• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر بچہ جب دُنیا میں آتا ہے تو اُس کی آمد کسی مقصد کو ظاہر کرتی ہے، تاریخ بتاتی ہے شہرہ آفاق شخصیات کی تعداد‘ اکثریت سے قدرے کم رہی ہے۔ پاکستان اس وقت اپنی آبادی کے لحاظ سے دُنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے اور بڑھتی ہوئی آبادی سے ہمارے ملک میں جہاں بہت سے چیلنجز اُبھر کر سامنے آئے ہیں، وہیں اس وقت چین نے جس طرح ایک بہت بڑی آبادی کے باوجود تیزی سے ترقی کی ہے وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ ہمارا ہمسایہ ملک بھارت آبادی کے اعتبار سے دُنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ مجموعی طور پر ہمارا پورا خطہ غذائی ضروریات کے حوالے سے خود کفیل اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود لوگ یہاں غربت، مفلسی اور بے کسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ہماری تنزلی کی ایک بڑی وجہ ہمارے منفی رجحانات ہیں۔ ہمارے اردگرد کے ماحول میں یہ بات محسوس کی جا سکتی ہے کہ لوگ اچھا کام کرنے والے کی تعریف تو خیر کم ہی کرتے ہیں لیکن تنقید کا کوئی بھی موقع اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیتے جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں لوگ اچھی زندگی گزارتے ہیں تو اس کے پیچھے کوئی راکٹ سائنس نہیں بلکہ ہونٹوں پر سجی مسکراہٹ کا پیغام ہے کہ ’’زندگی زندہ دلی کا نام ہے، مردہ دل کیا خاک جیا کرتے ہیں‘‘۔ ہمارے ملک میں جب کوئی شخص اپنے باصلاحیت ہونے کا ثبوت دیتا ہے تو داد و تحسین اُس کا حق ہے اور اسے اپنی کامیابی اور صلاحیت کے نتیجے میں ہونے والی ترقی کی وجہ سے معاشرہ میں وہ عزت ملنی چاہئے جس سے دوسرے لوگوں میں یہ تحرک پیدا ہو کہ وہ اپنی فطری صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر ایسی زندگی گزاریں جہاں ہر موڑ پر انہیں احساس دلایا جائے کہ کامیاب لوگ ہی ملکوں کی تقدیر بدلا کرتے ہیں۔ زندگی کے ہر شعبے میں انقلاب لانے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ ہر شخص کو قدرت نے جس صلاحیت سے نوازا ہے، اُس کے مطابق اسے زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کیا جائے جو ہماری ذمہ داری ہے۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اسی مقصد کے تحت ’’احساس پروگرام‘‘ شروع کیا ہے جو درحقیقت پروگرام نہیں بلکہ ایک تحریک ہے جس کا مقصد لوگوں میں ایسے جذبے کا فروغ ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور چاہت سے جڑے رہیں اور پسے ہوئےطبقے کیلئے آسانیاں پیدا کریں۔

میں نے بچپن میں جب بھی تعلیمی میدان میں کامیابی حاصل کی، رشتہ داروں، دوست احباب سے تحائف وصول کیے، داد وصول کی، اسکولوں میں مستقل بنیاد پر تقسیم انعامات کی تقریبات منعقد کی جاتی تھیں جس میں کامیاب طالبعلموں کو تحائف اور اسناد تقسیم کی جاتی تھیں اور اس سے دوسرے ہم عصروں میں ایک صحت مند مقابلے کا رجحان پیدا ہوتا تھا۔ اسی طرح ہماری ہاکی اور کرکٹ کی ٹیموں نے جب بھی کھیل کے میدان میں کامیابی حاصل کی، پاکستان کے عوام نے اُن کے فقید المثال استقبال سے ایسی داستانیں رقم کیں کہ آج بھی ایسے مناظر شائقین کے دلوں کو گرما دیتے ہیں۔ ہمیں لوگوں کی کامیابی اور کارکردگی کو ایک بار پھر دل سے تسلیم کرنا ہوگا، جہاں تنقید کرنا انسان کا حق ہے وہیں کامیابی پر انسان تعریف و توصیف کا حقدار بھی ٹھہرتا ہے۔ یہ دنیا کا مسلمہ اصول ہے کہ جنگ کے میدان میں بھاگ جانے والا کبھی بھی سینے پر گولی کھانے والے مجاہد کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ وہ قومیں جو ’جیو اور جینے دو‘ کے اصولوں کی پاسدار ہیں، وہ آج اپنی مضبوطی کی وجہ سے دنیا کی قیادت کر رہی ہیں جبکہ ہمیں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے سے فرصت نہیں۔ کسی بھی قوم کی تعمیر و ترقی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک وہاں کے لوگ زندگی سے متعلق اپنے رویے تبدیل نہیں کرتے۔ عام مشاہدہ ہے کہ ہمارے ہاں لوگ اپنی کامیابی کو چھپاتے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں ایسے جذبے فروغ پا گئے ہیں جس سے منفی جذبات اُبھرتے ہیں، علم اور خوشیاں بانٹنے سے بڑھتی ہیں۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا جیسی ایجادات سے ہر انسان کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع میسر ہوئے ہیں جہاں اس سے غلط فہمیوں اور غلط معلومات کا ایک سیلاب اُمڈ آیا ہے، وہیں اس نے مظلوم، بے کس اور بےیار و مددگار کی آواز کو ابھارنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہر چیز کے مثبت اور منفی پہلو ہوتے ہیں لیکن آگے نکلنے والے ہمیشہ مثبت پہلوئوں پر نظر رکھتے ہیں۔ مغرب میں پچھلی صدی میں بڑی عالمگیر اور خونریز جنگیں لڑی گئیں۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے ماحول میں وہاں کی قیادت نے فیصلہ کیا کہ انسانی غصہ اور دوسروں پہ غلبہ پانے کے جنون کو جنگوں سے ہٹا کر شعبہ زندگی کے دیگر میدانوں میں منتقل کیا جائے، آج اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے، سائنس و ٹیکنالوجی سے کھیل کے میدانوں تک ہمیں چند ممالک کی ہی حاکمیت نظر آتی ہے۔ آج مغرب انسانی فطرت کو سمجھ کر اپنے معاشرے کی ایسی تشکیل کیے بیٹھا ہے کہ پوری دنیا وہاں شفٹ ہونا چاہتی ہے جبکہ ہم اشرف المخلوقات کے شرف کو بھلائے بیٹھے ہیں، دِن رات دوسروں کو ڈرانا، حکومت گرانا، بحرانوں کو فروغ دینا، ہر بات میں رخنہ ڈالنا چاہتے ہیں، اپنے آپ کو اونچا اور دوسروں کو چھوٹا سمجھنے کا میچ کھیل رہے ہیں، آوے ای آوے اور جاوے ای جاوے کے نعرے ہمارے قومی مزاج کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ محبت، الفت، چاہت اور اُنسیت کی بنیاد پر برتائو کریں؟ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اُس کو اپنی صلاحیتوں کے مطابق جینے کا حق دینا اس کا فطری حق ہے۔ ڈر اور خوف کا کاروبار کرنے والوں کو اب اس کا حق لوٹانا ہی پڑے گا کیونکہ نئے پاکستان میں لہجہ اب دبا نہیں رہے گا۔ ان شاء اللہ!

تازہ ترین