• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کھانے کی تاریخ و ارتقاء، فلسفہ، حقائق، روایات اورتجزیات

مغل بادشاہوں کی لڑی میں سب سے زیادہ اہتمام بہادر شاہ ظفر کے دسترخوان پرہوتا تھا۔ اس کے ہاں ترکی، ایرانی، افغانی اور ہندوستانی کھانے چُنے جاتے تھے۔ ہرن کے کباب، تیتر اور مچھلی، سموسے، کھانڈوی، دال، سالن، مختلف اقسام کے پلاؤ اور مٹھائیاں روزمرّہ طعام کا حصہ تھے۔ اُس کے پسندیدہ کھانوں میں بیسن کی روٹی، مٹن قورما، راحت جانی چٹنی اور دال بادشاہ شامل تھے۔ جیسے جیسے مغل حکومت زوال پذیر ہوتی گئی، امرا اور حکما کی توجّہ کھانوں میں جدّت لانے پر مرکوز ہوتی گئی۔ ڈاکٹر مبارک علی اپنی کتاب ’’شاہی محل‘‘ میں آئینِ اکبری کا حوالہ دیتے ہیں۔ ’’مغلیہ عہد میں شاہی باورچی خانہ کئی شعبوں میں تقسیم ہوا کرتا تھا، جیسے رکاب خانہ، آب دارخانہ، میوہ خانہ، شربت خانہ، تمبل خانہ، اور آفتابچی خانہ اس کے تجربہ کار و ماہر باورچی ہوا کرتے تھے اور ان سب کا نگراں وزیراعظم ہوتا۔

شاہی باورچی خانے کےلیے سکھ داس، دیوزیرہ اور جنجن چاول ہندوستان کے مختلف شہروں سے آتے۔ حصار فیروزہ سے گھی آیاکرتا۔ قاز، مرغابی اور اکثر ترکاریاں کشمیر سے آتیں۔ بھیڑ، بکریاں، مرغ و قاز کو باورچی پال کر موٹا کرتےاور پھردریا و تالاب کے کنارےذبح کرکے اُن کا گوشت دھویا جاتا۔ اس گوشت کو تھیلوں میں بھر کر اُن پرمہرلگا دی جاتی۔ جہاں اس گوشت کو دوبارہ دھو کر پکایا جاتا۔ اندازہ لگایا گیا تھا کہ باورچی خانے کا ایک روز کا خرچہ ایک ہزار روپے تھا۔ باورچی کھانے پکاتے وقت آستینیں چڑھا کر دامن کو لپیٹ لیتے، سرکو ڈھانپتےاور منہ و ناک پر کپڑا باندھ لیتے تھے۔ کھاناپکانےکے بعد بکاول اورمہربکاول اس کا ذائقہ چکھتے۔ 

بابر نامے میں چاشنی گیر کا حوالہ ہے کہ جس کا کام تھا کہ وہ خصوصیت سے ہندوستانی باورچیوں کے کھانے ضرور چکھے۔‘‘ اپنی کتاب ’’بزمِ آخر‘‘ میں منشی فیض الدّین شاہی باورچی خانہ کے حوالے سے رقم طراز ہیں۔ ’’ہندوستان میں مغل حکم رانوں کے ہاں یہ دستور تھا کہ وہ شاہی باورچی خانے سے امرا اور درباریوں کے ہاں کھانا بھیجا کرتے، جو تورہ کہلاتا تھا۔ توری بندی میں رنگ برنگ کے پلاؤ، بریانی، متنجّن، زردہ، فیرنی، یاقوتی، نان، شیرمال، خمیری روٹی، گاؤ دیدہ، گاؤ زبان، میٹھے سلونے سموسے، کباب، پنیر، قورما، سالن، بڑے بڑے لاکھی طباق، رکابی، طشتری میں لگا آم کا اچار، ملائی، کھانڈ، لال لال چوکھڑوں میں رکھ، خوانوں میں لگا، پلاؤ متنجن، بریانی کے طباقوں پرمانڈے ڈھک، اوپر کھانچی رکھ، کسنے کس، تورے پوش ڈال، بگھیوں میں بھیج رہے ہیں۔ بائیس خوانوں سے زیادہ دو سے کم تورہ نہیں ہوتا، جیسی جس کی عزت ہے، اُتنے ہی خوانوں کا تورہ چوب دار گھر گھر بانٹتے پھرتے۔‘‘

ہرتہوار کے لیے بھی علیحدہ اور مخصوص کھانے کی روایت پڑگئی۔ ’’بزمِ آخر‘‘ میں مصنف نے حوالہ دیا ہے۔ ’’محرم پرشیرمالوں پرکباب، پنیر، پودینا، ادرک، مولیاں کترکر رکھیں۔ آخری چہار شنبہ کو چنے کی سلومی گھنگیاں لون، مرچ ڈال کر اور گیہوں کی بھیگی گھنگیاں ابال کے اوپر خشخاص ڈال کر قابوں میں نکال کر نیاز دی۔ رجب کے مہینے میں گھی، کھانڈ اور میدے کی میٹھی روٹیاں، اوپر سونف اور خشخاص لگا کر تندور سے پکوائیں۔‘‘ ’’گزشتہ لکھنؤ‘‘ میں عبدالحلیم شرر نے کھانے میں اہتمام کے حوالے سے لکھا ہے۔ ’’واجد علی شاہ نے دلی کے شہزادے، مرزا آسمان قدر کی دعوت کی۔ دسترخوان پر ایک مربہ لاکر رکھا گیا، جو صُورت میں نہایت نفیس و لطیف اور مرغوب معلوم ہوتا تھا۔ 

مرزا آسمان قدر نے اس کا لقمہ کھایا تو چکرائے، اس لیے کہ وہ مربہ نہیں تھا بلکہ گوشت کا نمکین قورما تھا۔ یوں دھوکا کھانے پر اُنھیں ندامت ہوئی اور واجد علی شاہ خوش ہوئے کہ دلّی کے ایک معزز شہزادے کو دھوکا دے دیا۔ اس کے جواب میں آسمان قدر نے دعوت کی تو واجد علی شاہ تیار ہو کر گئے کہ دھوکا نہیں کھائیں گے۔ مگر شہزادے کے باورچی نے وہ کمال دکھایا کہ وہ دھوکے پر دھوکا کھاتے رہے۔ گو دسترخوان پر صدہا ایوان نعمت اورقسم قسم کے کھانے چُنے ہوئے تھے۔ پلاؤتھا، زردہ تھا، بریانی تھی، قورما تھا، کباب، ترکاریاں تھیں، چٹنیاں تھیں، اچار تھے، روٹیاں تھیں، پراٹھے تھے، شیرمال تھے، غرض یہ کہ ہرقسم کی نعمت تھی، مگر جس چیز کو چکھا شکر کی بنی ہوئی تھی۔ سالن تھا تو شکر کا، چاول تھے تو شکر کے، اچار تھا تو شکر کا اور روٹیاں تھیں تو شکر کی، یہاں تک کہتے ہیں کہ تمام برتن، دسترخوان اور سلفچی و آفتابہ تک شکر کے تھے۔ 

واجد علی شاہ گھبرا گھبرا کے ایک ایک چیز پر ہاتھ ڈالتے تھے اور دھوکا کھاتے تھے۔‘‘ مغل دورمیں کھانا کھانے سے پہلے اور بعد میں بیسن، کھلی اور صندل کی ٹکیوں سے ہاتھ صاف کیے جاتے تھے۔ صابن کا استعمال شروع نہ ہوا تھا۔ ’’مرزانامہ‘‘ میں اشرافیہ کےکھانے کے آداب کے حوالے سے ہدایات ہیں۔ یاد رہے یہ سترہویں صدی کا زمانہ ہے۔ 

اس میں بتایا گیا ہے کہ خُوب صُورت دسترخوان کو باغ میں فوّارے کے قریب لگایا جائے، دسترخوان صاف ہو اور اس پر چکنائی کے داغ نہ ہوں، دسترخوان پر ایک ہی طرح کے برتن ہوں، مٹی کے برتن ثابت اور دل کش ہوں، موسم کے لحاظ سے اچار، انار، لیموں اور نارنگی کا رس رکھا جائے۔ ابلے چاول، کباب اور صحت مند بھیڑ کے گوشت کی یخنی میں دَم کیا پلاؤ اچھے پکوان ہیں۔ زیادہ چکناہٹ سےپرہیزکیاجائے۔ ہندوستانی بازاری کھانے اور اچاراستعمال نہ کیاجائے۔ سبزی میں پودینا بہتر ہے۔ پیاز اورمولی سے جو ڈکار آتی ہے، وہ دماغ کے لیے نقصان دہ ہے، ان سے اجتناب کیا جائے۔

ہندوستانی لوگوں کا عقیدہ تھا کہ خوراک کا جسم کے علاوہ روح اوردماغ سے بھی تعلق ہے ۔ اس لیےوہ کھانے کا بہت احترام کرتے۔ کھانامٹی کے برتنوں یا پتّوں پر رکھ کر کھایا جاتا۔ مٹی کے برتن کھانےکےبعد توڑدیےجاتےاور پتّوں کو بچے ہوئے کھانے کے ساتھ پھینک دیا جاتا۔ ہندوکھانے سے پہلے ہاتھ، منہ اورپاؤں دھوتے، مشرق کی طرف منہ کرکے خاموشی سے کھانا کھاتے اور بدمزہ کھانے کی شکایت نہ کرتے۔ سبزی خوری کی وجہ یہ سمجھی جاتی تھی کہ اس سے عبادت اور روزمرّہ کی زندگی کے لیے دماغی پاکی حاصل ہوتی ہے، البتہ تمام ہرہمن سبزی خور نہ تھے۔ کشمیری براہمن مٹن کے عمدہ پکوان شوق سے کھاتے، توبنگالی برہمن مچھلی کھاتے۔ سبزی خوری زیادہ ترجنوبی ہند میں رائج تھی۔ گودربار کے کھانوں یا امرا کے دسترخوانوں کے لیے بہت اہتمام ہوتا،مگر عام عوام کے کھانے سادہ ہوتےاور دیہات میں لوگ روٹی کے ساتھ بمشکل پکی ہوئی سبزی، کچا پیاز، مرچیں یا مکھن کھا لیا کرتے۔ 

جب برطانوی استعمار ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے اپنا تسلط قائم کر رہا تھا تو ہمایوں کے مقبرے میں بہادر شاہ ظفر کو انگریزوں سے ’’صلح‘‘ کے لیے کہا گیا۔ صلح کی خُوب صُورت ترکیب درحقیقت ہتھیار ڈال کر شکست تسلیم کرنے کےلیےاستعمال کی گئی تھی۔ بہرحال، بہادر شاہ ظفر کو قائل کرنے کے لیے یہاں تک کہا گیا ’’صلح کرلیجیے، کیوں کہ اس سے آپ کی ایک پلاؤ کی طشتری کہیں نہیں جائے گی۔‘‘ یہ مکالمہ تاریخ کا حصّہ بن چکا ہے، ’’افسوس، سلطنتِ ہند کی قیمت ایک پلیٹ پلاؤ ٹھہری۔‘‘ انگریزوں کے آنے کے بعد میز پربیٹھ کر چُھری کانٹے سے دن میں تین مرتبہ کھانے کا رواج پڑگیا۔ نوابین دو طرح کے باورچی ملازم رکھتے تھے۔ ایک مقامی کھانے بنانے والا اوردوسرا انگریزی کھانے بنانے کا ماہر۔ نوابین کے ہاں انگریز مہمان ہوا کرتے تھے اس لیے دونوں طرح کے خانساموں کا انتظام ضروری تھا۔ برطانوی کھانے کم نمک مرچ اور مسالوں والےہوتے تھے۔

انہیں ہندوستان میں پھیکا سمجھا جاتا تھا۔ چوں کہ ہندوستانی کھانے کے عادات اور دل ودماغ پر اثرات کے قائل تھے، اس لیے سمجھتے تھے کہ انگریزی کھانے کھانے سے انسان میں بے حیائی اور بے غیرتی پیدا ہوتی ہے۔ قرونِ وسطیٰ تک برطانیہ میں اُبلی سبزیاں، ڈبل روٹی/ روٹی، پنیر، روسٹ کیا ہوا گوشت اور مچھلی ہی زیادہ تر کھائے جاتے تھے۔ 

بعد ازاں برطانوی خوراک میں جدّت اور تنوع آیا، مگر وہ ہند کے پکوانوں کی ہم سَری نہ کرتے تھے۔ اگرصرف روٹی ہی کو دیکھا جائے تو پاک و ہند میں چپاتیاں، پھلکے، روغنی روٹی،بیسنی روٹی، نان گل زار، تندوری روٹی، کلچا، لچھا پراٹھا، جوار کی روٹی، باجرے کی روٹی، چاول کی روٹی، مکئی کی روٹی، پوری، بھتورا، پاپڑ اور بے شمار دیگر اقسام ہیں۔ اِس کے برعکس برطانوی بریڈ کی اُس دَور میں چند ہی اقسام تھیں (گو آج اس کی درجنوں اقسام وجود میں آچکی ہیں)۔

1830ء تک برطانیہ میں عورتوں کا ریستوران یا ہوٹل جانا برُا سمجھا جاتا تھا۔ برطانوی قدامت پسند معاشرے میں یکایک تبدیلیاں انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں آنا شروع ہوئیں۔ کھانے کےبرتنوں اورچُھری کانٹے چمچ وغیرہ کو غیر معمولی اہمیت حاصل رہی ہے۔ کانٹے کی ایجاد کا بھی دل چسپ واقعہ ہے۔کانٹے کے استعمال کا آغاز وسطی دَور کے یورپ میں ہوچُکا تھا۔ اطالیہ میں وینس کے حاکم، ڈوگے کی بیوی، دومی نیکو سلویا نہایت نازک مزاج تھی۔ جب اُس کے ہاتھ شوربے سے لتھڑجاتے یا اُنگلیاں گوشت کےقتلےاٹھاتےگندی ہوجاتیں تو اُسے بہت ناگوار گزرتا۔ اُس کےشوہر نےاس کےلیےسونے کا کانٹابنوادیا، جس سے وہ کھانا کھانے لگی۔ 

فرانس کے ایک امیر، مونتاسیر نے اس میں چُھری کا اضافہ کردیا۔ آہستہ آہستہ اس کااستعمال پورے یورپ میں پھیل گیا اور پھر پوری دنیا میں ہونے لگا۔ شروع میں چمچ گول ہوتا تھا، جِسے سوپ یا شوربا پینے میں آسانی کےلیےبیضوی کردیاگیا۔ ابتداًکانٹے کے استعمال کو گستاخانہ عمل سمجھا جاتا اور کہا جاتاکہ خدا نےانسان کو انگلیاں دی ہیں۔ انسان کانٹا استعمال کر کے امرِخداوندی میں مداخلت کررہا ہے۔ چوں کہ وینس کےحاکم کی بیوی کا انتقال کانٹے کی ایجاد کے چند برس بعد ہوا، تو اُس کی موت کو ’’قہرِخداوندی‘‘ گردانا گیا۔ شیطنت بھی کانٹے سے منسوب تھی، یہی وجہ ہے کہ پرانی پینٹنگز اور تحریروں میں شیطان ایک لمبا، تین نوک والا کانٹا تھامے نظر آتا ہے اور جادوگرنیاں بھی کانٹے تھامے ہوتی ہیں۔ 

بہرحال، کانٹوں کو انیسویں صدی کے وسط میں قبول کیا جانے لگا۔ ہرتہذیب میں کھانا دائیں ہاتھ سےکھایاجاتاہے۔ بائیں ہاتھ کو غیرمناسب اور ناپاک سمجھا جاتا۔ دیگرریاستوں کے برعکس جاپان، چین، کوریا اور اسی خطے کے مُلکوں میں تیلیوں (چوپ اِسٹکس) سے کھانا کھایا جاتا ہے۔ یہ چوتھی صدی قبل مسیح سے ان ممالک میں مستعمل ہیں، مگر اِن میں بھی تفریق ہے۔ جاپان میں چوپ اسٹکس چھوٹی اور نوک دار ہوتی ہیں، جب کہ چینی چوپ اسٹکس لمبی اور گول چونچ لیے ہوتی ہیں۔ 

اس کی وجہ یہ ہے کہ جاپانی افراد علیحدہ علیحدہ کھانا کھاتے رہے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ اگرایک مرتبہ ہونٹ چوپ اسٹک کو چُھولیں تو انسانی روح اِس سے رابطے میں آجاتی ہے، اس لیے ہر کسی کاذاتی برتن ہوتا ہے، جس تک چھوٹی چوپ اسٹک پہنچ جاتی ہے۔ جاپانی مچھلیاں زیادہ کھاتے رہے ہیں، اس لیے نوک دار چوپ اسٹکس ان سے کانٹے باآسانی نکال لیتی ہیں۔ اس کے برعکس چینی مِل جُل کر ایک ہی برتن میں کھانا کھاتے رہے ہیں، سو انھیں لمبی چوپ اسٹکس درکار رہیں۔

انفرادیت بہ موازنہ اجتماعیت کا چلن یورپ میں بھی عام رہا۔ سترہویں صدی کے فرانس کی اشرافیہ میں ڈائننگ روم کا تازہ تازہ رواج ہوا، کھانے کے کمرے میں کھانا میز پر رکھ دیا جاتا اور مہمان حسبِ خواہش لیتے رہتے۔ ہر مہمان اپنا ملازم ساتھ لے کر آتا،جو اسے پانی پلاتا۔ اُس وقت تک میزپرگلاس رکھنے کارواج نہ ہواتھا۔اسے فرانسیسی طریقہ کہتے، جس میں مشترکہ برتن سے سب مہمان فیض یاب ہوتے۔ اس کے برعکس انیسویں صدی میں پورے یورپ میں روسی طریقہ رائج ہوگیا۔ یعنی ہرمہمان کے لیے علیحدہ پلیٹ میں کھانا آتا تھا۔ اس میں اجتماعیت پر انفرادیت کو فوقیت حاصل تھی۔ عرب و ہند میں اجتماعیت کی روایت تھی، جب کہ برطانوی انفرادیت کے قائل تھے۔ وہ جب ہند آئے تو اپنے ساتھ انفرادی انداز ِطعام بھی لے آئے۔ 

اسےجدید زبان میں a la Carte(حسب ِ خواہش و انتخاب) کھانا کہا جاتا۔ جدیددَور کے آغاز ہی میں کھانے سے متعلق ایک ایسی صنعت کی ترقی ہوئی، جس کا تذکرہ کم کم ہوتا ہے یعنی چولھے۔1860 ء تک کھانا اینٹوں کے چولھوں پر آگ سے پکایا جاتا تھا۔ جدید چولہے 1860کی دہائی میں ایجاد ہوئے۔ اِن سے باورچی خانے کا نظم و نسق آسان اور صاف ستھرا ہوگیا۔ جدید دَور کے گیس اور بجلی کےچولھےچند سو روپے سے لے کر لاکھوں روپے کے آتے ہیں مگر اُپلوں یا لکڑی کی آگ پر مٹی کی ہنڈیا میں دھیرے دھیرے پکنے والے پکوانوں کی یاد میں بزرگ آج بھی چٹخارے لیتے نظر آتے ہیں۔

کھانے کے برتن بھی انسانی توجّہ اور نفاست ِ طبع کا باعث بنتے رہے ہیں۔ برتن نہ صرف کھانا پکانے اورکھانےکےلیےبنائےجاتےرہےبلکہ فن وثقافت،مصوّری و گُل کاری کے ذریعے اظہار کا نفیس ذریعہ بھی رہے۔ قرونِ وسطیٰ سے پہلے ہندوستان میں کھانا مٹّی کے برتنوں یا پتّوں پر رکھ کر کھایا جاتا تھا۔ بعدازاں تُرک ومغل و ایرانی تہذیبی اثرات ظروف پر نظر آنے لگے اور یہ سونے، چاندی وغیرہ میں بھی ڈھلنےلگے۔ یورپ میں کھانےکےعلاوہ مشروبات کے برتنوں کو انتہائی نفاست، توجّہ اور محنت سے بنایا جاتا تھا۔ برتنوں کےمعاملے میں چین اور جاپان کی روایات سب سےمتاثر کُن ہیں۔ جاپان میں چائے پکانے، دَم کرنے، پیش کرنے اور پینے کے باقاعدہ آداب رہے ہیں۔ اِنھیں پیش کرنے والی گیشا لڑکیوں کو باقاعدہ تربیت دی جاتی تھی۔ 

چین میں بھی انتہائی نازک، کاغذ کی طرح باریک برتن بنائے جاتے رہے، جن کی نقّاشی قابلِ دید ہوتی اور ان پر سونے کے پانی کا کام تو خاصّے کی شےتھا۔ برصغیرمیں منقّش پان دان عام استعمال میں رہے۔ عمومی طور پر چکنی مٹّی اور اِسی نوع کے عناصر سے بنے برتن جلد ٹوٹ جاتے تھے۔ سونے چاندی اور دیگر دھاتوں کےبرتن دیرپامگر منہگے ہوتے۔ 1913میں برطانوی ماہرِدھات، ہیری بیرلے نےاتفاقاً اسٹین لیس اسٹیل ایجاد کرلیا، جس سے برتن اور چمچے، کانٹے چھریاں وغیرہ عام آدمی کی پہنچ میں آگئے۔ پلاسٹک کٹلری نے تو گویا انقلاب ہی برپا کردیا۔ یہ سَستی ہونے کے علاوہ تلف پذیر(ڈسپوزایبل) بھی ہوتی ہے۔

پاک و ہند میں برطانوی حکومت کے دوران لاہور میں کلب سینڈوچ تیار کیا گیا۔ اب یہ دنیا بھرکے ریستورانوں اور بیکریوں میں دست یاب ہے۔ قصّہ کچھ یوں ہے کہ جِم خانہ کلب، موجودہ قائداعظم لائبریری لاہور میں ہوتا تھا۔ یہاں انگریزوں کی بیگمات وقت گزاری کے لیے آتی تھیں۔ ایک مرتبہ بوریت کی شکار چند بیگمات کو ایک ایسا سینڈوچ بنانےکاخیال آیا، جس کی کئی تہیں ہوں۔ یوں مکھن، پنیر، انڈے، چکن، سبزی وغیرہ کو کئی تہوں میں جما کر کلب سینڈوچ تیار کیا گیا۔ یہ سینڈوچ لوگوں کو اتنا پسند آیا کہ جلد ہی برطانوی کالونیوں سے ہوتاپوری دنیا میں پھیل گیا۔ 

ویسے تو عام سینڈوچ کی تیاری کا بھی ایک دل چسپ واقعہ ہے۔ برطانوی علاقے، سینڈوچ کا نواب، ارل آف سینڈوچ جان مونٹاگو ایک عادی جواری تھا۔ وہ ہمہ وقت تاش کے پتّے پھینٹتا رہتااور اپنے احباب کے ساتھ جوا کھیلنے میں مگن رہتا۔ وہ جوئے میں اتنا مصروف رہتا کہ کھانا بھی وہیں منگوالیتا۔ کھانے کے دوران انھیں کھیل روکنا پڑتا اور پتّوں پر چکنائی بھی لگ جاتی۔ سو، اُس نے سوچا کہ ایک ایسا کھاناتیارکیاجائے، جسے کھیل کے دوران بھی کھایاجاسکےاور اس سے لباس اور پتّوں پر چکنائی وغیرہ بھی نہ لگے۔ چناں چہ سینڈوچ وجود میں آیا، جسے کھاتے ہوئے کھیل بھی نہیں روکنا پڑتا اور ہاتھ بھی آلودہ نہیں ہوتے۔ 

سینڈوچ سے متعلق ایک اور بھی قصّہ ہے۔ جان ینگ ایک خلاباز تھا، اُسے سینڈوچ بہت پسند تھے۔ سو، ایک مرتبہ وہ ایک خلائی مشن پر بیف سینڈوچ چُھپا کر لے گیا۔ جب اُس نے خلا میں سینڈوچ جیب سے نکالا تو صفر کششِ ثقل میں سینڈوچ بکھرنے لگا۔ اُس نے بروقت اُسے جیب میں ڈال لیا۔ اگر وہ چند لمحے اور سینڈوچ تھامے رکھتا تو اس کے منتشر اجزا اور ڈبل روٹی کے ذرّات کے باعث اربوں روپے لاگت سے تیار کردہ خلائی شٹل کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا تھا۔ 

واپسی پر نہ صرف جان کو سزا دی گئی بلکہ ناسا نے خاص طور پر ہدایات جاری کیں کہ ’’خلا میں سینڈوچ لے جانا منع ہے۔‘‘ جدید دَور میں پران یعنی جھینگے اور لابسٹر کو خاصّے کی شے سمجھا جاتا ہے، یہ بازاروں اور ہوٹلوں میں خاصے مہنگے فروخت ہوتے ہیں۔ گئے وقتوں میں اِنھیں سمندری کیڑے مکوڑے سمجھتے ہوئے اتنا کم درجہ حاصل تھا کہ یہ ادنیٰ ملازمین یا جیل کے قیدیوں کو دیے جاتے، بلکہ قیدیوں کو ایک خاص مقدار سے زیادہ پران دینا ظالمانہ اور غیرانسانی اقدام سمجھا جاتا تھا۔ اِسی لیے پُرانے وقتوں کے عُمدہ پکوانوں کے احوال میں ان کا تذکرہ نہیں ملتا۔ بیسویں صدی میں مارشل پلان، سبز انقلاب اور ریفریجریٹر کی ایجاد خوراک میں انقلاب لے کر آئے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین