مختار مسعود اپنی لازوال تصنیف،’’ آوازِ دوست‘‘ میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ’’سرسیّد کا مزار ہماری جماعت کے نزدیک ہی تھا۔ مسجد میں داخل ہوں، تو شمالی جانب قبروں کی جو قطار ہے، اس کے وسط میں سرسیّد کا مزار ہے۔ ہم نے بارہا لوہےکے جنگلے کو تھام کر حیرت سے اس قبر کو دیکھا۔یہی وہ شخص ہے، جس نے ریلوے اسٹیشن پر ’’ہندو پانی‘‘ کی آوازیں سُنیں، توان کے جواب میں ’’مسلمان تعلیم‘‘ کا نعرہ لگایا۔ہندو پانی اور مسلمان پانی کا فرق اور مفہوم کچھ عرصے کے بعد دو لفظوں میں یوں ادا ہونے لگا، علی گڑھ اور بنارس۔
ان دو شہروں کے درمیان جو فاصلہ تھا، وہ بڑھتا رہا، یہاں تک کہ دو نئے لفظ سُننے میں آئے، پاکستان اور بھارت۔‘‘ آگے چل کر لکھتے ہیں کہ’’ یہ نام ہم قافیہ تو نہیں، مگر ہم وزن ضرور ہیں۔ کل یہ شر دھانند، مونجے اور ساورکر کہلاتا تھا، آج اسےٹنڈن اور مکرجی کہتے ہیں۔ کل اسے مدھوک اور گوالکر کہا جائے گا۔ سچ ہی تو کہتے ہیں کہ ہندومذہب میں آوا گون برحق ہے۔‘‘ اگر آج وہ دانش مند، زِیرک مصنّف حیات ہوتے، تو ہندو قوم پرستوں کی فہرست میں نریندر مودی اور اُن کے رفقا کو ضرور شامل کرتے، جنہوں نے بھارتی مسلمانوں پہ زمین تنگ کردی ہے۔
31دسمبر دہلی کی ایک سو برس سے زاید تاریخ کا سرد ترین دن تھا، لیکن خون جما دینے والی ٹھنڈ بھی شاہین باغ کے گرد و نواح میں رہنے والی خواتین کو گزشتہ دو ہفتوں سے سڑک پہ بنے اپنے ٹھکانے سے نہ ہٹا سکی۔ دبیز کمبل اور گرم چائے کی پیالیاں تو محض لہو گرم رکھنے کا بہانہ ہیں، جب کہ درحقیقت نئے قانون کے خلاف مزاحمت نے، جسے انقلابی نغموں سے مزید تقویت مل رہی تھی، انہیں چٹان بنا دیا ہے۔ یہ خواتین متنازع شہریت ترمیمی ایکٹ کے خاتمے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ اس امتیازی قانون کی رُو سے پاکستان، بنگلا دیش اور افغانستان سے آنے والے غیر مسلم تارکینِ وطن کو تو تحفّظ دیا گیا ہے، مگر مسلمانوں کو بے وطن ہونے اورحراست میں لیے جانے کا خوف کھائے جا رہا ہے۔
گرچہ دھرنے میں غیر مسلم خواتین بھی شریک ہیں، لیکن اکثریت ایسی باحجاب اور بُرقع پوش خواتین کی ہے کہ جو سودا سلف کی خریداری کے لیے بھی کبھی گھر سے تنہا نہیں نکلیں۔ بھارتی دارالحکومت کے علاقے، کالندی کنج کے شاہین باغ میں 15دسمبر سے جاری اس طویل ترین دھرنے میں اب تک لاکھوں افراد شرکت کر چُکے ہیں، جن میں 80سے 90برس کی عُمر تک کی خواتین بھی شامل ہیں۔ 4دسمبر 2019ء کو بھارتی کابینہ کی جانب سے متنازع شہریت ترمیمی بل منظور کیے جانے کے بعد سے ان سطور کی اشاعت تک بھارت کے مختلف حصّوں میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ مظاہروں کا آغاز آسام، نئی دہلی، میگھالیہ، اروناچل پردیش اور تری پورہ سے ہوا اور پھر چند ہی روز میں یہ بھارت بھر میں پھیل گئے۔
گرچہ نئے قانون کی مخالفت کی کئی وجوہ ہیں، لیکن مظاہرین اسے مسلم مخالف اور غیر آئینی قرار دیتے ہوئے منسوخ کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ مظاہرین کو اس بات پر بھی تشویش لاحق ہے کہ این آر سی (نیشنل رجسٹرفار سٹیزنز) پر عمل درآمد سے انہیں رجسٹری میں شمولیت کے لیے اپنی بھارتی شہریت ثابت کرنا پڑے گی اور تمام شہری متاثر ہوں گے۔ متنازع ترمیمی بل کے خلاف شدید ردِ عمل کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مظاہروں کے دوران پولیس اورہندو انتہا پسندوں کی فائرنگ سے اب تک درجنوں شہری ہلاک ہو چُکے ہیں اور سیکڑوں زیرِ حراست ہیں، جن میں سیاسی رہنما بھی شامل ہیں۔
احتجاج کے دوران مشتعل مظاہرین کی جانب سے نجی و سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے علاوہ بسوں اور ریل گاڑیوں کو بھی نذرِ آتش کیا گیا۔ بھارت کی کئی اہم سیاسی، سماجی، قانونی ، علمی اور شوبِز شخصیات بھی قانون کے خلاف سڑکوں پر نکل آئیں، جب کہ انڈین نیشنل کانگریس کی رہنما، پریانکا گاندھی اور مغربی بنگال کی وزیرِ اعلیٰ، ممتا بنر جی نے مارچ اور ریلیوں کی قیادت بھی کی۔
متنازع قانون کے خلاف بھارتی سپریم کورٹ میں 60سے زاید درخواستیں جمع کروائی گئیں، مختلف ریاستی اسمبلیوں میں اس کے خلاف قرار دادیں پیش کی گئیںاور 8ریاستوں نے متنازع قانون پر عمل درآمد سے انکار کر دیا۔ نیز، بیرونِ مُلک مقیم بھارتی شہری بھی نئے قانون کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔
شہریت ترمیمی بل2019ء ،متنازع کیوں ہے؟
شہریت ترمیمی بل 2019ء بھارتی پارلیمنٹ کی جانب سے 11دسمبر 2019ء کو منظور کیا گیا۔ شہریت ایکٹ 1955ء میں کی گئی ترمیم کے ذریعے دسمبر 2014ء تک پاکستان، بنگلا دیش اور افغانستان سے نقل مکانی کرنے والے ہندو مَت، سِکھ مَت، بودھ مَت، جَین مَت اور پارسی و عیسائی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کی بھارتی شہریت کی راہ ہم وار کی گئی۔ تاہم، مسلمانوں کو اس کا اہل نہیں سمجھا گیا اور یوں یہ ایکٹ پہلی مرتبہ بھارتی قانون کے تحت شہریت کے لیے مذہب کو اعلانیہ مسلّمہ اصول کے طور پر استعمال کرنے کی مثال بن گیا۔
متنازع شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف اس وقت بھارت سمیت مختلف ممالک میں مظاہرے جاری ہیں، جن میں مسلمانوں کے علاوہ ہندوئوں سمیت دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد بھی بڑھ چڑھ کر حصّہ لے رہے ہیں۔ نیز، بھارت کی مختلف سیاسی جماعتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے بھی ہندو انتہا پسند جماعت، بی جے پی (بھارتیہ جنتا پارٹی) کی حکومت پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ یاد رہے کہ بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں پڑوسی ممالک سے ترکِ سکونت اختیار کر کے بھارت میں پناہ لینے والی مذہبی اقلیتوں کو بھارتی شہریت دینے کا وعدہ کیا تھا۔
ترمیم کی رُو سے 31دسمبر 2014ء تک بھارت میں داخل ہونے والے اُن افراد کو، جو اپنے آبائی مُلک میں مذہبی ایذا رسانی کا شکار تھے یا جنہیں اس کا خطرہ تھا، بھارتی شہریت کے لیے اہل قرار دیا گیا۔ نیز، حقوقِ قومیت کے لیے رہائش کی شرط کو بھی نرم کر کے 12سے 6برس کر دیا گیا۔ انٹیلی جینس بیورو آف انڈیا کے مطابق مذکورہ قانون سے فوری طور پر 31ہزار 313پناہ گزینوں کو فائدہ ہو گا، جن میں 25ہزار447ہندو، 5ہزار 807سِکھ، 55 عیسائی، 2بودھ مَت اور 2پارسی باشندے شامل ہیں۔مذہبی امتیاز، بالخصوص مسلمانوں کو خارج کرنے کی وجہ سے شہریت ترمیمی بل پر بڑے پیمانے پر تنقید کی جا رہی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس قانون کو نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز کے ساتھ استعمال کیا جائے گا، جس کے سبب ایسے متعدد مسلمان شہری بے وطن ہو جائیں گے کہ جو پیدایش یا شناخت کے ثبوت کی کڑی شرائط پر پورے نہیں اُتر سکتے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ اس قانون کی رُو سے پاکستان، بنگلا دیش اور افغانستان سے نقل مکانی کرنے والے ہندوئوں، سِکّھوں، بودھ مَت باشندوں، عیسائیوں، پارسیوں اور جین مَت کے پیرو کاروں کو تو شہریت ثابت کرنے کے لیے ضروری دستاویزات فراہم نہ کرنے کے باوجود بھی بھارتی شہریت مل جائے گی، لیکن مسلمان تارکینِ وطن در بدر ہو جائیں گے، کیوں کہ اُنہیں بل میں شامل نہیں کیا گیا۔ مبصّرین نے ترمیمی بل سے تبّت، سری لنکا اور میانمار کی متاثرہ مذہبی اقلیتوں کے اخراج پر بھی سوالات اُٹھائے ہیں۔
دوسری جانب بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ پاکستان، افغانستان اور بنگلا دیش جیسے ممالک کا ریاستی مذہب، اسلام ہے، لہٰذا وہاں مسلمانوں کو مذہبی بنیادوں پر ہراساں نہیں کیا جاتا۔ تاہم، قانون سازی کے مرحلے ہی میں متنازع شہریت بل پر بھارت میں بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہو گئے۔ آسام اور دوسری شمال مشرقی ریاستوں میں بل کے خلاف پُر تشدّد ہنگامے ہوئے، کیوں کہ ان ریاستوں کے عوام کو اس بات کا خوف لاحق ہے کہ پناہ گزینوں اور تارکینِ وطن کو بھارتی شہریت دینے سے نہ صرف اُن کے سیاسی، ثقافتی اور زمینی حقوق متاثر ہوں گے، بلکہ اس کے نتیجے میں بنگلا دیش سے مزید نقل مکانی کی بھی حوصلہ افزائی ہوگی، جب کہ بھارت کے دوسرے حصّوں میں مظاہرین نے بل کو امتیازی قرار دیتے ہوئے مسلمان تارکینِ وطن اور پناہ گزینوں کو بھی بھارتی شہریت دینے کا مطالبہ کیا۔ اس سلسلے میں بڑے مظاہرے بھارت کی مختلف جامعات میں ہوئے۔ اس موقعے پر علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی اور جامعہ ملّیہ اسلامیہ کے طلبہ نے پولیس کی جانب سے مظاہروں کی روک تھام کے لیے غیر انسانی سلوک کا الزام عاید کیا۔
بھارت کے قانونِ شہریت میں ہونے والی ترامیم
بھارتی حکومت نے 1955ء میں سٹیزن ایکٹ منظور کیا۔ اس قانون کی رُو سے غیر مُلکی باشندے دو طریقوں سے بھارتی شہریت حاصل کر سکتے تھے۔ غیر منقسم ہندوستان سے تعلق رکھنے والے افراد بھارت میں رہایش کے 7برس بعد شہریت حاصل کر سکتے تھے، جب کہ دوسرے ممالک سے تعلق رکھنے والے باشندوں کو قیام کے 12برس بعد حقِ شہریت دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ 1980ء کی دہائی میں آسام میں بنگلا دیشی تارکینِ وطن کے خلاف پُر تشدّد تحریک کے نتیجے میں 1985ء میں معاہدۂ آسام پر دست خط کے بعد پہلی مرتبہ سٹیزن شپ ایکٹ میں ترمیم کی گئی۔
مذکورہ معاہدے کے تحت اُس وقت کے بھارتی وزیرِ اعظم، راجیو گاندھی نے غیر مُلکی شہریوں کی نشان دہی، انہیں انتخابی فہرستوں سے ہٹانے اور مُلک سے نکالنے پر آمادگی ظاہر کی۔ بعد ازاں، 1992ء، 2003ء، 2005ء اور 2015ء میں سٹیزن شپ ایکٹ میں مزید ترامیم کی گئیں۔ دسمبر 2003ء میں ہندو قوم پرست جماعت، بھارتیہ جنتا پارٹی کی زیرِ قیادت نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کی حکومت نے سٹیزن ترمیمی ایکٹ 2003ء منظور کیا۔ اس ترمیم کے ذریعے ایکٹ میں ’’غیر قانونی تارکینِ وطن‘‘ کا اضافہ کیا گیا۔ انہیں شہریت کی درخواست دینے کے لیے نا اہل قرار دیا گیا اور ساتھ ہی ان کے بچّوں کو بھی غیر قانونی تارکینِ وطن قرار دیا گیا۔ ’’غیر قانونی تارکینِ وطن‘‘ کو ایسے غیر مُلکی شہری قرار دیا گیا کہ جو جائز قانونی دستاویزات کے بغیر بھارت میں داخل ہوئے ہوں یا پھر سفری دستاویزات میں دیے گئے دورانیے کے اختتام کے بعد بھی مُلک میں مقیم ہوں اور ان تارکینِ وطن کو مُلک بدر کرنے کے علاوہ جیل بھی بھیجا جا سکتا ہے۔
2003ء کی ترمیم نے بھارتی حکومت کو ’’نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز‘‘ تیار کرنے اور اُسے قائم رکھنے کا اختیار بھی دے دیا۔ اس بل کی انڈین نیشنل کانگریس کے علاوہ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) جیسی جماعتوں نے بھی حمایت کی۔ تاہم، اس موقعے پر پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے متاثرہ مسلمان گروہوں کے ساتھ رحم دلی کو پیشِ نظر رکھا گیا۔
تارکینِ وطن اور بی جے پی کا ایجنڈا
غیر قانونی تارکینِ وطن کی بڑی تعداد، جن میں سے بیش تر بنگلا دیش سے تعلق رکھتے ہیں، بھارت میں مقیم ہے۔ دی ٹاسک فورس آن بارڈر مینجمنٹ نے 2001ء میں ان کی تعداد ڈیڑھ کروڑ بتائی۔ 2004ء میں یونائیٹڈ پروگریسیو الائنس کی حکومت نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ بھارت میں غیر قانونی بنگلا دیشی تارکینِ وطن کی تعداد ایک کروڑ 20لاکھ ہے۔ نقل مکانی کے اسباب میں مسام دار سرحد، نقل مکانی کے قدیم طریقے، اقتصادی وجوہ اور ثقافتی و لسانی روابط شامل ہیں۔
علاوہ ازیں، پاکستانی ہندو پناہ گزینوں کی ایک نا معلوم تعداد بھی بھارت میں مقیم ہے۔ بھارتی حکومت کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں زیرِ عتاب ہندو ہر سال قافلوں کی شکل میں بھارت پہنچتے ہیں۔ غیر قانونی تارکینِ وطن کی نشان دہی اور اُن کی مُلک بدری 1996ء سے بی جے پی کے ایجنڈے پر ہے۔ 2016ء میں سرحدی ریاست، آسام میں انتخابی مُہم کے دوران بی جے پی کے رہنمائوں نے ووٹرز سے وعدہ کیا تھا کہ وہ آسام کو بنگلا دیشی باشندوں سے نجات دلائیں گے۔
اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ وہ بنگلا دیش میں ستائے جانے کی وجہ سے بھارت نقل مکانی کرنے والے ہندوئوں کا تحفّظ بھی یقینی بنائیں گے۔ بی جے پی رہنمائوں کے ان بیانات سے مبصّرین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ پناہ گزینوں کو صرف غیر مسلم ہونے کی صورت ہی میں بھارتی شہریت دی جائے گی، جب کہ مسلمان تارکینِ وطن کو مُلک بدر کر دیا جائے گا۔
شہریت ترمیمی بل 2019ءکی منظوری
بی جے پی کی حکومت نے سب سے پہلے 2016ء میں قانونِ شہریت میں ترمیم کا بل متعارف کروایا، جس میں پاکستان، افغانستان اور بنگلا دیش سے نقل مکانی کر کے بھارت آنے والے تارکینِ وطن کی بھارتی شہریت کے لیے اہل ہونے کی راہ ہم وار کی گئی۔ ہر چند کہ اس بل کو بھارت کے ایوانِ زیریں یا لوک سبھا نے منظور کر لیا، لیکن شمالی مشرقی ریاستوں میں مظاہروں اور بڑے پیمانے پر سیاسی مخالفت کے بعد ایوانِ بالا یا راجیہ سبھا میں یہ بل روک دیا گیا۔ 2019ء کی انتخابی مُہم میں بی جے پی نے قانونِ شہریت میں ترمیم کے عزم کا اعادہ کیا۔
اس موقعے پر بی جے پی کا کہنا تھا کہ ہم سایہ مسلم اکثریتی ممالک میں مذہبی اقلیت ہندوئوں اور سِکّھوں کو ستایا جا رہا ہے۔ نیز، اس نے غیر مسلم تارکینِ وطن کو شہریت دینے کی راہ ہم وار کرنے کا وعدہ بھی کیا۔ انتخابات کے بعد بی جے پی حکومت کی جانب سے تیار کیے گئے بل میں شمال مشرقی ریاستوں کے تحفّظات پر توجّہ دی گئی۔ 17ویں لوک سبھا وجود میں آنے کے بعد 4دسمبر 2019ء کو کابینہ نے شہریت ترمیمی بل 2019ء کی منظوری دی۔
9دسمبر کو وزیرِ داخلہ، امیت شاہ نے اسے پارلیمنٹ کے سامنے پیش کیا اور اگلے ہی روز اسے منظور کر لیا گیا۔ بل کے حق میں 311اور مخالفت میں 80ارکان نے ووٹ ڈالے۔ 11دسمبر کو راجیہ سبھا نے بھی اس کی منظوری دے دی۔ ایوانِ بالا میں بل کے حق میں 125ووٹ ڈالے گئے، جب کہ 105ارکان نے اس کی مخالفت کی۔ 12دسمبر کو بھارتی صدر کی جانب سے منظوری حاصل کرنے کے بعد بل نے باقاعدہ قانون کی شکل اختیار کر لی اور 10جنوری کو نافذ العمل ہو گیا۔
دیگر مذہبی اقلیتوں کا اخراج
متنازع شہریت قانون میں اسلامی ممالک سے تعلق رکھنے والے مسلمان تارکینِ وطن کے علاوہ غیر اسلامی ممالک سے نقل مکانی کرنے والی مذہبی اقلیتوں کے افراد کو بھی شامل نہیں کیا گیا۔ ان پناہ گزینوں میں میانمار سے تعلق رکھنے والے روہنگیا مسلمان، سری لنکا کے ہندو اور تبّت اور چین سے تعلق رکھنے والے بودھ مَت باشندے شامل ہیں۔
یاد رہے کہ 1980ء اور 1990ء کی دہائی میں سری لنکا کے تامل ہندوئوں کو بھارتی ریاست، تامل ناڈو میں پناہ گزین کے طور پر بسنے کی اجازت دی گئی تھی۔ بھارت کا دعویٰ ہے کہ ان افراد نے سری لنکا کی اکثریتی سنہالی کمیونٹی کی پُر تشدّد کارروائیوں سے تنگ آکر یہاں سکونت اختیار کی تھی۔ ان پناہ گزینوں میں 29ہزار 500تامل ہندو شامل تھے۔ مذکورہ قانون تبّت کے بودھ مَت باشندوں کی داد رسی بھی نہیں کرتا، جو 1950ء اور 1960ء کی دہائی میں بھارت منتقل ہوئے تھے اور اُس وقت سے لے کر اب تک پناہ گزین کہلاتے ہیں۔ اسی طرح قانون میں میانمار سے نقل مکانی کرنے والے روہنگیا مسلمانوں کو بھی شامل نہیں کیا گیا اور بھارتی حکومت پہلے ہی انہیں میانمار واپس بھیجنے میں مصروف ہے۔
احتجاج کی لہر
متنازع قانون کے خلاف اپنا ردِ عمل ظاہر کرنے کے لیے شہریوں نے مختلف طریقے استعمال کیے، جن میں مظاہرے، سِول نافرمانی کی تحریک، دھرنے، جلائو گھیرائو، عام ہڑتال و بُھوک ہڑتال، ستیہ گرہ، نجی و سرکاری املاک کی توڑ پھوڑ، پتھرائو اور ہیش ٹیگ کا استعمال وغیرہ شامل ہیں۔4دسمبر 2019ء کو کابینہ کی جانب سے شہریت ترمیمی بل کی منظوری کے بعد بھارت کی مختلف ریاستوں، بالخصوص ریاست آسام کے سب سے بڑے شہر، گوہاٹی میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ علاوہ ازیں، ریاست تری پورہ کے دارالحکومت، اگر تلہ میں بھی مظاہروں کا آغاز ہوا۔
پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔ احتجاج میں شریک آسامی مَرد و خواتین کا کہنا تھا کہ انہیں بنگلا دیشی تارکینِ وطن نہیں، بلکہ امن چاہیے، کیوں کہ تارکینِ وطن اور پناہ گزینوں کی کثرت سے اُن کی ریاست، ثقافت اور مشترکہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچے گا۔ یہ مظاہرے اس قدر شدید تھے کہ گوہاٹی میں ہونے والی بھارت، جاپان سربراہ ملاقات، جس میں جاپانی وزیرِ اعظم، شنزو ایبے کی آمد متوقّع تھی، منسوخ کر دی گئی۔ نیز، امریکا، برطانیہ، فرانس، اسرائیل اور کینیڈا نے بھارت کے شمال مشرقی علاقوں کا سفر کرنے والے اپنے شہریوں کو محتاط رہنے کی ہدایت کی۔
دوسری جانب آسام اور تری پورہ میں کرفیو نافذ کرنے کے علاوہ انٹرنیٹ سروس بھی محدود کر دی گئی اور مظاہرین کی جانب سے کرفیو کی خلاف ورزی کرنے پر فوج کو طلب کر لیا گیا۔ متاثرہ علاقوں میں ریلوے اور ایئر لائنز سروس بھی بند کر دی گئی۔ مذکورہ بالا ریاستوں کے علاوہ کولکتہ، نئی دہلی، ممبئی، بنگلور، حیدر آباد اور جے پور سمیت بھارت کے کئی بڑے شہروں میں بھی مظاہرے ہوئے، جب کہ جنوبی ریاستوں، کیرالا اور کرناٹک میں بھی متنازع بل کے خلاف ریلیاں نکالی گئیں۔ متنازع بل کی منظوری کے بعد بھارتی دارالحکومت، نئی دہلی کے مختلف حصّوں میں بھی پُر تشدّد مظاہرے پُھوٹ پڑے۔ مسلمان مظاہرین کا کہنا تھا کہ نیا قانون مسلمانوں سے امتیاز پر مبنی ہے اور مسلمان تارکینِ وطن اور پناہ گزینوں کو بھی بھارتی شہریت ملنی چاہیے۔
15دسمبر کو پولیس زبردستی جامعہ ملّیہ اسلامیہ کے کیمپس میں داخل ہو گئی اور احتجاج کرنے والے طلبہ کو حراست میں لے لیا۔ اس موقعے پر پولیس نے طلبہ پر لاٹھی چارج کرنے کے علاوہ آنسو گیس بھی استعمال کی، جس میں ایک سو سے زاید طلبہ زخمی ہوئے اور اتنے ہی طلبہ کو حراست میں بھی لے لیا گیا۔ اس واقعے کے نتیجے میں بھارت بھر کے مسلمان سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے متنازع قانون کے خلاف احتجاج شروع کر دیا۔ اس موقعے پر ہندو انتہا پسندوں نےجواہر لال نہرو یونی ورسٹی پر دھاوا بولتے ہوئے لوہے کی سلاخوں اور ڈنڈوں سے درجنوں طلبہ اور اساتذہ کو زخمی کر دیا۔
کانگریس پارٹی نےاپنے یومِ تاسیس کے موقعے پر متنازع قانون کے خلاف ’’بھارت بچائو، آئین بچاؤ‘‘ کے عنوان سے مارچ کیا۔ کیرالہ کی اسمبلی میں ترمیمی بل کی منسوخی کے حق میں پیش کی گئی قراردادواضح اکثریت سے منظور کر لی گئی، جب کہ مشرقی پنجاب کے علاوہ دیگر ریاستی اسمبلیوں میں بھی متنازع قانون کے خلاف قراردادیں پیش کی گئیں۔
شاعری، نعروں اور آرٹ کا استعمال
متنازع بل کے خلاف جاری مظاہروں میں خون گرما دینے والے کئی نعروں اور مشہور نظموں کی گونج بھی سُنائی دی۔ معروف بھارتی اُردو شاعر اور نغمہ نگار، راحت اندوری کا مشہور شعر؎’’ سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹّی میں…کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے‘‘ احتجاج کے دوران گونجتا رہا۔
علاوہ ازیں، معروف انقلابی شاعر، اوتار سنگھ سندھو کی نظم کا شعر؎’’ مَیں گھاس ہوں، مَیں آپ کے کیے دھرے پر اُگ آئوں گا‘‘، بھارتی شاعر، حسین حیدری کی مشہور نظم کا مصرع، ’’مَیں مسلمان ہوں‘‘، بسمل عظیم آبادی کی نظم کا شعر؎’’ سرفروشی کی تمنّا اب ہمارے دل میں ہے…دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے‘‘ اور پاکستانی انقلابی شعرا، فیض احمد فیض اور حبیب جالب کی نظمیں بالتّرتیب ’’ہم دیکھیں گے‘‘ اور ’’ مَیں نہیں جانتا، مَیں نہیں مانتا‘‘ قابلِ ذکر ہیں، جب کہ بھارتی گلوکار اور نغمہ نگار، عامر عزیز نے احتجاج کے لیے ’’مَیں انکار کرتا ہوں‘‘ کے عنوان سے خصوصی نظم لکھی ۔
اردو اور ہندی شاعری کے علاوہ مظاہرین نے مختلف انگریزی نظمیں اور نعرے بھی استعمال کیے۔ ان میں اجمل خان نامی مدرّس کی تخلیق کردہ خود کلامی قابلِ ذکر ہے، جس کے بول کچھ یوں ہیں ،''Write me down! I am an Indian; This is my land, if I have born here, I will die here; There for , Write it down! Clearly in bold and capital letters, On the top of your NRC, that I am an Indian!" علاوہ ازیں، پلے کارڈ پر لکھے انگریزی نعروں میں "Modi-Shah, You gave Me Depression", "Rise against Fascism", Don't be Dead Inside For Democracy", "Fascism, Down Down, " I will show you my documents, if you show your degree", "Make Tea Not War" اور ہندی نعروں میں ’’آزادی‘‘ اور ’’انقلاب زندہ باد‘‘ قابلِ ذکر ہیں۔ احتجاج کے دوران مختلف فن کاروں نے مزاحیہ کارٹونز، خاکے اور پوسٹرز بنا کر متنازع بل کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کیا، جب کہ کئی کارٹونسٹس نے سیاسی کارٹونز بنا کر عوامی ردِ عمل کی نشر و اشاعت میں حصّہ لیا۔
اسی طرح ممبئی میں بھارت اور آسڑیلیا کے درمیان کھیلے گئے کرکٹ میچ کے دوران مظاہرین مخصوص شرٹس پہن کر اسٹیڈیم آئے۔ نئی دہلی میں متنازع قانون کے خلاف نعروں پر مشتمل پتنگیں اُڑا کر ردِ عمل کا اظہار کیا گیا،توخواتین نے 10ہزار سیاہ غُبارے ہوا میں چھوڑ کر قانون سے اپنی ناراضی کا اظہار کیا، جب کہ مغربی بنگال کے شہر، دارجلنگ میں شہریوں نے روایتی لباس پہن اپنی وزیرِ اعلیٰ، ممتا بنر جی کی زیرِ قیادت مارچ میں شرکت کی۔
بھارتی حکومت کا جواب
مظاہروں کے آغاز کے پانچ روز بعد بھارتی وزیرِ اعظم، نریندر مودی نے سلسلہ وار ٹویٹس کے ذریعے عوام سے پُر سکون رہنے کی درخواست کی۔ اُن کا کہنا تھا کہ’’ کسی بھی بھارتی شہری کو اس قانون سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ قانون صرف اُن افراد کے لیے ہے ، جو بیرونِ مُلک برسوں تک زیرِ عتاب رہے اور اُن کے پاس بھارت کے علاوہ کوئی دوسری جائے امان نہیں۔‘‘ جونہی مظاہرین نے شہریت ترمیمی بل کو نیشنل رجسٹر فار سٹینزنز کے ساتھ ملاتے ہوئے ان کے مشترکہ اثرات پر فکر مندی کا اظہار کیا، تو مودی اور امیت شاہ نے یہ کہتے ہوئے معاملہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی کہ ان کی حکومت نے این آر سی پر کوئی بات نہیں کی۔
مظاہروں کے دوران پُر تشدّد واقعات اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچنے پر19دسمبر کو بھارتی حکومت نے نئی دہلی، اُتر پردیش، کرناٹک اور بنگلور میں دفعہ 144نافذ کرتے ہوئے عوامی مقامات پر ایک وقت میں 4سے زاید افراد کے جمع ہونے پر پابندی عاید کر دی، جب کہ چنئی میں پولیس نے مارچ اور ریلیوں سمیت دیگر مظاہروں کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ نیز، دارالحکومت کے کئی حصّوں میں انٹرنیٹ سروس بند کر دی گئی۔ پابندی کی خلاف ورزی کرنے پر کئی اپوزیشن رہنمائوں اور سماجی شخصیات سمیت ہزاروں مظاہرین کو حراست میں لے لیا گیا، جن میں رام چندر گوہا، سیتا رام یچوری، یوگندر یادیو، عُمر خالد، سندیپ ڈِکشٹ، تحسین پونے والا اور ڈی راجا شامل ہیں۔
قانون کے حق میں مظاہرے
متنازع شہریت ترمیمی بل کے حق میں ہندو قوم پرست تنظیم، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے اسٹوڈنٹ وِنگ، اکھیل بھارتیہ ودیارتھی پرشاد کی جانب سے ریلیاں نکالی گئیں۔ مغربی بنگال میں ان ریلیوں کی قیادت بی جے پی کے رہنمائوں نے کی، جنہوں نے ریاستی حکومت پر ریلیاں روکنے کا الزام عاید کیا۔
انہوں نے یہ الزام بھی عاید کیا کہ وزیرِ اعلیٰ، ممتا بنر جی کی جماعت کے ارکان شہریوں کو نئے قانون سے متعلق گُم راہ کُن معلومات فراہم کر رہے ہیں۔ اسی طرح کم و بیش 1,500افراد نے بی جے پی کی جانب سے قانون کے حق میں راجستھان میں نکالی گئی ریلی میں شرکت کی۔ دہلی کے سینٹرل پارک میں لوگوں کی بڑی تعداد نے بل کی حمایت میں مظاہرہ کیا اور سیکڑوں افراد نے پُونے میں جمع ہو کر متنازع ترمیمی بل کے حق میں انسانی زنجیر بنائی۔
اہم اداروں، تنظیموں اور شخصیات کے تبصرے
بھارت کی انٹیلی جینس ایجینسی، ’’را‘‘ نے بھی شہریت ترمیمی بل پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ اس قانون کو غیر مُلکی خفیہ اداروں کے اہل کار بھارت میں قانونی طور پر سرایت کرنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ قومی سلامتی کے سابق مُشیر، شیو شنکر مینن نے اس قانون کو اپنے ہاتھوں سے بھارت کو بین الاقوامی برادری سے الگ تھلگ کرنے کا ہدف قرار دیا ہے۔ بھارت کے سابق سولسٹر جرنل، ہریش سالو کا کہنا ہے کہ یہ بل نہ بھارتی آئین اور نہ ہی سیکولر ازم کے منافی ہے ۔ اسے ایک مخصوص مسئلے کے حل کے لیے بنایا گیا ہے۔
بنگلا دیش میں موجود اقلیتوں کی نمایندگی کرنے والے کم و بیش ایک درجن ممالک کی ممتاز شخصیات اور تنظیموں پر مشتمل ایک گروپ نے اپنے مشترکہ بیان میں متنازع قانون کو ’’انسان دوست‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے ذریعے بھارت نے بنگلا دیش، پاکستان اور افغانستان کی اقلیتوں سے متعلق اپنی ذمّے داریوں کو جُزوی طور پر ادا کیا ہے۔ جمّوں و کشمیر میں سِکّھوں کی نمایندگی کرنے والے تنظیم، ’’نیشنل سِکھ فرنٹ‘‘ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ وہ اس قانون کی حمایت کرتی ہے، کیوں کہ اس کی وجہ سے افغانستان سے بھارت نقل مکانی کرنے والے سِکھ پناہ گزینوں کو رعایت ملے گی۔
دوسری جانب متنازع شہریت ترمیمی بل کی مخالفت پر مبنی ایک پٹیشن پر ایک ہزار سے زاید بھارتی سائنس دان اور اسکالرز دست خط کر چُکے ہیں۔ مذکورہ پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ شہریت کے مسلّمہ اصول کے طور پر مذہب کا استعمال بھارتی آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم ہے، جب کہ اتنی ہی تعداد میں بھارتی ماہرین اور دانش وَروں نے قانون کے حق میں بیانات جاری کیے ہیں۔
بین الاقوامی ردِ عمل
متنازع شہریت قانون پر اقوامِ متّحدہ کے ہائی کمیشن برائے انسانی حقوق نے تنقید کرتے ہوئے اسے ’’بنیادی طور پر امتیازی‘‘ قرار دیا۔ یورپی یونین کے بھارت میں سفیر، اوگو استوتو کا کہنا تھا کہ انہیں قانون پر ہونے والے مباحثے کا نتیجہ بھارتی آئین میں طے کیے گئے معیارات کے مطابق نکلنے کی امید ہے۔ بعد ازاں، بھارتی شہریت ایکٹ میں ترمیم کو بین الاقوامی منشور اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے یورپین پارلیمنٹ میں اس پر بحث کی قرارداد منظور کر لی گئی۔
امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے متنازع قانون منظور ہونے کے بعد امیت شاہ اور دیگر اہم رہنمائوں پر پابندیاں عاید کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس کے جواب میں بھارتی وزارتِ خارجہ نے یہ بیان جاری کیا کہ امریکی ادارے کا بیان غلط اور غیر مناسب ہے۔ امریکا کی ہائوس کمیٹی برائے امورِ خارجہ نے بل پر سوالات اُٹھاتے ہوئے کہا کہ شہریت کے لیے کسی بھی قسم کا مذہبی معیار بنیادی جمہوری اصول کی بیخ کَنی کرتا ہے۔ تاہم، بعد ازاں امریکی وزیرِ خارجہ، مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ بل پر توانا مباحثے کے بعد امریکا، بھارتی جمہوریت کا احترام کرتا ہے۔
رُوس اور فرانس نے قانون سازی کو بھارت کا داخلی معاملہ قرار دیا۔ پاکستانی وزیرِاعظم، عمران خان نے متنازع قانون پر تنقید کی۔ پاکستان کی قومی اسمبلی نے بل کو ’’امتیازی قانون‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ بھارت اور پاکستان کے مابین بالخصوص دونوں ممالک میں موجود اقلیتوں کی سلامتی اور حقوق کے لیے ہونے والے معاہدوں اور سمجھوتوں کی خلاف ورزی ہے۔ بنگلا دیشی وزیرِ خارجہ، اے کے عبدالمومن کا کہنا تھا کہ متنازع بل سے بھارت کا سیکولر ریاست کے طور پر کردار کم زور ہو گا۔
انہوں نے اپنے مُلک میں مذہبی اقلیتوں کو ستائے جانے کا بیان مسترد کیا۔ دوسری جانب بنگلا دیشی وزیرِ اعظم، حسینہ واجد نے ’’گلف نیوز‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ’’ بھارت کے اندر لوگوں کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ ایسے میں بھارتی حکومت کا یہ فیصلہ سمجھ سے بالاتر اور غیر ضروری ہے۔‘‘ خاتون وزیرِاعظم نے متنازع قانون کو بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دیا اور یہ بھی کہا کہ اُن کے بھارتی ہم منصب نے انہیں نقل مکانی کرنے والوں کو واپس نہ بھیجنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ او آئی سی نے فکر مندی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی حکومت مسلمان اقلیت کا تحفّظ اور اقوامِ متّحدہ کے منشور کی پیروی کرے۔
سابق افغان صدر، حامد کرزئی نے بھارتی خبر رساں ادارے، ’’دی ہندو‘‘ سے گفتگو میں کہا کہ بھارت کو تمام اقلیتوں کے ساتھ یک ساں برتائو کرنا چاہیے۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’’ہم ایک طویل عرصے سے حالتِ جنگ میں ہیں اور افغانستان میں مسلمانوں، ہندوئوں اور سِکّھوں تینوں ہی کو مشکلات کا سامنا ہے۔‘‘