• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم نے کہا ہےکہ نادار افراد کی دیکھ بھال ریاست کی ذمہ داری ہے، ہم پورے ملک میں پناہ گاہیں بنانے کیلئے خصوصی اور جامع پروگرام بنائیں گے۔ حکومت کا یہ اقدام لائقِ تحسین ہے کہ بےسہارا اور نادار افراد کیلئے رہائش گاہیں بنائی جائیں مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ منصوبہ مستقل بنیادوں پر ہو اور جہاں جہاں پناہ گاہیں تعمیر کی جا رہی ہیں یا جن عمارتوں کو پناہ گاہوں میں تبدیل کیا جا رہا ہے، یہ مستقل پناہ گاہیں ہی رہیں۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ پناہ گاہوں کا انتظام بہتر کریں گے اور پنجاب میں مزید پناہ گاہیں قائم کریں گے۔ وزیراعلیٰ کا یہ اقدام قابلِ ستائش ہے۔اس وقت ملک میں لاکھوں افراد ایسے ہیں جن کے پاس رہنے کو جگہ نہیں، ان کے گھر والوں یا معاشرے نے ان کو علیحدہ کر دیا ہے جس کی وجہ سے وہ سڑکوں پر رہنے پر مجبور ہیں، ان میں اکثریت ایسے افراد کی ہے جو بوڑھے اور بیمار ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان پناہ گاہوں کو کسی نہ کسی سرکاری اسپتال سے منسلک کر دیا جائے اور ہفتے میں ایک یا دو دن ان سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹرز اور نرسیں پناہ گاہوں کے مکینوں کا ہیپاٹائٹس بی سی، ایڈز، شوگر اور دل کے لازمی ٹیسٹ کریں، ایسے افراد جو دانتوں، پیٹ اور دیگر امراض میں مبتلا ہیں، ان کا باقاعدگی سے علاج کیا جائے کیونکہ اگر یہ بیمار افراد تندرست افراد کے ساتھ رہیں گے تو یقیناً ایک دوسرے کو بیمار کریں گے۔ ان کے بستر اور واش رومز انتہائی صاف ستھرے ہونے چاہئیں، باقاعدہ طور چھوٹی سی ڈسپنسری بھی ہونی چاہئے تاکہ ایمرجنسی میں لوگوں کو دوا یا فرسٹ ایڈ مل سکے، ان پناہ گاہوں کا ریسکیو 1122سروس سے بھی رابطے کا موثر انتظام ہونا چاہئے۔

1122سروس سے یاد آیا کہ پچھلے دنوں اس سروس کے ایک انچارچ نے ٹی وی پر انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ ہمارے پاس 80فیصد کالز غلط اور عجیب و غریب آتی ہیں مثلاً ایک خاتون نے کہا کہ وہ بور ہو رہی ہیں تو اس لئے اس نے کال کی جبکہ ایک خاتون نے ان سے سندھی بریانی کی ترکیب معلوم کرنے کی کوشش کی، ایک اور صاحب نے کال کرکے کہا کہ ان کی بھینس چارہ نہیں کھا رہی۔ دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ اتنی اہم سروس جو زند گی بچانے کا کام کرتی ہے، وہاں ہمارے لوگ اس طرح کے فون کر کے ان کا وقت ضائع کرتے ہیں جس سے کئی قیمتی جانیں بھی ٖضائع ہو سکتی ہیں۔ ریسکیو کو تقریباً ایک دن میں سات ہزار کالیں وصول ہوتی ہیں جن میں سے صرف پانچ سو کالیں ضروری ہوتی ہیں جبکہ باقی غلط اور فضول باتوں پر مبنی ہوتی ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ ان افراد کے خلاف سخت کارروائی کرے۔ قانون میں تو پہلے ہی ایسے افراد کے لیے پچاس ہزار روپے جرمانہ اور چھ ماہ کی قید کی سزا ہے۔ لوگوں کو چاہئے اپنی تربیت کریں اور دوسروں کے لئے مشکلات کا با عث نہ بنیں۔

حکومت نے پچھلے دنوں اسحاق ڈار کا گھر بھی پناہ گاہ میں تبدیل کر دیا تھا، (اب عدالت نے اس پر حکمِ امتناع دے رکھا ہے) اس طرح اسحاق ڈار کو بھی کچھ دعائیں مل جائیں گی۔ ویسے تو اس ملک میں کئی افراد کے پاس اتنے زیادہ گھر ہیں ان کو سنت ِ نبویؐ پر عمل کرتے ہو ئے ان گھروں کو پناہ گاہوں میں تبدیل کر دینا چاہئے۔ اسی بہانے نیکی بھی ہو جائے گی اور آخرت سنوارنے کا موقع بھی مل جائے گا۔ ویسے بھی اسحاق ڈار کون سا اس گھر میں ر ہتے ہیں؟ انہیں حضرت علی ہجویریؒ کی ذات پاک سے خاص عقیدت بھی ہے چنانچہ ان کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے انہیں از خود ہی یہ گھر غریبوں کیلئے وقف کر دینا چاہئے۔ بطور مسلمان ہم نبی آخر الزمانﷺ کی ذات پاک سے انتہائی محبت کرتے ہیں، ہر سال رسول اللہﷺ کی ذات کے حوالے سے میلاد اور نعتوں کی محفلیں منعقد کرتے ہیں مگر ان کی پاک تعلیمات پر عمل کوئی نہیں کرتا۔

گزشتہ ہفتے حکومت نے ایک اچھا اقدام کیا۔ وزیراعظم عمران خان نے کھانے پینے کی اشیا میں ملاوٹ کے خلاف ایک ایکشن پلان مرتب کرنے کا اعلان کیا۔ وزیراعظم نے اشیا خور و نوش میں ملاوٹ کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے ملاوٹ کے خلاف ایمرجنسی کا نفاذ کرکے نیشنل ایکشن پلان ایک ہفتے میں مرتب کرنے کی ہدایت کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملاوٹ کی وجہ سے متعدد بیماریاں جنم لیتی ہیں جن سے ہمارے بچوں کی صحت کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملاوٹ کے خلاف قومی سطح پر ایمرجنسی نافذ کرکے اس کا تدارک کیا جائے گا۔ پاکستان میں اس وقت سب سے زیادہ ملاوٹ شدہ اشیا خور و نوش تعلیمی اداروں کی کینٹینوں پر فروخت ہو رہی ہیں جن کو چیک کرنے کا کوئی موثر نظام نہیں۔ تمام صوبوں کی فوڈ اتھارٹیز کو چاہئے کہ وہ اسکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں قائم کیفے ٹیریا اور کینٹین پر موجود کھانے پینے کی اشیا کو چیک کریں۔ وزیراعظم کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ہمارے بچوں کو ملاوٹ شدہ کھانے پینے والی اشیا سے فوراً بچایا جائے کیونکہ یہ آج کے بچے کل کے نوجوان ہیں، اگر ان کی صحت خراب ہو گئی تو ملکی معیشت پر بھی اثر پڑے گا۔ حکومت کو چاہئے کہ تمام اسکولوں کے بچوں کی ہیپاٹائٹس بی اور ٹائیفائیڈ کی ویکسینینشن کرے کیونکہ سب سے زیادہ ٹائیفائیڈ اور پیٹ کی بیماریاں اسکولوں اور کالجوں میں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم اپنے بچوں کو ملاوٹ شدہ اشیا کھانے سے منع کریں تاکہ ان کی صحت کو جو شدید خطرات لاحق ہیں، ان سے وہ محفوظ رہ سکیں۔

تازہ ترین