• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا جرگہ سسٹم سندھ کے قبائلی عوام کو انصاف دے رہا ہے؟

کیا جرگہ سسٹم سندھ کے قبائلی عوام کو انصاف دے رہا ہے؟


کیا جرگہ سسٹم سندھ کے قبائلی عوام کو انصاف فراہم کررہا ہے؟ اس سوال کا جواب اتنا مثبت نہیں۔

کہتے ہیں، بس الزام لگنے کی دیر ہوتی ہے، اس کے بعد الزام لگانے والا اور ملزم دونوں ہی جرگے کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں ۔

المیہ یہ ہے کہ جرگوں میں کیے گئے اکثر فیصلوں کا فائدہ مظلوموں کو نہیں ہوتا بلکہ اُن وڈیروں کو ہوتا ہے جن کی طاقت کا انحصار عام لوگوں کی کمزوری پر ہے۔

جیو نیوز کی ٹیم سندھ کے مختلف اضلاع کا جائزہ لینے نکلی تو دیگر سوالوں کی طرح یہ سوال بھی پوری شدت سے کھڑا ہوا کہ قبائلی جرگے انصاف کر بھی پاتے ہیں یا نہیں۔

اس کا جواب پیر بھرچونڈی شریف میاں مٹھو نے کچھ یوں دیا کہ ’اب تو کم ہوگیا ہے پہلے کاروکاری ہوتی تھی اس میں سردار حصہ لیتے تھے، مطلب وہ سردار کی ہوجاتی تھی، جو لڑکی کاری ہوتی تھی وہ سردار کے حوالے ہوجاتی تھی، اس لڑکی کے ساتھ جو حشر ہوتا ہے وہ مجھ سے نہ پوچھیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اب بات یہ ہے کہ سردار کی روزی اسی سے تھی، وہ خواہ مخواہ ہی کہتا تھا کہ تیری بیوی کے فلاں کے ساتھ غلط تعلقات ہیں اور ناجائز تعلقات کی وجہ سے وہ اس پر الزام لگاتا تھا، وہ طلاق دیتا تھا سردار اسے لے جاتا تھا سردار بیچ کر پیسے کھاتا تھا، اس طریقے سے مطلب پیسے لے کر شادی کسی اور کے ساتھ کر دیتا تھا۔

جرگہ متوازی عدالتی نظام ہے، جسے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت بھی غیرقانونی قرار دے چکی ہے لیکن اس کے باوجود عوام جرگے پر بھروسہ کرتے ہیں۔

صدر ڈسٹرکٹ بار کشمور عبدالغنی بیجارانی ایڈووکیٹ کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ایف آئی آر میں نام آتا ہے شریف بندوں کا اور مار کر وہ کچہ ایریا میں چلے جاتے ہیں، ان کو پالنے والے ہمارے یہاں کے وڈیرے، ایم این اے، ایم پی ایز ہیں، اس لیے وہ گرفتار نہیں ہوتے۔

انہوں نے مزید کہا کہ قبائلی تنازع میں کبھی کسی کو سزا نہیں ہوتی مصالحت ہوتی ہے، ہمارے سردار پنچایت لگاتے ہیں 50 خون 50 خون میں چلے گئے، باقی دس خون کا معاوضہ ہوگیا۔

ایک موقف یہ بھی ہے کہ اگر جرگوں کو روکنا ہے تو عدالتوں میں قبائلی تنازعات سے جڑے مقدمات کے فیصلے تیزی سے کرنا ہوں گے۔

سردار محبوب بیجارانی کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ کورٹ کم از کم ایک ماہ میں کیس پر ریلیف (فیصلہ) دے، مقدمات 20،20 سال چلتے ہیں، اسی دوران جانے کتنے اور قتل ہوجاتے ہیں، اگر انھیں فوری ریلیف ملے کچھ سزائیں آجائیں تو لوگوں کو جرات نہیں ہوگی کہ وہ کچھ کریں۔

ظلم کے ساتھ تو پھر بھی زندہ رہا جاسکتا ہے لیکن بغیر انصاف کے ہرگز نہیں، یہی وجہ ہے کہ سندھ کے عوام قبائلی تنازعات کے مقدمات عدالتوں کی بجائے جرگوں میں لے جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔

تازہ ترین