گیا حالانکہ عوام الناس کے جذبات اس کی تاریخ اور ثقافت سے جڑے ہوئے ہیں۔ اب یہ خبریں آرہی ہیں کہ کشمیری زبان کے رسم الخط کو تبدیل کرکے اسے ہندی قلب میں ڈھالا جا رہا ہے جو یہاں کی مسلم ثقافت پر ایک کاری ضرب ہوگی۔

ایسے حالات میں امید کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی۔ لوگ یا تو جنگ کی تمنا کرتے نظر آرہے ہیں یا ایسی ہی صورتحال سے امیدیں وابستہ کیے ہیں۔

5اگست کے بعد میں نے سرینگر میں اکثر لوگوں کو جنگ کی تمنا کرتے دیکھا تاکہ انہیں موجودہ غیر یقینی اور روح فرسا صورتحال سے کسی طرح بھی نجات حاصل ہو، بھلے وہ کسی بڑی تباہی کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو۔

راجہ فاروق حیدر سمجھتے ہیں کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک مکمل اور فیصلہ کن جنگ کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے اور یہ جنگ بالآخر ہو کر رہے گی۔

تازہ ترین