سائنس دان ایسے مواد، پینٹ وغیرہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں جنہیں عمارتوں پر لگانے سے وہ سخت گرمی میں بھی ٹھنڈی رہیں گی
ایک تاجر نے 2018ء میں سکرا مینٹو ،کیلی فور نیا کی مقامی بجلی کمپنی سے دوکان کی لائٹوں کو زیادہ کار گر لا ئٹوں میں تبدیلی کرنے کو کہا،تاکہ توانائی کی بچت ہوسکے۔ تو کمپنی نے ایک تجرباتی سرد رہنے والا بسلاسسٹم لگانے کی پیشکش کی جو دھوپ میں بھی اپنے اردگرد کے مٹیریل کے مقابلے میں بغیر کسی توانائی کے سرد رہے گا۔ اب دوکان کی چھت پر رکھے المونیم پینل کے شیشوں پر ٹھنڈا رکھنے والی فلم کوٹ کی گئی ہے اور پینل ایک زاویہ سے آسمان کے رخ پر رکھے ہیں۔ جن کے نیچے لگے پائپوں میں بھری ہوئی رقیق ٹھنڈی ہوکر دوکان کو ٹھنڈا کرتی ہے۔ چناں چہ اب نئی لائٹیں اور بسلا سسٹم بجلی کے بل میں 15 فی صد کمی کرتا ہے اور سخت گرم دن میں بھی دوکان گرم نہیں ہوتی ہے۔
اس سے قبل2014ء میں کیلی فورنیا کی اسٹینفورڈ یونیورسٹی کی ریسرچ ٹیم نے ایک ایسا مٹیریل تخلیق کیا جو تیز دھوپ میں بھی اپنے ارد گرد کے ماحول کے مقابلے میں ٹھنڈا رہتا تھا ،جس کے بعد شان ہوئی فان ،آسوتھ رامن اور ایلی گولڈ اسٹائن نے اسکائی کول سسٹم نامی کمپنی قائم کی جو بسلا پینل سپلائی کرتی ہے، جس کے بعد دوسرے ریسرچ کرنے والوں نے بہت سے ایسے مٹیریل، پینٹ، اسپرے، فلمیں، کوٹنگ، اورخاص لکڑیاں بنائی ہیں جو دھوپ میں بھی سرد رہتی ہیں۔
کرہ ٔارض پر موجود ہر شخص،عمارت اور چیز گرمی خارج کرتی ہے لیکن زمینی ماحول کا غلاف اس کوجذب کرکے بعد میں اس کا شعاعی اخراج کرتا ہے۔لیکن دھوپ کی8سے 13مائیکرومیٹر ویولینتھ کی انفرا ریڈشعاعیں اس طرح ماحول کے غلاف میں جذب نہیں ہوتی بلکہ زمین کی طرف آکر چیزوں کو گرم کرتی ہیں جو گرمی بعد میں تابکاری کی شکل میں خارج ہوکر خلاء میں جاتی ہے ۔ چناں چہ اگر ان شعاعوں کو خلاء کی طرف منعکس کردیا جائے تو وہ یخ خلاء کی طرف چلی جائیں گی ۔ 1960ءسے سائنس داںاس دریافت کا فائدہ اٹھانا چاہتے تھے۔
لیکن یہ ٹھنڈصرف رات میں ہی محسوس ہوتی ہے۔ دھوپ تو اس قدر گرمی لاتی ہے کہ ہم ا س کو خلا میں بھیج ہی نہیں سکتے ہیں ۔ماہرین کے مطابق اب یہ نئے تیار کردہ مٹیریل آئینوں یا سفید رنگ کی طرح کام کرتے ہیںاور روشنی کے بڑے حصہ کے علاوہ 8سے 13 مائیکرومیٹر ویولینتھ کی شعاعوں کو واپس خلاء کی طرف منعکس کردیتے ہیں ۔
یعنی جب یہ مٹیریل آسمان کی طرف رخ کرکے لگائیں جاتی ہیں تو یہ انفرا ریڈ شعاعیں منعکس ہوکر ماحول کے غلاف سے گزر کر خلاء میں چلی جاتی ہیں اورجذب ہونے والی گرمی غیر فعال تابکاری کے ذریعہ خارج ہوجاتی ہے۔ اس طرح یہ مٹیریل گرمی کو مستقل طور پر وہاں بھیجتے ہیں جہاں سے وہ واپس نہیں آتی ۔ یہ مٹیریل اپنے ارد گرد کے مٹیریل کے مقابلےمیں گرم دن میں10ڈگری سینٹی گریڈ تک ٹھنڈا رہتا ہے ۔ ایریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی کے اربن کلائیمیٹ ریسرچ سینٹر کے انچارچ ڈیوڈ سیلر ان کو(Super cool) انتہائی سرد کہتے ہیں۔
جن کے استعمال سے نہ صرف بجلی کے بلوں میں کمی ہوتی ہے بلکہ کرۂ ارض کی بڑھتی ہوئی تپش میں ایر کنڈ یشن اورریفریجیشن کے لیے توانائی کی ضرورت میں بھی کمی کی جاسکتی ہے۔ اس لیےسڈنی کی نیو سائوتھ ویلز یونیورسٹی کے میتھیو سانٹا مورس کا کہنا ہے کہ آئندہ چند سال ٹھنڈا رکھنے والا ریڈی ایشن سسٹم بلڈنگز کی اول نمبر ٹیکنا لوجی اور ائیرکنڈیشننگ ہوگی۔
اس ٹیکنالوجی کو جیو انجینئرنگ اسٹریٹجی میں استعمال کرکے ہم کرۂ ارض پر آنے والی گرمی کو روکنے کی بجائے اس کو واپس خلاء میں منعکس کرکے کرۂ ارض کے بڑھتے ہوئے درجہ ٔ حرارت میں بھی کمی لاسکتے ہیں۔ ڈیوس کی کیلی فور نیایونیورسٹی کے فزسٹ جرمی منڈے کا کہنا ہے کہ کیا ہم کرۂ ارض پر سورج سے آنے والی گرمی کو روکنے کی بجائے اس کو کرۂ ارض سے خارج کرنے میں اضافےکی کوشش کرسکتے ہیں؟
لیکن کچھ محتاط سائنس داں کہتے ہیں کہ یہ تمام مطالعے بڑے پیمانہ پر نہیں ہوئی ہیں۔ یہ سسٹم خشک آب وہوا اور بادل سے صاف آسمان میں بہترطور پر کام کرسکتے ہیں۔ لیکن ہرقسم کی آب و ہوا میں ان کی افادیت میں شک ہوسکتا ہے جہاں کے بجلی کے بلوں میں اندازے کے مطابق شاید کمی نہ ہوسکے! کیوں کہ بادلوں کی وجہ سے مرطوب آب و ہوا میں آبی بخارات انفراریڈ شعاعوں کے انعکاس میں روکاوٹ کا باعث ہوں گے۔اس کے علاوہ اس بات کا امکان بھی ہے کہ یہ مٹیریل ہرقسم کی آب و ہوا میں لمبے عرصہ تک کام نہ کرسکیں اور اس طرح تمام عمارات میں یکساں استعمال نہ ہوسکیں! لیکن میرے خیال میں مزید تحقیق ان مسائل پر قابو پاسکتی ہے۔
حالاں کہ اس کےماڈل کے مطابق انعکاس کرنے والا انتہائی سردرہنے والا مٹیریل سفید پینٹ کے مقابلےمیں توانائی کی دوگنا بچت کا باعث ہوسکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ’’گیم چینجر‘‘ثابت ہوسکتا ہے۔2012ءمیںرامن اپنے ایڈوائزر فان کی زیر نگرانی پی ایچ ڈی کے لیے شمسی توانائی کے حصول کے لیے مٹیریل کی خصوصیات کی پرانی اسٹڈیز کا جائزہ لے رہا تھا تو غیر فعال تابکاری کی ٹھنڈک کے عمل سے آگاہ ہوا ،جس کے بارے میں اس نے کبھی سنا ہی نہیں تھا۔اس نے اس بات کا جائزہ لیا کہ کن خصو صیا ت کے سبب کوئی مٹیریل سورج کی گرمی کومنعکس کرکے خود گرم نہیں ہوگا، کیوں کہ اس کے لیے روشنی کے تمام اسپیکٹریم کا انعکاس کرنا ہوگا۔
اس کو 200 نینومیٹرکی ویولینتھ سے لگاکر2 سے 5مائیکرومیٹر کی ویولینتھ تک کا احاطہ کرنا ہو گا۔ جو انعکاس کرنے والے سفید پینٹ کے انعکاس سے بھی زیادہ ہوگا اورجو اب94فی صد تک گرمی منعکس کرتاہے۔ یعنی اس کو100فی صدتک گرمی کاانعکاس کرنا چاہیے۔ جس میں 8 مائیکرو میٹر سے 13مائیکرومیٹر کی اہم ویو لینتھ بھی شامل ہوں گی۔
اس کے بعدفان اور رامن نے سوچا کہ یہ صرف نینو اسکیل پر تشکیل کردہ انجینئرنگ مٹیریل کے ذریعہ سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ یعنی ایسے اسٹرکچر تخلیق کئے جائیں جو روشنی کی ویو لینتھ کے مقابلے میں چھوٹے ہوں جن سے کچھ ویولینتھ کی روشنی گزر کر زیادہ خارج ہو جائے اور کچھ ویولینتھ کی روشنی مکمل طور پر دبادی جائے ۔
بعدازاں اس گروپ نے اپنے ریسرچ مقالے میں اس مقصد کے لیے سطح پرنقوش بنا نے کا خیال پیش کیا جو2013ءمیں شائع ہوا تھا،جس کے بعد گروپ نے یو ایس ایڈوانسڈ ریسرچ پروجیکٹس ایجنسی۔انرجی (ARPA-E)کو اس کی تشکیل کے لیے فنڈ کی فراہمی کی درخواست کی تھی۔جب کہ رات میں تابکاری سے ٹھنڈک پر تو کافی کام ہوا ہے لیکن پوری دھوپ میں اس کام کو انجام دینا ایک بیش بہا خیال ہے۔
برانز نے تحقیقی گروپ کو ایک سال کے لیے 40,000 ڈالر فراہم کردیے تھے۔لیکن وقت بہت کم دیاتھا! چناں چہ اسٹینفورڈ کی ٹیم نے ڈیزائن کو آسان بنانے کے لئے اس مٹیریل کو کئی تہوں میں بنانے کا فیصلہ کیا جو تھوڑا آسان طریقہ تھا۔ انتہائی منعکس بنانے کے لیےمحققین نے چارپتلی متبادل تہوںمیںروشنی کو انتہائی رد کرنے والے مندرجہ زیرمٹیریلوں کو (and weakly silicon dioxide, or glass (hafnium dioxide ملاکرایک نیا مٹیریل تشکیل کیا۔
یہ چیزیں آپٹیکل انجینئرنگ کے شعبہ میں عام طور پر استعمال ہوتی ہیں۔ چوں کہ جب روشنی کی لہریں مختلف تہوں سے گزرتی ہیںتو ایک دوسرے کے خلاف مداخلت کرتی ہیں۔انھوں نے اسی اصول پر انفراریڈ کی تابکاری میں اضافے کے لیے ان مٹیریل کی تین اوپری تہیں موٹی کردی تھیں۔ جب اس مٹیریل کو تیز دھوپ میں سطح سمندر کے لیول پر ٹیسٹ کیا گیا تو اس کادرجہ ٔحرارت اپنے اردگرد کی چیزوں کے کے مقابلے میں 5 ڈگری سینٹی گریڈکم تھا۔
اس کامیابی کے بعد((ARPA-E نے انتہائی سرد مٹیریل کی کئی دوسری تجاویز کے لیے بھی فنڈ فراہم کیا تھا ۔مثلا ًبولڈر میں قائم یونیورسٹی آف کولیریڈو کے زیابو ین اوررونگوئی یانگ نے انتہائی سرد مٹیریل کو بڑے پیمانہ پر بنانے کی تجویز پیش کی تھی۔انہوںنے سستے پلاسٹک اور گلاس کی مائیکرو میٹر سائز کی گولیوںکو ملاکر جو8سے 13 مائیکرومیٹر ویولینتھ کا انعکاس کرتے ہیں۔ ان کو 50مائیکرومیٹر موٹی ایک شفاف پلاسٹک polymethyl pentene (جو لیباریٹری کاسا مان بنانے میں مستعمل ہے)کی فلم میں جماکر اس کی پشت پر منعکس کرنے والی سلور لگاکر ایک انتہائی سرد مٹیریل بنالیاتھا،جس کی رول کی شکل میںفلم بنائی جاسکتی ہے۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ بہت سے مٹیریل کو اگر مناسب قسم کااسٹرکچر بنانے میں استعمال کیاجائے تو وہ انتہائی سرد مٹیریل بن سکتے ہیں۔2018ءمیں نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی اور لیمونٹ الینوائے کی آرگون نیشنل لیباریٹری نے ایک انتہائی سرد پینٹ بنایا تھا،جس کی اسپرے کرنے والےپولیمر کی طرح کوٹنگ کی جاسکتی ہے ۔ بہت سے پولیمر قدرتی طور پر اپنے کیمیائی بونڈ کے سبب8 سے 13ویولینتھ کے درمیان انفراریڈکو منعکس کرتے ہیں ۔مثلا ًایسا بونڈ کاربن کے ایٹموں یا کاربن اور فلورین کے ایٹموں کے درمیان پایا جاتا ہے۔ چناں چہ جب یہ کھنچنے کے بعد آرام کرتے ہیں تو پیکٹ کی شکل میں انفراریڈ کا اخراج کرتے ہیں۔
اصلی مقصد پولیمر کی سورج کی روشنی کو منعکس کرنے کی صلاحیت کو بڑھانا ہے۔ ذراسے پانی میں پولیمرفلورین کو ایسیٹون میں ملاکر اس کاکسی سطح پراسپرے کرنے سے یکساں کوٹنگ ہوجاتی ہے۔ سب سے پہلے فلورین خشک ہوتی ہے، جس کے بعد پانی کے قطرے خشک ہوتے ہیں جو اپنے پیچھے ہواسے بھرے ہوئے پور چھوڑ جاتے ہیں۔ اس سفید کوٹنگ کے پور روشنی کو بہترین طور پر منعکس کرتے ہیں۔
گذشتہ مئی میں کولیریڈو کی ٹیم نے سرد رہنے والی لکڑی کی بابت بھی بتایا تھا جسے کالج پارک کی یونیورسٹی آف میری لینڈ کے لیانگ بنگ ہو اور تیان لی نے تیار کیا تھا، کیوں کہ پولیمر کی طرح لکڑی میں بھی کیمیائی بونڈ ہوتا ہے جو اپنی مناسبت سے انفراریڈ شعاعوں کا انعکاس کرتا ہے لکڑی کو پوری طرح منعکس بنانے کے لیے لکڑی کی سطح کے اوپر سے liginin کے سخت مادّہ کو کیمیائی طور پر ہٹاکر اس کو پریس کرنا ہوگا ،جس سے تمام سیلولیوز فائبرز(لکڑی کے ریشے) ایک سیدھ میں آکر لکڑی کو پوری طرح منعکس بنادیتے ہیں۔ اس وقت امریکا میں بہت سے سائنس داں اپنے بنائے ہوئے مٹیریل کو اپنی کمپنیاں تشکیل دیکرمارکیٹ میں لانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
جن میں پینٹ ،اسپرے، فلم ، لکڑی اور دوسرے مٹیریل شامل ہیں ۔ رامن کے مطابق نویڈا کے بہت گرم شہر لاس ویگاس میں گرمی کے دن میںانتہائی سرد مٹیریل کو بلڈنگ میں استعمال کرکے بجلی میں21فی صد کی بچت کی جاسکتی ہے۔ بولڈر میںراڈی کول کمپنی کے ین اور یانگ کا دعوٰی ہے کہ ان کے پلاسٹک میں جمائے ہوئے گلاس کے مٹیریل کے استعمال سے32فی صد سے54فی صد تک بجلی بچائی جا سکتی ہے۔ میری لینڈ کی انوینٹ ووڈ کے مالک ہو کے مطابق ان کی لکڑی کے استعمال سے 16امریکی شہروں میں20فی صدسے 35فی صد تک توانائی کی بچت ہوسکتی ہے۔
لیکن یہ تمام دعوے تجربات اور ماڈل کی بنیاد پر کئے گئے ہیں۔ اس کا خاص پہلواس کو استعمال کرنے کا مقام ہے اور مختلف علاقوں میں اس کی کارکردگی مختلف ہوگی جب کہ مرطوب علاقوں میں اس کی کارکردگی بہت ہی کم ہوسکتی ہے۔
البتہ پاکستان جیسے گرم اور خشک علاقے کے بڑے شہروں میں بجلی کی بچت بہت اہم ہوگی ۔کیونکہ یہاں پربجلی کی قلت بھی ہے اور یہ مہنگی بھی بہت ہے۔اس طرح بچت ہونیوالی بجلی ہم صنعتوں کو فراہم کرسکتے ہیں۔ بہتر ہوگا کہ ہماری یونیورسٹیاں اور کچھ صنعتی ادارے ان اصولو ں پر اپنے ایسے مٹیریل بنائیں جن کا فائدہ ہمارے اداروں اوراپنے لوگوں کو ہوں۔ اس مٹیریل پر تحقیق کے لیے کسی بڑی رقم کی ضرورت نہیں بلکہ یہ تحقیق معمولی رقم سے شروع ہوسکتی ہے۔اس طرح کے سسٹم کے استعمال سے سردی کے موسم میں بلڈنگوں کوگرم رکھنے پر زیادہ خرچ آسکتا ہے۔
اس کوحل کرنے کے لیےسانٹا مورس اس انتہائی سرد مٹیریل (super cool material) کے اوپر کوٹنگ کے لئے ایک ایسی رقیق تیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جس کو اسپرے کریں تو وہ بہت سرد موسم میں جم جائے گا۔جس کے بعد ٹھنڈاکرنے کا عمل رک جائے گا۔ یانگ اور منڈل کا خیال ہے کہ اگر ان کے پولیمر کے پوروں میں (isopropanol) کی کوٹنگ کردی جائے تو یہ گرمی کو رد کرنے کی بجائے، اس کو روکنا شروع کردیں گے، جس عمل کو ہوا کے پنکھے کوچلاکر واپس کرلیا جائے گا۔ایم ،آئی،ٹی کی ایک جماعت نے ایک لائٹ انسولیٹنگ ایرو جیل(insulating aerogel) کی فلم سے سرد مٹیریل کوکور کرکے اپنے ارد گردکے مٹیریل سے درجہ ٔ حرارت کو13 ڈگری سینٹی گریڈ تک کم کیا ہے۔
گلوبل وارمنگ یعنی کریاتی تپش میں کمی کے لیے بھی انتہائی سرد مٹیریل کے استعمال کے جائزے لئے جانے ضروری ہیں۔ قطبین کی برف پر اگر انتہائی سرد مٹیریل کی فلم پھیلائی جائے تو اس سے برف پر پڑنے والی انفراریڈ شعاعوں کو واپس خلاء میں بھیج کر سمندر کے لیول کے اضافے کی خطرے کی روک تھام ہوسکتی ہے ۔اورکسی حد تک کریاتی تپش میں بھی کمی کی جاسکتی ہے۔