• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرے ایک مخلص دوست جو گزشتہ 20پچیس سال سے کینیڈا میں رہائش پذیر ہیں، جن کا شمار کراچی کے صنعت کاروں میں ہوتا تھا مگر ضیاء الحق مرحوم کے دور میں کراچی کے ہنگاموں سے تنگ آ کر پاکستان سے نقل مکانی کر گئے تھے۔ اکثر مجھے ای میل کے ذریعے اپنے اور کینیڈا میں رہنے والے پاکستانیوں کے خیالات سے آگاہ کرتے رہتے ہیں اور جب بھی راقم کینیڈا جاتا ہے تو وہ بڑے خلوص کے ساتھ ملتے ہیں۔ آج ان کی ای میل ملی تو وہ بہت ناراض سے لگے۔ اگرچہ انہوں اس سے پہلے بھی وہ جب ڈاکٹر طاہر القادری نے کینیڈا سے اچانک پاکستان آ کر جو سیاسی دنگل کیا اس پر بھی بہت ناراضی کا اظہار کیا تھا اور جب ہمارے چیف جسٹس نے غیر ملکی پاسپورٹ رکھنے والے پاکستانیوں کو نااہل قرار دیا تو وہ اس سلسلے میں اپنی رائے دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ عدلیہ کو اس پر نظرثانی کرنی چاہئے کیونکہ غیر ملکی پاسپورٹ اتنی آسانی سے نہیں ملتا۔ اس کیلئے5دس سال اس ملک میں گزارنے پڑتے ہیں اور تعلیم ، نوکریاں اور اچھے اچھے کام کرنے پڑتے ہیں ۔ ان تمام مشکل مراحل سے گزر کر ہی وہاں کی شہریت ملتی ہے۔ اپنے خاندان، گھر والوں، بیوی بچوں، دوست اقارب سے دور رہ کر سردی گرمی، اجنبی لوگوں میں رہ کر ان کے طرح طرح کے کھانے، بد مزاج لوگوں کے طعنے سن کر ان کو غیر ملکی پاسپورٹ ملتا ہے پھر پاکستان کی محبت میں یہی غیر ملکی پاسپورٹ رکھنے والے ان تمام ملنے والی غیر ملکی آسائشوں کو چھوڑ کر پاکستان کی محبت میں اقارب داروں کی رفاقت کی خاطر واپس پاکستان آتے ہیں ۔ اپنی تعلیمات کا نچوڑ اپنے مسلمان بھائیوں میں پھیلاتے ہیں ۔ خواہ وہ تعلیم کے میدان کے ماہر ہوں یا پھر ڈاکٹر ز، پروفیسرز ، سرجن ، انجینئر ہوں پاکستان کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں ۔ بہت سے لوگوں کو تو ان کے مالکان لاکھ روکتے ہیں ، ڈراتے ہیں کہ پاکستان جا کر کیا کرو گے، نہ وہاں اتنی اچھی نوکریاں ملیں گی، نہ اتنی اچھی تنخواہیں ،آسائشیں ملیں گی اور اب تو پاکستان میں تمہاری آبرو، دولت اور جان و مال بھی محفوظ نہیں ہے پھر کیوں واپس جا رہے ہو مگر شاباش ہے ان محب وطن پاکستانیوں کو، سب کچھ بُرا جانتے ہوئے ان کی پیشکش ٹھکرا کر نئے سرے سے پاکستان کے عوام کی خدمت کرنے کی خواہش لے کر پاکستان لوٹتے ہیں تو ان کو کیا ملتا ہے۔ ان ممالک میں وہ ڈالروں، پاؤنڈ اور یورو میں کھیل رہے ہوتے ہیں مگر وہ تعلیم مکمل ہونے کے بعد پاکستان کو ترجیح دیتے ہیں ۔ ہم ان کی ان قربانیوں کو بھلا کر اگر انہوں نے سیاست میں حصہ لیا تو ہم ان کو آج ذلیل کرنے میں تُلے ہوئے ہیں۔ غیر ملکی پاسپورٹ تو صرف آنے جانے کی سہولت کا کام دیتا ہے ۔ وہ ان سے پاکستانی ہونے کا ثبوت تو زائل نہیں کرتا۔ خود سوچئے اگر انہیں غیر ملکی کہنے اور کہلوانے کا شوق ہوتا تو بھلا وہ پھر پاکستان کیوں آتے۔ دیارِ غیر میں انہیں کس چیز کی کمی تھی ۔ ان کو پاکستان آنے کیلئے کس نے ورغلایا تھا ۔ وہ کونسی کشش تھی جو ان کو پاکستان کی طرف کھینچ رہی تھی ۔ وہ صرف اور صرف پاکستانی خون تھا جو ان کو پاکستان واپس لانے کیلئے ان کے ضمیر کی آواز تھی ۔ جس مٹی نے ان کو سب کچھ دیا انہوں نے اس مٹی کا حق ادا کیا ۔ وہ آگے لکھتے ہیں خدارا ان پاکستانیوں کو سیاست میں آنے کے بعد صرف پاسپورٹ کی وجہ سے باہر نہ کریں ۔ ان کا تجربہ اور خلوص دیگر سیاست دانوں سے بہت بہتر ہے اور قوم کو ان کے تجربے سے مستفید ہونے دیں ۔ اگر سیاستدانوں کو جن کے پاس غیر ملکی شہریت ہے وہ نااہل ہیں تو ہزاروں غیر ملکی شہریت رکھنے والے ڈاکٹرز ، انجینئرز اور پروفیسرز کو بھی نااہل قرار دینا چاہئے اور ان کے تعلیمی سرٹیفکیٹ بھی منسوخ ہونے چاہئیں ۔ صرف سیاستدان ہی کیوں؟ غیر ملکی پاسپورٹ رکھنے والوں کی شق آنے والے الیکشن سے بھی قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور کروا کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم کروا دیں۔آخر میں لکھتے ہیں کہ دیار ِ غیر میں پاکستانیوں کو ووٹ دینے کے حق کا کریڈٹ سپریم کورٹ کو جاتا ہے۔ کم از کم ہم اپنے آپ کو فخریہ پاکستانی سمجھ کر اپنا ووٹ استعمال کر سکیں گے ۔ اس کیلئے ہنگامی اقدامات کر کے اس آنے والے الیکشن کیلئے ممکن بنا دیں ۔ 68سال بعد یہ ہمارا بنیادی حق دیر ہی سے سہی بحال تو ہوا مگر اس کا استعمال ابھی تک شکوک و شبہات کا شکار ہے۔ لاکھوں پاکستانیوں کو دیار ِ غیر میں خدارا اس حق کو ضرور استعمال ہونے کا موقع فراہم کر کے ان کی دعاؤں کو سمیٹیں ۔ ویسے بھی یہ الیکشن ابھی تک خواب بنے ہوئے ہیں ۔ پورے ملک میں افراتفری، دہشت گردی ، قتل و غارت ہمارے سہمے ہوئے پاکستانی عوام ان دھماکوں، دھرنوں سے نکل کر پولنگ اسٹیشن کیسے جا سکیں گے ۔ جہاں پولیس بے بس ، رینجرز خاموش اور فوج تماش بین بن چکی ہے، جسے ہزاروں بے گناہوں کا خون جو روز کراچی اور بلوچستان میں بہہ رہا ہے بالکل نظر نہیں آتا۔ خفیہ ہاتھوں کا گھناؤنا کھیل ہر پاکستانی کو ہلا چکا ہے ۔ ہمارے رکھوالوں کو کیوں بے حس کر رکھا ہے ۔ آنے والے دنوں میں کہاں سے کہاں پہنچے گا ۔ اس خون کا کون حساب دے گا ۔ سرحد سے باہر کی حفاظت سے زیادہ اب سرحد کے اندر کی حفاظت کی ضرورت ہے ۔ اگر الیکشن فوج کی نگرانی میں نہیں ہوئے تو پھر پولنگ اسٹیشنز کا اللہ حافظ ہو گا ۔ اس ای میل کے آخر میں میرے دوست نے یہ بھی لکھا ہے کہ آپ محسن ِ قوم ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو مشورہ دیں کہ خدارا آپ اس پاکستان کی سیاست میں اپنے پاک قدم نہ ڈالیں جو ہمارے سیاست دانوں کی وجہ سے عوام کے خون میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔ قوم ان کا احترام بھی عبدالستار ایدھی کی طرح کرتی ہے جنہوں نے اس گندی خون آلود سیاست سے اپنے آپ کو ہمیشہ دور رکھا، آپ بھی اس سے دور رہیں اللہ آپ کی حفاظت کرے،آمین ۔
تازہ ترین