• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جج کیخلاف تحقیقات کا اختیار ایسٹس ریکوری یونٹ کو کس نے دیا؟ اٹارنی جنرل مطمئن کریں، سپریم کورٹ

اسلام آباد(نمائندہ جنگ) جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس کے کے آغا کے خلاف صدارتی ریفرنس کیخلاف دائر د رخواستوں کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نےاٹارنی جنرل کو اپنے دلائل اور وکلاء کے دلائل کا جواب دینے کی تیاری کے لئے17 فروری تک مہلت دیتے ہوئے آئندہ سماعت پر انہیں ان نکات پر عدالت کو مطمئن کرنے کی ہدایت کی ہے، اول یہ کہ اعلیٰ عدلیہ کے کسی بھی جج کے خلاف تحقیقات کرنے کا اختیار ایسٹس ریکوری یونٹ کو کس نے دیاہے ؟

دوئم حکومتی حکام نے کس قانون کے تحت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس کے کے آغا کے خلاف دائر صدارتی ریفرنسز کو پبلک کیا ہے؟

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10رکنی فل کورٹ بنچ نے پیر کے روز کیس کی سماعت کی تو اٹارنی جنرل انور منصور خان پیش ہوئے اور عدالت کے سابق حکم کی روشنی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کے چند روز قبل ایف بی آر میں جانے سے متعلق رپورٹ پیش کرتے ہوئے ان کاخط اورایف بی آرکا جواب جمع کروایا۔

انہوں نے بتایا کہ بیگم قاضی فائز نے انکم ٹیکس حکام کو خط لکھ کر موقف اختیار کیا ہے وہ 1989 سے ایف بی آر کراچی میں اپنے مالیاتی گوشوارے جمع کرواتی رہی ہیں،تاہم انھوں نے 2008میں مالیاتی گوشوارے جمع کروانے چھوڑ دیے تھے کیونکہ ان کی آمدن پر ٹیکس لاگو نہیں ہوتا تھا۔

خط کے مطابق ان کے متعلقہ وکیل نے بیگم قاضی کوبتایا تھا کہ قانون تبدیل ہوگیا ہے اس لیے اب ان کا مالیاتی گوشوارے جمع کروانا ضروری ہے، بیگم قاضی نے ایف بی آر میں جاکر یہ اعتراض بھی کیا ہے کہ ان کو مطلع کیے بغیر ہی ان کا مالیاتی گوشوارے جمع کروانے کا ایڈریس کراچی سے اسلام آباد کیوں منتقل کیا گیاہے ؟ 

بیگم قاضی نے 2008 سے لیکر 2011 تک کے مالیاتی گوشوارے مینوئل طریقے سے پرکیے تھے جبکہ2012 سے لیکر 2014تک کے ٹیکس ریٹرن آن لائن جمع کروائے تھے۔

انہوں نے عدالت کے استفسار پر ایف بی آر کی جانب سے بتایا کہ انکم ٹیکس حکام نے بیگم قاضی کا ایڈرس دوبارہ کراچی کا لکھ دیا ہے اور انھیں اس بارے میں مطلع بھی کردیا گیا ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آئینی نکات پر درخواست گزاروں کے وکلاء نے جو دلائل پیش کئے ہیں آپ نے ان کے جوابات کے ساتھ ساتھ 2نکات کالازمی جواب دینا ہے ،پہلا نکتہ یہ ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے کسی بھی جج کے خلاف تحقیقات کرنے کا اختیار ایسٹس ریکوری یونٹ کو کس نے دیاہے؟

دوئم کس قانون کے تحت حکومتی حکام نے ریفرنس کو پبلک کیا ہے، اٹارنی جنرل صاحب، ان دونوں قانونی نکات کے جواب بہت اہم ہیں۔

قبل ازیں پشاور ہائیکورٹ بار اورخیبر پختونخوا بار کونسل وغیرہ کے وکیل طارق خان ہوتی نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ صدر مملکت کو ہر حال میں اپنی غیر جانبداری کو برقرار رکھنا ہوتا ہے۔

تازہ ترین