لندن (مرتضیٰ علی شاہ) ہتک عزت کے مقدمات کی معروف قانونی فرم کارٹر رک میڈیا سے متعلق قوانین، ہتک عزت کے مقدمات کے حوالے سے برطانیہ اور بیرون ملک اچھی شہرت کی مالک ہے۔ کارٹر رک میڈیا سے متعلق قوانین کے مقدمات اپنے اہداف کے حصول کی ماہر تصور کی جاتی ہے، اس فرم کے وکلا مسلم لیگ ن کے قائد کے ساتھ پریس کانفرنس میں میل پبلشرز اور ڈیوڈ روز کے خلاف عدالتی کارروائی سے متعلق اعلان کے دوران پاکستانی ٹی وی کے اسکرین پر بھی نظر آئے۔ اس فرم نے درجنوں ہائی پروفائل مقدمات جیتے ہیں اور برطانوی میڈیا ہائوسز کو نمایاں شکست دینے کے علاوہ مالی نقصان سے بھی دوچار کیا ہے۔ برطانیہ کے دائرہ اختیار میں ہتک عزت کا شکار ہونے والے متعدد مقامی اور بین الاقوامی ہائی پروفائل کلائنٹ کےعلاوہ کارٹر رک کے وکلا نے مقامی سیلبریٹیز اور عام لوگوں کی بھی وکالت کی ہے، یہ ادارہ انتہائی احتیاط سے میرٹ کی بنیاد پر صرف وہی مقدمات لیتا ہے، جس میں صد فی صد کامیابی یقینی ہو، کارٹر رک نے جن اہم مقدمات میں کامیابی حاصل کی، ان میں مختلف پاکستانیوں اور مسلمانوں کے مقدمات شامل ہیں، جون 2018 میں کارٹر رک نے کرمنل بار کے معروف وکیل ساشا واس کیوسی کے مقدمے کی پیروی کی اور میل آن سنڈے اور میل آن لائن کی جانب سے 9 اکتوبر 2016 کو ایک انتہائی توہین آمیز مضمون کی اشاعت پر ہائیکورٹ سے مکمل معافی منگوانے میں کامیاب رہے۔ یہ توہین آمیز مضمون اس شہہ سرخی کے ساتھ شائع ہوا تھا کہ کیو سی نے میٹ کی رشوتوں سے متعلق شہادتوں کو چھپا کر ایک بے قصور آدمی کو جیل بھجوا دیا، اس میں کہا گیا تھا کہ ایک سزا یافتہ سالیسٹر کی تفتیش کی ذمہ دار پولیس افسر مس واس نے رشوت لے کر ٹھوس شواہد کو چھپانے کی کوشش کی، اس آرٹیکل کو، جس میں مس واس کو ایک مجرمانہ سازش میں ملوث قرار دیا گیا تھا، اپیل عدالت نے اس کو قیاس پر مبنی قرار دیدیا تھا، اس طرح کارٹر رک نے یہ مقدمہ جیت لیا تھا۔ اخبار نے یہ تسلیم کیا تھا کہ یہ تمام الزامات مکمل طورپر غلط تھے اور اب کبھی شائع نہیں کئے جائیں گے۔ گزشتہ سال فروری میں شیڈو کیبنٹ منسٹر اورلیبر پارٹی کے رکن پارلیمان رچرڈبرگن نے سن کے اس الزام کے خلاف مقدمہ جیت لیا تھا کہ وہ جس بھاری میٹل بینڈ سے پرفارم کرتے ہیں، وہ نازی امیجری میں استعمال ہوتا تھا اور یہ بینڈ نازی علامت ہے۔ کارٹر رک نے رچرڈ برگن کی جانب سے اخبار پر مقدمہ دائر کیا تھا، مقدمے کی سماعت کے بعد مسٹر جسٹس ڈنگے مینز نے رکن پارلیمنٹ کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے آرٹیکل کو انتہائی توہین آمیز، جھوٹا اور نامناسب قرار دیا تھا، 2017 میں کارٹر رک نے این ٹی ون اور این ٹی ٹو کی جانب سے گوگل ایل ایل سی کے خلاف مقدمے کی سماعت کی، یہ دونوں دعویدار کرمنل سزا یافتہ تھے اور اپنے جرائم کی رپورٹ کی بنیاد پر گوگل سرچ کی جانب سے ڈی لسٹ کئے گئے تھے۔ عدالت نے گوگل کے موقف کے خلاف فیصلہ دیا۔ فروری 2019 میں مرر گروپ آف نیوز پیپرز نے سابق پولیس کمانڈر رائے رام کے خلاف مارچ 2018 میں اپنی ویب سائٹ پر جھوٹے اور توہین آمیز الزامات شائع کرنے پر غیر مشروط معافی مانگی اور کافی ہرجانہ اور مقدمے کے اخراجات ادا کرنے پر تیار ہوا۔ جون 2018 میں کارٹر رک نے اے آر وائی نیٹ ورک لمیٹڈ پر پاکستان کے مشہور تاجر میاں منشا کے خلاف سنگین الزام تراشیوں پر مقدمہ لڑا، جس پر اے آر وائی نےمیاں منشا کو توہین عدالت کے دعوے کے تصفیئے کیلئے 2لاکھ 75 ہزار پونڈ ہرجانہ اور مقدمے کے اخراجات کے طورپر ادا کئے۔ 2014 میں جنگ گروپ آف نیوز پیپرز کے پبلشر اور ایڈیٹر میر شکیل الرحمان نے چینل پر اپنےخلاف 20 ٹی وی شوز میں توہین آمیز اور جھوٹے الزامات پر اے آر وائی کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا۔ میر شکیل الرحمان کی وکالت کرتے ہوئے نومبر 2016 میں کارٹر رک نے 3 ہفتہ کی سماعت کے بعد یہ مقدمہ جیت لیا، 3 ملین پونڈ کے ہتک عزت کے مقدمے کے بعد اے آر وائی نے دیوالیہ ہونے کی درخواست دائر کی اور برطانیہ کے میڈیا ریگولیٹر نے چینل کے براڈ کاسٹ لائسنس منسوخ کردیئے۔ جج نے اپنے فیصلے میں اے آر وائی کی جانب سے لگائے جانے والے تمام الزامات کو جھوٹے، بے بنیاد اور بلا ثبوت قرار دیا۔ اے آر وائی نے عدالت میں تسلیم کیا کہ اس کے پاس اس کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اگست 2019 میں فلسطینیوں کو امداد فراہم کرنے والی برطانیہ میں رجسٹرڈ ایک چیرٹی انٹرپال کے ٹرسٹیز کے خلاف توہین آمیز اور جھوٹے الزامات شائع کرنے پر جیوش کرونکائل کو 50ہزار پونڈ ہرجانہ ادا اور مکمل معافی شائع کرنا پڑی۔ جون 2019 میں ڈیلی میل کے پبلشرنے برطانیہ میں قائم فلاحی تنظیم انٹرپال کو تنظیم پر فلسطین میں ایک نفرت آمیز فیسٹیول کیلئے فنڈ فراہم کرنے کا الزام شائع کرنے پرایک لاکھ 20 ہزار پونڈ ہرجانہ اور مقدمے کے اخراجات ادا کئے۔ ایسوسی ایٹڈ نیوز پیپرز نے انٹرپال کے ٹرسٹیز سے غیر مشروط معافی مانگی۔ انٹرپال کی پیروی کارٹر رک نے کی تھی۔ فروری 2018 میں کنزرویٹو پارٹی کی سابق سربراہ بیرونس سعیدہ وارثی کو جیوش نیوز نے کرنل رچرڈ کیمپ کے ایک مضمون میں سعیدہ وارثی پر داعش گروپ کے ساتھ ہمدردی رکھنے کے بے بنیاد الزامات شائع کرنے پر بھاری ہرجانہ اور مقدمے کے اخراجات ادا کئے۔ اخبار پر کارٹر رک نے مقدمہ دائر کیا تھا۔ بیرونس وارثی نے ہرجانے کی تمام رقم فلاحی تنطیم کو عطیہ کردی۔ دسمبر 2016 میں مین آن لائن اور اس کی کالم نگار کیٹی ہوپکنز نے ایسٹ لندن کے رہائشی ایک پاکستانی محمود فیملی کو ہتک عزت کے مقدمے میں ڈیڑھ لاکھ پونڈ ہرجانہ ادا کیا، مقدمے کے تمام اخراجات ادا کرنے پر اتفاق کیا اور مکمل غیر مشروط معافی شائع کی۔ ہوپکنز نے ٹوئٹر پر ان کے جاننے والوں سے معذرت کی۔ کارٹر رک نے طارق اور زاہد محمود کی جانب سے اخبار کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا۔کارٹر رک نے دیگر بہت سے معاملات میں، جو انتہائی خفیہ رکھے گئے ہیں، مشورے دیئے، یہ فرم دوسرے ملکوں کے کمرشل تنازعات اور ہائی پروفائل کے بین الاقوامی مصالحت کار کا کردار بھی ادا کرتا رہا ہے، جس میں قطر میں قائم انٹرنیشنل میڈیا نیٹ ورک الجزیرہ اور عرب جمہوریہ مصر کے درمیان تنازعہ شامل ہے۔