• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

اُنہیں بھی برداشت کرلیں!

ہمیشہ کی طرح اس بار بھی دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ دونوں میں ’’سرچشمہ ہدایت‘‘ کے صفحات پر ’’سلسلۂ غزوات و سرایا‘‘ کی اقساط تھیں۔ ہم صحابہ کرامؓ کے جذبوں کو سلام پیش کرتے ہیں۔ ’’ہمارے ادارے‘‘ میں، ’’درد ِدل کے واسطے…‘‘ کے عنوان سے قومی ادارہ برائے امراضِ قلب سے متعلق معلومات فراہم کی گئیں، زبردست بھئی۔ عبداللہ تھری کام یابی سے جاری و ساری ہے۔ اسٹائل کے دونوں ہی شماروں میں عالیہ کی تحریریں تھیں۔ کبھی کبھی آپ بھی رائٹ اپ لکھ دیا کریں، بچّوں کا دل ہی خوش ہوجاتا ہے۔ کہی اَن کہی میں ڈمپل بوائے، چھے فٹ کے باصلاحیت ہیرو، بلال اشرف کے بارے میں جان کر اچھا لگا۔ ’’گفتگو‘‘ میں شہرئہ آفاق ڈراموں کے خالق، شاعر، ادیب، کالم نگار امجد اسلام امجد سے تفصیلی بات چیت بہت خُوب رہی۔ کانچ کی چوڑیاں پہننے والی امّاں جی کے آہنی حوصلوں کی کہانی بھی پڑھی۔ بلوچستان کبھی دہشت گردی کی لپیٹ میں تھا، اب وہاں امن خوشیوں کی باتیں ہوتی ہیں اور جنگ کا یہ اعزاز ہے کہ وہ چھوٹے صوبوں کو بھی نمایاں کوریج دیتا ہے۔ ایک شمارے میں میرا خط اور دوسرے میں میری سنہری باتیں شایع کرنے کا بے حد شکریہ۔ اور ہاں، آپ نواب زادہ خادم ملک کو برداشت کر رہی ہیں، تو پروفیسر مجیب کو بھی برداشت کرلیا کریں۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول لنگر)

ج:تو آپ کے خیال میں ہم آج تک اور کیا کررہے ہیں۔ کیا آپ نے کبھی، کسی سے سُنا کہ ہم نے کسی ’’اونگی بونگی‘‘ یا ’’مَیں نامے‘‘ کے جواب میں ہاتھ میں چھتّر اٹھالیا ہو، یا کسی کا سر دیوار سے دے مارا ہو۔ برداشت ہی کررہے ہیں بھائی۔

تبدیلی کی وجہ

اس بار میگزین پڑھتے ہی عہد کرلیا تھا کہ ایک لمبا سا تبصرہ ضرور کرنا ہے۔ عالمی اُفق سے حسبِ روایت بچتے بچاتے ’’سر چشمۂ ہدایت‘‘ پر پہنچے۔ نئے سلسلے کی پہلی قسط ہی نے دل خُوشی سے شاد کردیا۔ عرصے سے خواہش تھی، ’’غزوات و سرایا‘‘ کے موضوع پر کچھ معلومات حاصل ہوجائیں۔ آگے بڑھے تو ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ سے سامنا ہوا اور ہم نے یہ سامنا بہت خوشی سے کیا کہ دردِ شقیقہ پر مضمون کی اشاعت کی خواہش ہم نے ہی کی تھی، جو آپ نے جلدی پوری کر دی۔ ’’کہی اَن کہی‘‘ میں بلال اشرف کی باتیں بہت اچھی لگیں۔ اسٹائل بھی اس بار کچھ بہتر تھا۔ عالیہ کاشف کا رائٹ اَپ تو مختصرسےمختصر ہوتا جا رہا ہے۔’’ناول‘‘ زبردست ہے، لیکن پلیز، اس دفعہ ناول کا اینڈ ایسا بالکل نہیں ہونا چاہیے کہ ہمارا چھوٹا سا دل ٹوٹ جائے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں عالیہ شمیم کی ’’پردے کی بوبو‘‘ بہت اچھی لگی۔ ذکی طارق کی نعتِ رسولِ مقبولؐ سیدھی دل میں اُتر گئی اور پیارا گھر میں عزیزہ انجم اور حکیم سرفراز احمد نور کی تحریریں پسند آئیں۔ اور یہ کیا… ناقابلِ فراموش میں رعنا فاروقی کی جگہ محمّد ہمایوں ظفر… ویسے تو تینوں واقعات اچھوتے تھے، مگر اس تبدیلی کی وجہ ضرور بتائیے گا۔ اور آپ کا صفحہ ہمیشہ کی طرح اپنا اپنا سا لگا۔ خادم انکل کو آپ کا دیا گیا جواب’’ لاجواب‘‘ تھا۔ پتا ہے، نرجس جی ’’آپ کا صفحہ‘‘میں خادم انکل کا نام دیکھ کر ہی ہنسی چُھوٹ جاتی ہے۔ اور ہاں، پروفیسر سید منصور علی کو کرسیٔ صدارت پر دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی۔ (سعدیہ خان زہری، اوستہ محمّد، بلوچستان)

ج: پتا نہیں کیوں، اب تو ’’تبدیلی‘‘ کے لفظ ہی سے جسم و جاں میں ایک سنسنی سی دوڑجاتی ہے، سُنتے تھے، ’’فطرتِ انسانی ہے کہ تبدیلی کیسی بھی ہو، بھلی لگتی ہے‘‘ پر پاکستانی قوم کو تو اس تبدیلی نے ایسا ڈنک مارا ہے کہ اگلی سات نسلیں اس لفظ سے پناہ مانگیں گی۔ بہر حال، ابتداً رعنا فاروقی نے علالت کے سبب لکھنے سے معذرت کی مگر اب تو لگتا ہے،اُن کا اس سلسلے کے لیےمزید کام کا ارادہ ہی نہیں۔

ایک خُوب صُورت اضافہ

سب سے پہلے ٹائٹل گرل پر نظر پڑی ’’میرے لیے سردیوں کا موسم ذرا الگ تھا…‘‘ مگر کچھ خاص پسند نہیں آیا۔ ورق گردانی کی تو فاروق اقدس کی تحریر کے ساتھ پالک گوشت کی تصویر دیکھ کر منہ میں پانی بھر آیا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں غزوۂ بدر سے متعلق پڑھ کے آنکھیں بھرا گئیں۔ پیارا گھر واقعی بہت پیارا ہے۔ ماڈل مہہ جبیں اور اس کے پہناوے اچھے تھے، مگر ہم مشرقی لڑکیوں کو کون پہننے دیتا ہے بھلا۔ ناول عبد اللہ سُپرہٹ ہے۔ ’’کہی اَن کہی‘‘ میں عامر سلیم کے جواب مزا دے گئے۔ ان کا گانا’’وہ تاروں بھری راتیں…‘‘ آج بھی میرا پسندیدہ ہے۔ ڈائجسٹ میں اس باربہت زبردست تحریریں سموئی ہوئی تھیں۔ سب سے بڑھ کر افسانہ ’’سکینہ‘‘ بہت پسند آیا۔ زہیرہ جمشید نئے لکھنے والوں کی صف میں ایک اچھااضافہ ہیں۔ اورہاں، اس بار ’’آپ کا صفحہ‘‘کے خطوط کچھ زیادہ مزے کے نہیں تھے۔ (سونیا رائے)

ج: جی ہاں، زہیرہ جمشید لکھنے والوں میں ایک اچھا اضافہ ہیں۔ اور خطوط مزے کے کیسے ہوتے، جب تمہارا خط ہی شامل نہیں تھا، تو…

سارا ماحول معطّر

سنڈے میگزین ایک بہت معیاری رسالہ ہے، جو ہر ہفتے اپنے گُل دستے سے رنگا رنگ پھولوں کی مہک بکھیر کر سارا ماحول معطّر کر دیتا ہے۔ (شری مُرلی چندجی گوپی چند گھوکلیہ، شکار پور)

سوالات وجوابات دونوں

نیا سال، نئے دعوے، نئے پروگرام، نئے منصوبے… سب کھوکھلی، روایتی باتیں، محض طفل تسلّی۔ پہلے اِسی حال میں ایک ماہ گزرے گا، پھر دوسرا، تیسرا اور اسی طرح 12 ماہ گزر جائیں گے اور اب تو لگتا ہے، ’’تبدیلی‘‘ کے اس بھنور سے نکلنا بھی کچھ کارِ آسان نہیں۔ ’’دلبر ہوٹل‘‘ کی کہانی پڑھی، جو مُلک کی عمومی صورتِ حال ہے، ہوٹل کے حالات بھی اُس سے کچھ مختلف نہیں۔ غزوئہ بدر کے حوالے سے مکمل تفصیلات کی اشاعت سے مسلمانوں کے سوئے ہوئے جذبات بیدار کرنے کی بہترین کوشش کی گئی۔ ’’جامعہ کراچی‘‘ سے متعلق طلعت عمران نے بہت جامع، دل چسپ انداز میں تحریر رقم کی۔ ’’کہی اَن کہی‘‘ کے سوالات و جوابات دونوں پسند آئے۔ شفق رفیع نے عامر سلیم سے ایک کہنہ مشق لکھاری کی طرح بات چیت کی۔ ہم پھر یہی کہیں گے کہ ’’انٹرویو لینا بھی ایک فن ہے۔‘‘ پیارا گھر قدرے بہتر تھا۔ ڈائجسٹ کا نیا فارمیٹ بھی پسند آیا۔ آئندہ بھی ایسا ہی رکھیں تاکہ زیادہ لکھاریوں کو لکھنے کا موقع ملتا رہے گا۔

ج: اور ہم پھر کہیں گے کہ یہ ’’خارزارِ صحافت‘‘ کی نسبتاً آسان روش ہے۔

(چاچا چھکّن ، گلشن اقبال، کراچی)

طریقے سلیقے سے…

جنگ، سنڈے میگزین تو محبتوں کی ملاقات، شفقتوں کا ایک ملن ہے۔ اس بار سرِورق پر سجا مصرع ’’مانگ تاروں سے بَھری ہو جیسے…‘‘ دلہن پرخُوب صادق آرہا تھا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں نئے سلسلے ’’غزوات و سرایا‘‘ کی چوتھی قسط غزوئہ بدر کےروح پرور احوال پر مبنی تھی۔ ’’رپورٹ‘‘ میں منور راجپوت نے ’’مقدّس اوراق کے تحفظ‘‘ سے متعلق فکرانگیز تحریر لکھ کر ہم سب کی توجّہ ایک اہم مسئلے کی طرف مبذول کروائی۔ سیّد وقاص جعفری نے تعلیم کے بگاڑ پر کیا ہی شان دار، جامع تحریر رقم کی، پڑھ کر دل خوش ہو گیا۔ ’’سینٹر اَسپریڈ‘‘ پر پہنچے، تو وہاں ماڈل پانچویں سیزن (شادی) کی بہار دِکھلا رہی تھی۔ حسین پہناووں کے ساتھ دل کش تحریر صفحات کی زینت کئی گنا بڑھا گئی۔ ’’کہی اَن کہی‘‘ میں معروف کمپیئر، سدرہ اقبال کی دل چسپ باتیں بہت ہی طریقے سلیقے سے تحریر کی گئیں۔ ناقابلِ فراموش کی تمام ہی کہانیاں سبق آموز تھیں۔ اور ہاں، یہ رائو شاہد آج کل کہاں غائب ہیں۔ اُن کی تحریروں کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ (ملک محمد رضوان ،محلہ نشیمن اقبال، واپڈا ٹائون لاہور)

ج: رائو شاہد اقبال کی ’’سال نامے‘‘ سے واپسی ہو گئی ہے۔ یقیناً آپ ان کی تحریرملاحظہ بھی کرچُکے ہوں گے۔

ہم روحِ سفر ہیں.....

بارے خدا خدا کر کے، اتوار کے تازہ دَم اخبار میں پوشیدہ ’’سن ڈے میگزین‘‘ ملا۔ فاروق اقدس کا ’’دلبر ہوٹل‘‘ بار بار پڑھنےکےلائق تھا۔ مجھے تو یوں بھی کشمیر کےاس ’’چائے خانے‘‘ سے ہمیشہ عقیدت رہی۔ طلعت عمران ’’جامعہ کراچی‘‘ کا ’’سلور جوبلی‘‘ گیٹ دِکھا دِکھا کر اپنی تحریر سے ماضی کھرونچتے رہے، جب جامعہ کی ایک ایک اینٹ سے پیار ہوا کرتا تھا۔ مرکزی صفحات پر عالیہ کی بھارتی شاعری اور گلابی رنگوں کے پچیرے، دونوں دُھندلائے ہوئےتھے۔ شفق رفیع نے عامر سلیم سے ملوایا،سلیم کچھ بوڑھے ہوگئے، لیکن سِلم، اسمارٹ اور ماشاء اللہ سُپر فٹ ہیں۔ شرف الزماں ’’نصف صدی سےمحصورپاکستانیوں کاالمیہ‘‘ لائے۔ ’’عبداللہ کو تو ’’ربر‘‘ کی طرح کھینچا جا رہا ہے۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں نرجس مختار نے اہم موضوع پر تحریر لکھی۔ اور ڈائجسٹ کو تو اس ہفتے’’کترنوں‘‘ سے سجایا گیا۔ زہیرہ جمشید بلاوجہ اشفاق احمد اور انتظار حسین بننےکی کوشش میں لفظ ’’سکینہ‘‘ کا ناس مار گئیں۔ ہاں البتہ جیتا جاگتا ’’آپ کا صفحہ‘‘ مثلِ ماہتاب چمک دمک دکھارہا تھا۔ اگلے شمارے کا سرِورق خوب صُورت ٹیگ ’’ٹھنڈی ہوا ہے اور گھٹا ہے گھری ہوئی…‘‘ کے ساتھ طلوع ہوا۔ سرورق کے رنگوں میں گو کہ تین عدد سُرخیاں مدغم ہوگئیں، لیکن بغور دیکھنے پر پڑھ لی گئیں۔ وزیر مینشن پر اچھا لکھا گیا۔ منور راجپوت ’’طلبہ تنظیموں پر عائد پابندی‘‘ کےلحاظ سے اپنا تجزیہ لائے، تو ’’صحّی سازو سامان‘‘ (ہیلتھ اینڈ فٹنس) میں ڈاکٹر سیّد معین الدین نے ’’جزام یا برص‘‘ سے متعلق مفید معلومات فراہم کیں۔ ’’نئی کتابیں‘‘ میں بھی تین عدد کتابیں مل ہی گئیں۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں شکیل احمد کی دُکھ بھری کہانی ’’طمانچہ، تڑپاگئی، اندازِ تحریر بھی اچھا لگا۔ خدا خدا کر کے ’’آپ کا صفحہ‘‘ آیا۔ اس کے لیے بس اتنا ؎ ہم روح ِ سفر ہیں ہمیں ناموں سے نہ پہچان …کل اور کسی نام سے آجائیں گے ہم لوگ۔ (پروفیسر مجیب ظفر انوار حمیدی، گلبرگ ٹائون، کراچی)

ج:جی بے شک؎ خوشبو ہیں تو ہر دَور کو مہکائیں گے ہم لوگ …مٹی ہیں تو پَل بھر میں بکھر جائیں گے ہم لوگ …کہنا ہے یہ ناقدریٔ ارباب جہاں سے… اک بارجوبکھرے تو نہ ہاتھ آئیں گے ہم لوگ…بیٹھو کہ ابھی ہے یہ گھنی چھاؤں میسّر… ڈھلتا ہوا سایا ہیں گزر جائیں گے ہم لوگ۔

ایک دن کا کرایہ

اس بار ’’سنڈے اسپیشل‘‘میں فاروق اقدس، راول پنڈی کے قدیم دلبر ہوٹل کے قیام اور اس کے لذیذ کشمیری کھانوں کی داستان سُنا رہے تھے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں جنگِ بدر کا احوال اچھے پیرائے میں بیان کیا گیا۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں عالیہ کاشف ماڈل کے کچھ الگ سردیوں کے موسم کے بارےمیں بتا رہی تھیں، پتا نہیں کون سا الگ موسم تھا۔ تفصیل سے بےخبر ہی رکھا۔ ناول ’’عبداللہ‘‘ بہتر سے بہترین کی طرف گام زن ہے۔ ’’پیاراگھر‘‘ میں نرجس مختار بیٹیوں کی اعلیٰ تعلیم و تربیت پرزوردیتی نظر آئیں۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں زہیرہ جمشید اور طلحہٰ یاسر کی مختصر کہانیاں فکرانگیز تھیں اور اپنے صفحے میں جاوید اقبال نے گزشتہ ہفتوں کے مندرجات پر اچھا تبصرہ کیا۔ اگلے شمارے میں فاروق اعظم نے قائد اعظم کی جائے پیدایش، وزیر مینشن (کھارادر)کی ڈیڑھ صدی پرمشتمل داستان سنائی۔ ’’غزوات و سرایا‘‘ سلسلہ بےحد معلوماتی ثابت ہو رہا ہے۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں طلبہ یونین کی بحالی کے سلسلے میں مختلف آراء سامنے آئیں۔ ناول ایک نئے موڑ پر آگیا، جو واقعی حیران کُن تھا۔ عفّت زرّیں نے ماں کی عظمت پر لکھا، تو ہمیں محلّے کی ایک بڑی بی کی کہی بات یاد آگئی کہ ’’بیٹا! تم اُس گھر کا ایک دن کا کرایہ ادا نہیں کرسکتے، جس میں تم نو مہینے رہے ہو، چاہے بادشاہ کیوں نہ بن جائو۔‘‘ ’’متفرق‘‘ میں اسرار ایوبی نے عالمی انجمن سماجی تحفّظ کی دنیا بھر میں خدمات سے روشناس کروایا۔ واقعی، ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے… آتے ہیں جو کام دوسروں کے۔ اور اب ذکر، اپنی بزم کا، صدارت کا اعزاز ایک بار پھر نادیہ غوری کے حصّے آیا۔ اور آپ کی خود اعتمادی اور مستقل مزاجی کو سلام ہے کہ ہر قسم کے قاری، لکھاری کو بہترین انداز سے فیس کرتی ہیں۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپورخاص)

ج:آپ کے اس پورے تبصرے پر محلّے کی امّاں جی کا ایک جملہ حاوی ہے۔ واقعی بڑے بوڑھوں کی کہاوتوں، تجربوں کا تو کوئی مول ہی نہیں۔

دلیپ کی یادیں

سنڈے میگزین میں برطانوی انتخابات سے متعلق رپورٹ پڑھ کر بہت افسوس ہوا۔ برطانیہ میں تو اب ہر سال وزیر اعظم تبدیل ہورہا ہے، تو کیا ہم لوگ اب ہر وزیر اعظم کو اِسی طرح کوریج دیں گے۔ کیا برطانوی اخبارات بھی ہماری سیاسی تبدیلیوں کو اِسی طرح کوریج دیتے ہیں۔ پتا نہیں ہم لوگ انگریزوں کی غلامی کب چھوڑیں گے۔ اور سنڈےمیگزین سے ’’جنگ پزل‘‘ کا سلسلہ بند کردیں، انتہائی فضول سلسلہ ہے۔ اور اس ماڈل صاحبہ کو کیا آپ نفسیاتی اسپتال سے لائے تھے، جو ان کے بال اِس طرح بکھرے ہوئے تھے، کیا اُن کے پاس کنگھی بھی نہیں تھی۔ اس سے تو بہتر تھا، آپ ہم سے ماڈلنگ کروالیتیں، ہم اپنی خُوب صُورت چندیا، پرویز خٹک جیسی جسامت، بڑی بڑی مونچھوں کے ساتھ چُوڑی دار پاجاما اور نوک دار کھسّہ پہن کر منہ میں پان کی گلوری لیے کیا غضب ڈھاتے، بخدا دلیپ کمار کی یادیں تازہ ہوجاتیں۔ (نواب زادہ خادم ملک، سعید آباد،کراچی)

ج:ہا ہا ہا..... ہم تو تصوّر کر کے ہی لوٹ پوٹ ہوگئے اور اگر کہیں خدانخواستہ یہ ’’اندوہ ناک سانحہ‘‘ سرزد ہو جائے، تو پھر تو کُشتوں کے پُشتے لگیں گے ہی لگیں گے۔

                                                                                      فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

وہ ہے ناں دِل دریا، سمندروں ڈونگھے، کون دِلاں دیاں جانے ہُو… تو آج بات دل کے معاملے سے شروع کرتے ہیں۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں پنڈی کے ’’دلبر ہوٹل‘‘ کے دل کش لوازمات کی تفصیل دے کر بھا فاروق اقدس نے دل خوش کردِتّا۔ دل جانتا ہے کہ جب دنیاوی جھمیلوں میں دل بے ایمان سا ہو جاتا ہے، تو صفحۂ دل نواز ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کا وعظ ِ دل آویز، دل پر نقش سا ہونے لگتا ہے۔ شہر ِ دل پذیر، کراچی کی کِرچی کِرچی خبریں پڑھ کر دل بیٹھا جاتا تھا، بھلا ہو آپ کا کہ ’’ہمارے ادارے‘‘ میں جامعہ کراچی پر دِل خوش کُن مضمون شایع فرما کر دل پکّا کر کے ہماری دل جوئی و دل داری کی۔ ’’عالمی اُفق‘‘ میں منور مرزا کا دل، مغربی دَل بادَل (گرینڈ آرمی) "NATO" پر آیا ہوا تھا۔ جناب سے گزارش ہے کہ خونِ مسلم کے تحفّظ کے لیے بنائی گئی’’متحدہ اسلامی فوج‘‘ کی خدمات بھی کسی مضمون میں گِنوا کر ہمارے دل برداشتہ کو بہلا ہی دیں۔ بابل دے ویہڑے ’’پیارا گھر‘‘ میں نرجس مختار نے اپنی تحریر سے دل باغ باغ کردیا اور شہرِادب کے کوچۂ اندروں (مرکزی صفحات) میں دِل بلیوں اُچھلا کہ مدیرہ صاحبہ کا نام نہ تھا، تو پھر ہمارا وہاں کیا کام تھا۔ دل دیوانہ بنِ سجنا کے مانے نہ… دل ہی دل میں گنگناتے صفحہ ’’ناول‘‘ پر پہنچے۔ جہاں دل پسند رائٹر،جیسے دل پر ہاتھ رکھ کے گویا تھے ’’ستارو تم تو سوجائو، پریشان رات ساری ہے…‘‘ماشاء اللہ اس بار بھی شمارہ 24 صفحاتی تھا۔ ٹاک شاک کارنر ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی اعزازی چٹھی، جاوید اقبال کی ٹھہری، اقبال بلند ہو! نواں آیاں ایں سوہنیا! (ہاہاہا… ) اگلے شمارے کی آہو چشم نازنین (ماڈل آف دی ٹائٹل) کے ہونٹوں پر مچلتا تبسّم،دلِ لرزاں کے پھپھولوں پر مثلِ مرہم محسوس ہوا۔ شہ سُرخی تھی ’’ٹھنڈی ہوا ہے اور گھٹا ہے گِھری ہوئی…‘‘مگر پہلی نظر میں یوں لگا، جیسے ’’ہوا میں اِک ادا ہےگھری ہوئی…‘‘ ’’اشاعت ِ خصوصی‘‘ میں کھارادر کی قدیم عمارت (وزیر مینشن) کی عظمت و حشمت پڑھ کر دل کا میٹھادَر خوشبوئے جناح سےمعطّر ہوگیا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ’’غزوئہ بدر‘‘ کی تفصیل، بااندازِ سلیس نذر قارئین کی گئی۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں منور راجپوت طلبہ تنظیموں کی بحالی کا پرچم سربلند کیے ہوئے تھے۔ فارن ڈیسک (عالمی اُفق) سے منور مرزا نے بورس جانسن کی بلاک بسٹر کام یابی کی خبر دی، تو ہیلتھ سُن گُن (ہیلتھ اینڈ فٹنس) سے ڈاکٹر معین نے ’’ہرسفیددَھباّ، برص نہیں ہوتا‘‘ کی گائیڈ لائن ٹویٹ کی ’’عبداللہ‘‘ کو 24 ویں قسط میں اِدراک ہوا کہ ’’میرے قدم میرے ساتھ ’’برف پانی‘‘ کا کھیل کھیل رہے تھے۔‘‘ جب کہ عقلِ سلیم کو پہلی ایوانی تقریر (کسی کو نہیں چھوڑوں گا) کے 24ویں سیکنڈ ہی میں پتا چل گیا تھا کہ ’’تبدیلی بینر‘‘ تلے، بریکِ فری ٹام اینڈ جیری شو ہونے جارہا ہے۔ قرطاس ِ زیب و زینت (مرکزی صفحات) پر ماڈل، حسین ہوتے ہوئے بھی آپ کے رائٹ اَپ سے محروم رہی، یہ کیا ماجرا ہےبھئی؟یامحض ہماری نظرکادھوکاہے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ کے خوانچے پر شکیل احمد چوہان کا ’’طمانچہ‘‘ زور دار رہا، تو اس بار عفت زرّیں اور شبوشاد شکارپوری سے ’’آپ کا صفحہ‘‘ سے دو قدم پہلے ہی ملاقات ہوگئی۔ اور یہ کیا غضب کہ نادیہ ناز کی اعزازی چٹھی بھی آپ کے جواب سے محروم رہی، قبل ازیں سالِ گزشتہ بندے کی بھی اِک اعزازی چٹھی بے جواب تھی ۔ (محمّد سلیم راجا، لال کوٹھی، فیصل آباد)

ج: اگر کسی خط میں کوئی جواب طلب بات ہی نہ ہو، تو ایویں ای ٹکریں مارتے پھریں۔ اب اتنے بھی ویلے نہیں ہیں ہم… اور اعزازی چٹھی تو خود اپنے تئیں ایک اعزاز، لاجواب ہوتی ہے۔ اُس کا جواب تو ہونا ہی نہیں چاہیے۔

گوشہ برقی خُطوط

  • دو تین ہفتوں سے سنڈے میگزین سے ناقابلِ فراموش کا صفحہ غائب ہے۔ پلیز، جیسے تیسے بھی کرکے یہ صفحہ ضرور شیڈول کیا کریں کہ یہ بے شمار لوگوں کا مَن پسند صفحہ ہے۔ اور’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کا صفحہ مستقل کرنے پر ہم آپ کی جتنی تعریف کریں، کم ہے۔ (ثناء شیرانی، کراچی)

ج: رعنا فاروقی صاحبہ کی علالت کے سبب کچھ ہفتوں تک صفحہ شیڈول نہ ہوسکا، لیکن اب یہ صفحہ محمّد ہمایوں ظفر مرتّب کررہے ہیں۔ اور جیسے جیسے قابلِ اشاعت واقعات وصول پارہے ہیں، اُنہیں شایع کرنے کا اہتمام بھی کیا جارہا ہے۔ نیز، قارئین کی ایک دیرینہ شکایت بھی دُور کردی گئی ہے اور اب اس صفحے پر بھی باقاعدگی سے ناقابلِ اشاعت تخلیقات کی فہرست شایع کی جائے گی۔

  • کیا مَیں اپنی تخلیقات اسی ای میل آئی ڈی پر بھیج سکتا ہوں؟ (شعیب حنیف)

ج:جی بالکل بھیج سکتے ہیں، مگر تحریر رومن میں ہرگز نہ لکھی جائے۔

  • اگر میگزین میں کوئی آرٹیکل شایع کروانا ہو، تو اس کا کیا طریقۂ کار ہے۔(رفیعہ وہاب)

ج: آرٹیکل اردو اِن پیج فارمیٹ میں کمپوز کرکے یا تو اِسی آئی ڈی پر ای میل کر دیں یا پھر بذریعہ ڈاک بھی بھیجا جاسکتا ہے۔ ہمارے مندرجات سے مطابقت رکھتا ہوگا اور قابلِ اشاعت بھی ہوگا، تو باری آنے پر شایع ہوجائے گا۔

  • گزشتہ سال اپنی ایک استاد کے کہنے پر سنڈے میگزین کا مطالعہ شروع کیا اور تب سے باقاعدگی سے پڑھ رہی ہوں۔ الحمدللہ، مَیں اپنی استاد کی بہت شُکر گزار ہوں کہ انہوں نے میری بہترین رہنمائی فرمائی۔ ایک چھوٹے سے جریدے سے گھر بیٹھے کیا کیا کچھ نہیں حاصل ہوجاتا۔ سچ کہوں تو میرے لیے یہ میگزین معلومات کا پورا جہاں ہے۔ جس سے مجھے اپنے کئی اسائنمنٹس کی تیاری میں بھی خاصی مدد ملی۔ (صبا مہرین)

ج: ارے واہ صبا.....یہ تو بہت ہی اچھی بات ہے۔ بس اب تم اس ’’سنڈے میگزین فیملی‘‘ کا حصّہ بنی ہی رہنا۔

  • کیا میں سنڈے میگزین کے لیے اپنی کہانی ای میل کرسکتی ہوں۔ (ڈاکٹر ارفع علی)

ج:جی ضرور۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk

تازہ ترین