• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سابق امریکی صدر فرینکلن روز ویلٹ سمیت کئی معروف شخصیات کو پولیو ہوا

لاہور(صابرشاہ) چونکہ پاکستان پولیو وائرس اور اس کی وجہ سے تاحیات معذوری کےخلاف جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہےتوملک کا سب سے بڑا میڈیاہاؤس "جنگ گروپ اور جیو ٹیلی ویژن نیٹ ورک" اب انتہائی جوش وجذبےکےساتھ آگاہی پھیلانےکیلئےمیدان میں آگیاہے۔

درج ذیل میں پولیوکےبارے میں چنداہم تاریخی حقائق پیش کیےجارہے ہیں:18فروری 2020 (منگل) کو اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نےلاہور میں ملک گیر پولیس مہم کے سلسلے میں ایک کنڈرگارٹن اسکول کا دورہ کیااورتین طلباءکو پولیو ویکسین پلائی۔

فروری کی مہم کے دوران ملک بھر میں 3کروڑ90لاکھ سے زائد بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے جائیں گے۔

اس وقت 265000 فرنٹ لائن کارکن موجود ہیں جو مہم کے دوران گھر گھر جاکر اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ پاکستانی بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے جائیں۔

ان کارکنوں میں سے تقریبا 62فیصد خواتین ہیں۔ ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن(ڈبلیو ایچ او) کےمطابق سن 2019 کےدوران پاکستان کو اس وائرس کےروایتی گڑھ سےکہیں زیادہ پھیلائوکاسامنا کرنا پڑا۔

2020 میں اب تک اس کے17 کیسزموجودہیں۔ اس وقت صرف پاکستان اور افغانستان میں بیماری موجودہےاوریہاں پولیوکیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔21

اگست 2019 کونائیجیریا نے تاریخی کامیابی حاصل کی،کیونکہ اس ملک میں گزشتہ تین سال سے پولیو کاکوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا۔ لیکن پولیو سے متاثرہ افراد بہت سارے مشہور لوگوں سےمتاثرہوسکتےہیں جو اپنی زندگی کے دوران پولیو کا شکار ہوئے۔

ان میں 4بارکےسابق امریکی صدرفرینکلن ڈیلانو روز ویلٹ (جنھیں 1921 میں39سال کی عمر میں پولیوہوا اور اس کے بعدوہیل چیئرکااستعمال کیا)شامل ہیں، حالانکہ انہوں نے عوام میں اپنا فالج چھپانے کی کوشش کی تھی، نازی رہنما ایڈولف ہٹلر کے وزیر برائے پروپیگنڈہ ڈاکٹرجوزف گوئبلز، مشہور فلم ساز فرانسس فورڈکوپولا (جو ʼدی گاڈفادرجیسی مشہورفلموں کے ماسٹرمائنڈکےطور پر جانے جاتے ہیں)عظیم سابق بھارتی کرکٹر،بھگوت چندر شیکھر، اورنامورآسٹریلوی ناشرکرکٹ آرگنائزر اور کاروباری رہنما کیری پیکروغیرہ بھی پولیو سے متاثر ہونے والے افراد میں شامل تھے۔

پولیو میلائٹس یاانفنٹائل فالج کے نام سے بھی مشہورپولیوواقعی ایک طویل عرصےدنیا میں پھیل رہاہے۔

اگرچہ اس بیماری کے مہلک نتائج نہیں ہوتے ہیں،لیکن یہ جسمانی طورپرمعذورکردیتاہے ، جس سے کوئی شخص نارمل زندگی نہیں گزارسکتا۔

200ممالک اورعلاقوں میں سرگرم ایک عالمی تنظیم روٹری انٹرنیشنل کےمطابق اب تک اس نے122 ممالک میں ڈھائی ارب سے زائد بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے میں مدد کی ہے۔

یہ کہتے ہیں کہ 1998 میں پولیو کےساڑھے تین لاکھ سے زیادہ کیسز سامنے آئےتھے۔

روٹری کا دعوی ہے کہ آج اس کی کوششوں اوراپنےشراکت داروں اورحکومتوں کی نہ ختم ہونے والی جدوجہد کی وجہ سے پولیو کے واقعات میں 99.9 فیصد سے زیادہ کمی واقع ہوئی ہے۔ 1894 میں ریکارڈشدہ واقعات امریکا میں ورمائنٹ میں پولیو کی وباپھیلی۔

18 اموات اور مستقل طور پر مفلوج ہونے کے 132 واقعات رپورٹ ہوئے۔ 1905 میں سویڈن کےمعالج ایورویک مین نے کہاکہ پولیو ایک متعدی بیماری ہے جو ایک شخص سے دوسرے میں پھیل سکتی ہے اور یہ بھی تسلیم کیا کہ پولیو ایسے لوگوں میں موجود ہوسکتا ہے جن میں اس کی علامات نظرنہیں آتیں۔

1908میں ویانامیں دو معالجین کارل لینڈسٹینر اور ارون پوپر نے پتہ لگایا کہ پولیو ایک وائرس کی وجہ سے ہوتاہے۔

1940 اور 1950 کی دہائی میں اپنے عروج پرپولیو ہرسال دنیا بھر میں 50لاکھ سےزائدافراد کو مفلوج یا ہلاک کرتا تھا۔

1916 میں امریکامیں پولیوکے27ہزارسے زیادہ کیسزاور6000 سے زیادہ اموات ہوئیں، جس میں2ہزارسےزیادہ اموات صرف نیویارک میں ہوئیں۔ 1955 میں ڈاکٹرجوناس ایڈورڈ سالک کی تیارکردہ ایک ویکسین کو"محفوظ اورموثر" قرار دیاگیاتھا۔

سالک (1914-1995) ایک امریکی طبی محقق تھااوروائرولوجسٹ تھے انھوں نےیہ ویکسین 1952 میں امریکا میں وبا پھیلے کے تین سال بعد تیار کی تھی۔اس کے باعث 3145 افرادمارے گئےتھے۔

اُس سال پولیو کے58ہزارسے زائدکیسز رپورٹ ہوئےتھے۔ 12اپریل 1955کوجب ویکسین کی خبر کو منظرعام پر لایا گیاتوسالک کو ایک ’’معجزاتی ورکر‘‘ کے طورپرعزت دی گئی اور وہ دن قومی تعطیل بن گیا۔

سالک نے دعوی کیا کہ اس کی توجہ ایک محفوظ اور موثر ویکسین کو جلد از جلد تیار کرنےپرتھی،اور ذاتی مفاد میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اور اس رویے کو حقیقت سے دوچار کیا گیا کہ ویکسین کا کوئی پیٹنٹ نہیں ہے۔

جوناس سالک کےآخری سال ایچ آئی وی / ایڈز کی ویکسین کی تلاش میں گزرے۔

1960 میں امریکی حکومت نےڈاکٹرالبرٹ سبین کی تیار کردہ زبانی پولیو ویکسین کالائسنس حاصل کیا تھا۔ 1979 میں روٹری انٹرنیشنل نے فلپائن میں چھ لاکھ بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے کے لئے ایک طویل المدتی منصوبےکےذریعےپولیو کے خلاف اپنی جنگ شروع کی۔

1994 میں بین الاقوامی کمیشن برائے انسدادِپولیومیلائٹس نے اعلان کیاکہ پولیو امریکا سے ختم ہوچکاہے۔ 1999 میں کارکنوں نےصرف ایک ہفتےمیں چین اورہندوستان میں165 ملین بچوں کوحفاظتی قطرےپلائےگئے۔ 2000 میں ریکارڈ 55کروڑبچوں، دنیا کی آبادی کا10فیصد،کوپولیو ویکسی دی گئی۔

آسٹریلیاسےچین تک پھیلےمغربی بحر الکاہل کے خطے کو پولیو سے آزادقراردےدیاگیا۔2003 تک صرف 6 ممالک افغانستان ، مصر ، بھارت،نایئجریا، اور پاکستان میں پولیو موجود تھا۔

2006 میں پولیوزدہ ممالک کی تعداد 4 رہ گئی، افغانستان ، بھارت ، نائیجیریااورپاکستان۔ جنوری 2009 میں بل اینڈ میلنڈاگیٹس فائونڈیشن نے35کروڑ50لاکھ ڈالرمختص کیے اور روٹری کو 20کروڑ ڈالر دئیے۔

2011تک روٹری انٹرنیشنل کےپولیو کے خاتمے کے لئےفنڈز 1 ارب ڈالر سے تجاوز کرگئے۔ نومبر2019 میں 2013سے 2019تک کی ضروریات کا اندازہ 4.2ارب ڈالر لگایاگیا۔

نومبر2019میں حکومتوں اورفلاحی کارکنان نے 2.6ارب ڈالر مختص کرنےکاعزم کیاہے تاکہ دنیا سے پولیوکاخاتمہ کیاجائے۔

تازہ ترین