• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس میں کیا شک ہے کہ سچائی انصاف کا بنیادی پتھر ہے۔ کذب و افترا کی بنیاد پر انصاف کی نہیں ،ظلم کی عمارت استوار ہوتی ہے ۔ لیکن پاکستان میںانصاف کے علمبرداروں(اورتبدیلی کے دعویداروں)کا معاملہ یکسر مختلف ہے۔ وہ گوئبلز کے اس فلسفے پر عمل پیرا ہیں کہ جھوٹ بولو اور مسلسل بولو یہاں تک کہ لوگ اسے سچ سمجھنے لگیں۔ کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ گوئبلز کے یہ پاکستانی شاگرد استاد محترم کو پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔ضرب المثل بن جانے والے جرمن پروپیگنڈہ بازکو بھی جھوٹ کا پہاڑ بنانے کے لیے رائی تو درکار ہوتی ہوگی ، یہاں تورائی کے بغیر ہی پہاڑ بنا لیا جاتا ہے۔ تازہ مثال کپتان کے گھرکے کالم نگار کا حالیہ کالم ہے۔”نواز، مشرف ملاقات“ کی سرخی کے ساتھ متن میں کچھ سطور ملاحظہ ہوں”جنرل مشرف نے پر اعتماد انداز میں واپسی کا اعلان کر دیا ہے پچھلے مہینے سعودی عرب میں محترم نواز شریف اور پرویز مشرف کے درمیاں معاملات طے کروا دیئے گئے تھے“۔
فاضل کالم نگار نے نواز مشرف ملاقات اور مفاہمت کو خطے میں امریکی عزائم کا شاخسانہ بتایا ہے اور الفاظ کے طوطا مینا اڑاتے ہوئے طویل مضمون باندھا ہے۔ دو دیرینہ دشمنوں کی اس ملاقات اور مفاہمت کی حقیقت کیا ہے اس پر بعد میں بات کرتے ہیں ۔ پہلے یہ یاد دہانی کہ حرمین شریفین سے شریف فیملی کی خاص دلی وابستگی قدیمی ہے۔ جلا وطنی سے قبل کے اچھے دنوں میں بھی شریف خاندان سال میں ایک دو بار ضرور دیارِ حرمین کا قصد کرتا تھا ۔ جلا وطنی کے دوران طواف و عمرہ اور روضہ رسول پر حاضری کے وافر مواقع موجود تھے ۔رمضان شریف میں میاں صاحب کا معمول تھا کہ نصف شب کے بعد بیگم صاحبہ کے ساتھ مکہ روانہ ہوتے۔ تہجد، طواف ،سحری اور نماز فجر کے بعد جدہ لوٹ آتے۔رمضان المبارک کا آخری عشرہ پورا خاندان مدینہ منورہ میں گزارتا۔ ربیع الاول میں بھی حرمین کی زیارت کا مقدور بھر اہتمام ہوتا۔ اس جنوری کی گیارہ تاریخ شریف فیملی کے لیے سنگین صدمہ لائی۔ درویش صفت عباس شریف نماز جمعہ کی تیاری کر رہے تھے کہ فرشتہ اجل آپہنچا اور بندہ اپنے رب کے حضور حاضر ہو گیا۔ کئی روز تک تعزیت کا سلسلہ جاری رہا ۔ کچھ فرصت ہوئی تو فیملی نے حرمین کا رخ کیا۔والدہ محترمہ کی بیقراری بطور خاص تھی۔ مقصد مرحوم کے لیے خصوصی دعائیں ، ایصال ثواب کے لیے طواف و عمرہ اور اپنے لیے سکون قلب اور صبر جمیل کا اہتمام تھا۔ دو تین روز بعد میاں صاحب بھی چلے گئے اور کوئی ہفتہ بھر قیام کے بعد فیملی کے ساتھ لوٹ آئے ۔
اس دوران ”جنگ“ تین فروری میں ایک دلچسپ خبر شائع ہوئی ۔ سرخی تھی،نواز شریف سے مسجد نبوی میں”پرویز مشرف “ کی ملاقات۔ پرویز مشرف پر ”انورٹڈ کوماز“ کا مطلب واضح تھا کہ یہ وہ اصلی والی ذات شریف نہیں۔ متن میں تفصیل موجود تھی کہ یہ ملاقات ” ہم سب امید سے ہیں“ میں مشرف کا کردار ادا کرنے والے وسیم انصاری سے تھے۔ دوسروں پر ” نیم خواندہ“،”نیم لکھاری“ اور ”نیم صحافی“ کی پھبتی کسنے والے عہد حاضر کے”ظفر علی خان“ کو نہ سرخی میں پرویز مشرف پر انورٹڈ کوماز سے یہ سمجھ آئی کہ معاملہ کچھ اور ہے اور نہ اس نے خبر کی تفصیل میں جانے کی ضرورت محسوس کی۔ اسے تو نواز شریف پر تبریٰ کرنا تھا سو مشرف کی ڈمی کو اصل مشرف سمجھ کر پورا کالم لکھ مارا۔
مسلم لیگ ن اور پنجاب میں اس کے حکومت کے خلاف پروپیگنڈہ کا تازہ نکتہ میٹرو بس سروس ہے۔ ڈاکٹر سعید الٰہی نے کیا فقرہ لکھا ، یوں لگتا ہے میٹرو بس مخالفین کے سینے پر چل رہی ہے۔ خادم پنجاب کا یہ منصوبہ کئی حوالوں منفرد اور بے مثال ہے۔ صرف گیارہ ماہ میں 27کلومیٹر کے اس منصوبے کی تکمیل جس میںایشیا کا طویل ترین فلائی اوور بھی شامل ہے، ایک ریکارڈ ہے۔ صرف تیس ارب روپے کی لاگت ایک اور ریکارڈ ۔ لیکن اس حوالے سے مخالفین کے منہ میں جو آتا ہے بلا تکلف کہہ دیا جا تا ہے۔ کپتان اس پر سارے پنجاب کا بجٹ خرچ کر دینے کا الزام لگاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ سال بھر پہلے شروع ہونے والے عوامی سہولت کے اس منصوبے کو پری پول رگنگ کا نام بھی دیا گیا۔ خود کپتان کے گھر کالم نگار نے کبھی چیف الیکشن کمیشن کو دہائی دی ، کبھی سپریم کورٹ کی طرف سے سو مو ٹو نوٹس نہ لینے پر اظہار حیرت کیا کبھی تحریک انصاف کو اکسایا کہ وہ اس کیس کو سپریم کورٹ میں کیوں نہیں لے جاتی۔
ظاہر ہے، کہ اس میں کوئی جان ہوتی تو یہ سب کچھ ہوتا خود فاضل کالم نگار کے پاس کوئی ثبوت موجود تھے تو وہ خود سپریم کورٹ میں پہنج جاتے لیکن یہاں تو مقصد صرف خاک اڑانا تھا ۔ لیکن اب عالمی ساکھ کے حامل ادارے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے خود شہباز شریف کے initiative پر اس کی تحقیقات کا ڈول ڈالا ہے اور خود کپتان سے بھی اپیل کی ہے کہ اس کے پاس اگر کوئی ثبوت موجود ہے تو وہ مہیا کرے ۔
ادھر گیلپ اور پلڈاٹ کے اشتراک سے ہونے وال تازہ ترین سروے زیر بحث ہے جس میں کپتان کی تحریک انصاف مسلسل ڈھلوان کے سفر پر ہے جبکہ مسلم لیگ ن کا گراف اوپر کو ہے۔ اس حوالے سے تحریک انصاف والوں کا رد عمل دلچسپ ہے۔ وہ ان نتائج کو مشکوک بھی ٹھہراتے ہیں لیکن گیلپ اور پنڈاٹ کی عالمی سطح پر مسلمہ ساکھ سامنے آتی ہے تو سروے کے نتائج کو جھٹلانا آسان نہیں رہتا تو کئی اگر مگر( ifs and buts) لے آتے ہیں۔ ایک نکتہ PE Gap (popularity electability gap) کا بھی ہے کہ کپتان ذاتی طور پر جتنا پاپولر ہے( اگرچہ یہ پاپو لرٹی بھی نواز شریف کی ذاتی پاپولرٹی سے کم ہے)۔ اس کی تحریک انصاف ووٹ کے حوالے سے اتنے پاپولر نہیں لیکن یہ ایسا نکتہ نہیں جسے سمجھنا دشوار ہو تفصیل میں جانے کا محل نہیں صرف ایک نکتہ کافی ہے۔ کپتان ذاتی طور پر مقبول ہے لیکن 30اکتوبر کے سونامی کے بعد گھاٹ گھاٹ کا پانی پئے ہوئے جب ابن الوقتوں اور موقع پرستوں کو کپتان نے اپنے گرد جمع کیا اس سے تبدیلی کے نعروں پر لوگوں کا یقین متزلزل ہوا۔ اب اسے electables چاہئیں تھے۔
اس کا کہنا تھا کرپٹ معاشرے میں فرشتے کہاں سے لاﺅں؟ وہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی پر باریاں لینے کی پھبتی کستا لیکن اب خود اس کے گرد وہ لوگ جمع تھے جو کئی کئی باریاں لے چکے تھے۔ اور اب نئی باری لینے ادھر چلے آئے تھے۔ (یہاں مسلم لیگ ن کی سیاسی حکمت عملی میاں نواز شریف کی سرگرمی اور پنچاب حکومت کی کارکردگی کو ایک طرف رکھئے) یہ سروے تحریک انصاف کے حالیہ انٹرا پارٹی الیکشن سے پہلے کا ہے۔ اس میں جو کچھ ہوا اور جو چہرے سامنے آئے اس پر خود کپتان کے خیر خواہ بھی مایوسی کا اظہار کیے بغیر نہیں رہے۔ ان میں ہمارے شاہ صاحب بھی ہیں جنہوں نے پانچ مارچ کو لکھا ، اطلاعات تو دیگر شہروں سے بھی یہی ہیں مگر لاہور میں جو لوگ دھن دھونس اور دھاندلی کے ذریعے تحریک انصاف کا چہرہ بنے وہ تبدیلی کے خواہش مند نو جوانوں کے لیے ڈراﺅنا خواب ہے۔ اب مسلم لیگ ن کو لاہور میں زیادہ محنت کرنے کے ضرورت نہیں۔ جبکہ کپتان کے دیرینہ مدح سرا نے لکھا، اللہ کی شان کہ اب وہ شخص لاہور میں پارٹی اہم ترین لیڈر ہے مبینہ طور پر جس پر قتل کے درجنوں مقدمات ہیں لاہور کی گلیوں میں گھوم پھر کر عام لوگوں سے میں نے پوچھا ہے وہ سخت مایوسی کا شکار ہیں اور اس سے زیادہ صدمہ پارٹی کے کارکنوں کو پہنچا ہے۔ جبکہ اپنے ممدوح کے بارے میں مدح سرا کا کہنا ہے کہ سیا ست کی اونچ نیچ وہ نہیں سمجھتا اور مردم شناسی تو نام کو نہیں۔ کار سیاست میں ہر دفن ہونے والا اپنی قبر خود کھودتا اور کفن آپ بنتا ہے۔ عمران خان نے سیاسی زندگی کے سب سے بڑی غلطی کا ارتکاب کیا ہے اور یہ غلطی اسے مہنگی پڑے گی۔
تازہ ترین