• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ــ"آٹاچینی مہنگاہونے میں حکومتی کوتاہی تسلیم کرتا ہوں" بالآخر وزیراعظم نے اعتراف کرہی لیا کہ قیمتوں کے اضافہ میں صرف پچھلی حکومتوں کا ہاتھ نہیںان کی حکومت کا بھی ہاتھ ہے۔ ان کی یہی ایک بات تواچھی ہے کہ پہلے غلطیاں کرتے ہیں اور جب شورمچتاہے کہ غلطی ان سے یا ان کے حواریوں سے ہوئی ہے تو پھر تحقیقات کرکے اقرار جرم کرلیتے ہیں۔ یقیناً یہ قابل ستائش ہے کہ اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا۔ یقیناً اس سے پہلے کبھی کسی سیاستدان اور حکمراں نے اپنی کی گئی غلطیوں کو باوجود جان لینے کہ ان کا اعتراف نہ کیا۔جہاں تک تعلق ہے گھی اور دال کی قیمتوں میں اضافہ کا یہ کہہ دینا کے ان میں اضافہ روپے کی گرانی سے ہوا ہے۔ کیا یہ جواز قابل قبول ہے۔ اب ذرا حساب کریں کہ ایک ڈالر 125 روپے کا تھا جب یہ حکومت آئی توپھر یہ 125 سے 160 روپے کا ہوگیا۔ روپے کی قیمت میں 28 فیصد اضافہ ہے۔ لہذا اب قیمتوں میں اضافہ بھی کیا28 فیصد ہی ہوا ہےیااس سے بھی زیادہ؟ یہ فیصلہ آپ کو کرنا ہے۔۔۔۔۔ایسے میں پرائس کنٹرول اتھارٹی کے ادارہ کے وجودکا کیا فائدہ جو اپنی ذمہ داریوں کو ادا ہی نہ کرسکے۔ ایسے ادارے صرف حکومت پر اورعوام کی جیب پر بوجھ ہوتے ہیں۔ جنہیں تنخواہیں تو پوری ملتی ہیں عوام سے ٹیکس لیکر ۔لیکن وہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں ناکام ہوتے ہیں۔وزیراعظم کا ایک اور دعویٰ کے پیسہ بنانے والوںکو نہیں چھوڑیں! یقیناً یہ دعویٰ بھی سننے اور پڑھنے میں بہت اچھااور دلکش لگا۔ لیکن کیا اس پر عمل ممکن ہے؟ پیسہ بنانے والوں کی تعریف کیا ہے؟ منافع خوری یقیناً ہمارے مذہب میں منع ہے ۔لیکن منافع خور کی پہچان کون کرے گا؟ کیونکہ جب سے سیلزٹیکس کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔اس کا بوجھ صرف صارف پر ہی ہے۔ کیونکہ آجر تو ایسے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ وہ اپنی اجناس کی قیمت بھی بڑھادیتے ہیں اور ان کا معیار بھی گرادیتے ہیں۔ ایسے میں کم معیاری اشیاء مہنگوںداموں صارف کو ملتی ہے اوردوسری طرف مل مالکان کے منافع میں خاطر خواہ اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس کی واضح مثال تمام اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ سے لگایا جاسکتا ہے۔ " طلب ورسدکامیکنزم بنارہے ہیں" ایک دعویٰ کہ ڈیمانڈ اور سپلائی کا میکنزم بنانا ہے ۔بڑی معذرت کے ساتھ یہ میکنزم بنایا نہیں جاتا ہے بلکہ یہ میکنزم خود موجودہوتا ہے جس کی بنیاد پر مارکیٹ (منڈی) وجود میں آتی ہے۔یعنی خریدوفروخت ہوتی ہے۔ جناب والا!طلب بھی موجود ہے اور رسد بھی ۔ضرورت صرف رسد کو مصنوعی طور پر روکنے والے " آجروں" کو لگام دینی ہے۔ جوکہ آپ کے " اردگردبھی" ہیں اور دوسری سیاسی جماعتوں میں۔ جو کہ پیداوار کے ابتدائی دنوں میں عالمی طلب کی بدولت رسد دے دیتے ہیں(ایکسپورٹ) اور پھر قیمتوں کے اضافہ کی امید پر بقیہ پیداوار کو " گوداموں میں سجا" دیتے ہیں۔ تاکہ جب رسد کم اور طلب زیادہ ہونے کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ کا دباؤ آئے اور پھر اضافہ کے بعد وہ اپنی رسد منڈیوں (مارکیٹ) میں لائیں۔ لہذا جناب والا میکنزم موجود ہے۔آپ کا کام اس میکنزم کو خراب کرنے والے افراد کو پکڑنا ہے اور جو رسد میں مصنوعی کمی کرکے قیمتیں بڑھاتے ہیں اور دوسری طرف ٹیکس لگنے اور بڑھنے کی وجہ سے اپنی مصنوعات کے معیار میں کمی کرتے ہیں اور یوں کم قیمت ہرمال تیار کرکے اس کو اضافی قیمت پر بیچ کر غیرمعمولی منافع کماتے ہیں۔ لیکن یہی افراد (above invoice)اپنی لاگت کو صحیح نہ دیکھاکر اپنا منافع بہت کم دیکھاکر Corporate texبچاتے ہیں لہذا حکومت کو اگر کچھ کرنا ہے تو اپنے آپ کومنظم اوربروقت اقدامات اٹھانے ہوں گے ورنہ دعویٰ دعویٰ ہی رہیں گے۔

تازہ ترین