• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ دن بھی دیکھنا تھا۔ کربلا میں برف گر رہی تھی۔ جس دالان میں عزادار ماتم کرتے ہیں وہاں ٹخنوںٹخنوں برف جمع تھی اور آسمان سے اور برسے جارہی تھی۔ وہی تاریخی مقام جہاں ہم نے زندگی بھر افلاک سے آگ برسنے اور راہ حق کے جانبازوں کو تپتی ہوئی ریت پر زندگی کا آخری سجدہ کرنے ہی کی بات سنی تھی۔ کربلا کی جتنی تصویریں ذہن میں بنتی تھیں وہی تین دن کے پیاسوں کا پانی کے لئے صدا بلند کرنے کا نقش ہی ابھرتا تھا۔ اب وقت نے کیسی ادا اختیار کی ہے کہ علاقے پہچانے نہیں جاتے اور طے کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ یہ کون سا مقام ہے اور اس کی یہ کیسی نئی شناخت ہے۔ ہماری زمین کے یہ وہی مقامات ہیں جو کبھی صحراؤں سے اور کبھی تا حد نگاہ تک پھیلی ہوئی جھیلوں اور کبھی افق تک اُگے ہوئے جنگلوں سے پہچانے جاتے تھے، آج ان کا حلیہ کچھ اس طرح بدل رہا ہے کہ کوئی اجنبی وہاں چلا جائے تو حیران ہو کر پوچھے کہ میں کہاں ہوں۔ہم نے کب سوچا تھا کہ جزیرہ نما عرب میں موسلا دھار بارشیں ہوں گی، وہاں کے شہروں میں سیلاب آئیں گے اور صدیوں سے سوکھی پڑی ہوئی زمین پر اس غضب کا مینہ برسے گا کہ لوگ ڈوب کر مریں گے۔میں تو پچھلے دنوں ٹی وی پر وہ منظر دیکھ کر دنگ رہ گیا جس میں کچھ اونٹ ریگستانوں میں چلے جارہے تھے اور ان کے اوپر برف پڑی ہوئی تھی۔

یہ محظوظ ہونے کا مقام نہیں، یہ دھیان سے سوچنے اور فیصلے کرنے کی گھڑی ہے۔ ہمارے کرّہ ارض کی جو درگت بن رہی ہے اس میںہماری زمین اور کب تک ہمیںسانس لینے کے اسباب فراہم کر پائے گی، اور کتنے عرصے ہم گھر کے نل کی ٹونٹی کھولیں گے اور پانی آنے لگے گا۔یہ سوال ہیں سوچنے اور بڑے فیصلے کرنے کے۔یہ نہیں کہ دنیاکے کچھ علاقے جینے کی فکر کریں اور کچھ پروا کئے بغیر بے دردی سے جنگل کاٹیں اور ان کی چمنیاں بے دریغ دھواں اُگلیں۔اس دکھ کے مداوے میں چاہے زنجبار کا جزیرہ ہو چاہے سوئٹزرلینڈ کی پہاڑی وادیاں، سب ہی کو اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔ دوسرے لفظوں میں سب ہی کو دکھ اٹھانے ہوں گے۔بہت سے عیش اور عشرت سے محروم ہونا پڑے گا ۔ کتنی ہی راحتوں سے ہاتھ دھونے ہوںگے اور زندگی میں بے شمار نئی نئی زحمتوں کا عادی بن کر جینا پڑے گا۔

کہا جاتا ہے کہ ہماری زمین گرم ہو رہی ہے۔ اس کا درجہ حرارت بڑھتا جارہا ہے ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ زمین کے گرد فضا کی جو مہین سی نیلگوں اوڑھنی لپٹی ہوئی ہے ، ہماری بد اعمالیوں کی وجہ سے اس میں چھید ہورہے ہیں۔ ان ہی کی وجہ سے سورج کی تمازت بلا روک ٹوک زمین پر برس رہی ہے۔ سمندروں جیسی جھیلیں بھاپ بن کر اڑرہی ہیں اور ان کی سوکھی ہوئی تہہ میں مردہ جانوروں کے ڈھانچے اور چٹخی ہوئی زمین نظر آنے لگی ہے۔ قدر ت نے ہر خطے اور ہر علاقے کی وضع قطع کی مناسبت سے وہاں کی آب و ہوا بنائی ہے۔ لیکن اگر یوں ہوجائے کہ اونچے پہاڑوں پر آگ برسنے لگے اور بلندیوں پر برف پوش علاقے برہنہ ہونے لگیں تو یہ قدرت کا چہرہ مہرہ مسخ کرنے کے مترادف ہوگا۔ قطب شمالی اور جنوبی، دونوں کے برفانی علاقے پگھلنے لگیں گے، سمندر کی سطح اونچی ہونے لگے گی، ساحلی علاقے اور جزیرے ڈوبنے لگیں گے اور دوسرا منظر اور بھی پریشان کرتا ہے جب دوا علاج کا علم ترقی کرتا جائے گا، لوگ زیادہ عرصہ جئیں گے اور بے چاری زمین ان کے کھانے پینے کے اسباب فراہم کرنے کی متحمل نہ ہو پائے گی۔یہ سوچ کر بھی دل دہلتا ہے کہ خدا جانے سانس لینے کو ہوا میں کافی آکسیجن بھی ہوگی یا نہیں۔

یہ منظر نامے شاید معمر لوگوں کو پریشان نہ کرتے ہوں لیکن مغرب کی باشعور نئی نسل کا اضطراب دکھ دیتا ہے۔ اس کی تسلّی اور تشفّی کا سامان بھی کیا جارہا ہے۔ایک بہت بڑا فیصلہ ہونے ہی والا ہے ۔ وہ یہ کہ سنہ دو ہزار چالیس تک پٹرول اور ڈیزل کا خاتمہ کیا جائے۔ اس دوران پٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی گاڑیاں بنانے اور فروخت کرنے کے عمل کو رفتہ رفتہ ختم کیا جائے اور آج سے بیس سال بعد موٹر گاڑیاں صرف اور صرف بجلی سے چلائی جائیں۔لندن میں برقی کاریں نظر آنے لگی ہیں۔ آباد گلیوں میں ان کاروں کو چارجر پر لگانے کے لئے پاور پوائنٹ لگائے جا رہے ہیںجن کی مدد سے گاڑی کا برقی نظا م چند گھنٹوں میں چارج ہوجاتا ہے۔ایسا نظام تیار کرنے کی سر توڑ کوشش ہورہی ہے جس کے ذریعے گاڑی تھوڑی ہی دیر میں چارج ہو سکے گی۔ برقی گاڑیوں کا ٹیکس معاف کیا جارہا ہے، ان پر لگے ہوئے کئی دوسرے محصول بھی معاف ہورہے ہیں۔وہ دھواں نہیں اگلتیں، شور نہیں مچاتیں، خلقت انہیں سراہنے لگی ہے۔

ایک بار پھر دھیان اس تصویر کی طرف جاتا ہے جس میں کربلا کی زمین پر بچھی ہوئی اور آسمان سے برستی برف نظر آتی ہے ۔ ایسے میں ہمارے دوست عقیل عباس جعفری نے کیسا اچھا شعر کہا ہے:

اشک میرے جب گئے افلاک پر

بن کے موتی لوٹ آئے خاک پر

تازہ ترین