• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سائنسدانوں نے تشویش ظاہر کی ہے کہ دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی آبادی کا طوفان اور پھیلتی آلودگی کے باعث پانی کیلئے جنگوں کے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں۔ جرمنی کے پروفیسر ولیم ہاگن نے کہا ہے کہ ’’ہم تیل پر جنگیں لڑ چکے، یہ ہماری زندگی میں ہی لڑی گئیں، اس طرح پانی پر جنگیں بھی ممکن ہیں۔ یہ ہماری زندگی ہی میں ہوں یا آئندہ نسل اسکا خمیازہ بھگتے‘‘ یہ بات اس رپورٹ میں کہی گئی ہے جو ’’ورلڈ واٹر ویک‘‘ کانفرنس کے ختم ہونے پر کتابی صورت میں شائع کی گئی۔ امریکہ کے پروفیسر نیچرل ریسورسز مچل نے کہا ہے کہ مجھے نہیں معلوم کہ ناآسودہ علاقوں کو خشک سالی، وبائی امراض اور پانی کےحصول پر متوقع جنگوں سے کون روکے گا اور اس حقیقت سے کون جھنجھوڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا ان ممالک میں شامل ہیں جہاں ان جنگوں کا خطرہ ہے۔ انٹرنیشنل واٹر مینجمنٹ انسٹی ٹیوشن نے بھی اپنی حالیہ رپورٹ میں نشاندہی کی ہے کہ موجود ہ روش پر چلنے سے تصادم کا خطرہ بڑھ رہا ہے کہ دنیا بھر کی نہایت تیزی سے بڑھتی ہوئی انسانی آبادی کے باعث پانی کی سپلائی پر دبائو بڑھ گیا ہے۔ 2025ءمیں ہم مزید دو ارب افراد کو پانی فراہم کر رہے ہوں گے۔

ایک اندازے کے مطابق واٹر سیکٹر میں ہر سال 80ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوتی ہے مگر پانی کی ضرورت اس سے دگنی سے بھی زیادہ ہے۔ میں نے اپنے ایک کالم میں کافی عرصہ پہلے عرض کردیا تھا کہ پاکستان میں فی کس پانی کی فراہمی جو 1951ء میں 5650مکعب میٹر تھی 1999ءمیں کم ہو کر 1450مکعب میٹر رہ گئی ہے جبکہ آئندہ چند برسوں میں یہ مزید کم ہو کر 1030مکعب میٹر رہ جائے گی اور ملک میں موجود زیرِ زمین پانی کی سطح قریباً50 فٹ مزید نیچے چلی جائے گی جس سے پاکستان پانی کی قلت والا ملک بن جائیگا۔ ایک حالیہ ڈچ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 70فیصد پانی آبپاشی جبکہ 23فیصد صنعتی ضروریات اور 8فیصد گھریلو ضروریات کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ آبپاشی کا ر قبہ جو کہ پہلے کی نسبت26فیصد بڑھ گیا ہے۔ اس سے پانی کی ضروریات میں بھی 26فیصد اضافہ ہو چکا ہے جبکہ تازہ پانی کی مانگ میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کی خوراک کی ضروریات پوری کرنے کیلئے زرعی زمین اور زرعی پیداوار میں اضافہ ناگزیر ہے۔ اقوامِ متحدہ کے منشور کی ایک شق کے مطابق حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ہرشہری کو روز کم از کم 5لیٹر پانی پینے کیلئے 5لیٹر کھانا پکانے کیلئے، 45لیٹر نہانے کیلئے اور 25لیٹر دھونے اور صفائی کیلئے فراہم کرے اسکے علاوہ دیگر ضروریات کی تکمیل کیلئے 40لیٹر پانی حاصل کرنا ہر شہری کا حق ہے گویا 120لیٹر پانی فی کس ہر روز ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ ہمارے ملک کا یہ حال ہے کہ پانی کے حصول کے ذرائع روز بروز کم ہوکر اب اپنے آخری کناروں کو چھو رہے ہیں۔ ان ‘‘ذرائع‘‘ سے ملک زیادہ سے زیادہ اوسطاً سالانہ 144 ملین ایکڑ فٹ پانی حاصل کر سکتا ہے جبکہ پانی کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ زراعت کے شعبے کے علاوہ بھی پاکستان میں دوسرے شعبوں میں پانی کی مانگ بڑھ رہی ہے۔ حکومت وزارتِ پانی و بجلی اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے اشتراک سے پاکستان میں پانی کے شعبے کی حکمتِ عملی تیار کرنے کیلئے کرائی گئی تازہ ترین اسٹڈی میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو پانی کے سنگین بحران کا سامنا ہے جسکے خاتمے کیلئے اسے سالانہ 3500ملین ڈالر کی پانی کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنا ہوگی جبکہ شہریوں کی مختلف ضروریات کیلئے جس میں پینے کا پانی بھی شامل ہے 30.16ملین ایکڑ فٹ پانی فراہم کیا جاتا ہے جو کہ ملک میں استعمال ہونیوالے کل پانی کا 3فیصد ہے۔2019ءکے وسط میں شائع ہونیوالے عالمی آبادی سے متعلق اپنی سالانہ رپورٹ میں اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ زیادہ سے زیادہ افراد اپنی ’’پہنچ‘‘ سے بھی زیادہ وسائل استعمال کر رہے ہیں اسے روکنے میں تاخیر کی گئی تو آگے چل کر بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔

تازہ ترین