• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مفلسی، بے بسی اور ناچاری نہ کبھی کسی نظریے سے متاثر ہوئی نہ کسی وعدے سے کبھی بہلی، درحقیقت ایسا ممکن ہی نہیں۔ دینی تعلیمات اسی لئے اس امکان کی نشاندہی کرتی ہیں کہ ’’بعید نہیں، بھوک حدِ کفر تک جا پہنچے‘‘۔ یہ بھی کہ ریاست اگر روٹی مہیا نہیں کرتی تو اُسے چور کا ہاتھ کاٹنے کا بھی حق حاصل نہیں۔ تعلیمات، جو حقائق کا نچوڑ ہیں، ہمارے سامنے ہیں اور یہ بھی کہ گزشتہ سال بھر سے اشیائے خورونوش کی گرانی نے عامۃ الناس کیلئے جسم وجاں کا رشتہ برقرار رکھنا محال کر رکھا ہے۔ معاشرے میں بےیقینی اور مایوسی ایسے حالات میں بڑھتی ہے جس پر بروقت قابو نہ پایا جائے تو پھر حالات کو کنٹرول کرنا کارِ آساں نہیں رہتا۔ یہ احسن امر ہے کہ حکومت کو اس صورتحال کا مکمل ادراک ہے اور اس نے اصلاح احوال کی کوششیں بھی شروع کر رکھی ہیں۔ وفاقی کابینہ نے جمعرات کے روز وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں حالات کو سنبھالنے کی سعی میں بجلی اور گیس کی قیمتوں کو چند ماہ تک منجمد رکھنے، مزید کوئی اضافہ نہ کرنے اور عوام کو ریلیف دینے کا فیصلہ کیا ہے، اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں مسلسل کمی کے رجحان پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے آٹے اور چینی کے بحران کی تحقیقاتی رپورٹس بھی طلب کرلی گئی ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس حوالے سے تمام حقائق قوم کے سامنے رکھے جائیں گے، کابینہ کو بتایا گیا کہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں کو آئندہ چند ماہ تک موجودہ سطح پر رکھنے کے حوالےسے لائحہ عمل مرتب کر لیا گیا ہے تاہم اس کا حتمی فیصلہ آئندہ چند روز میں کیا جائے گا۔ تسلیم کہ موجودہ حکومت کو معاشی ناتوانی ورثے میں ملی اور اس نے معاشی استحکام کیلئے شبانہ روز محنت بھی کی لیکن اس کے باوجود حالات میں بہتری دکھائی نہیں دیتی۔ چند روز قبل برطانوی جریدے اکانومسٹ کے انٹیلی جنس یونٹ کی یہ رپورٹ سامنے آئی تھی کہ پاکستان گزشتہ دس برس میں یعنی دسمبر 2010سے جنوری 2020تک مہنگائی کی بلند ترین سطح پر آ گیا ہے اور برسوں پرانے ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں۔ ان حالات میں مبصرین کی یہ رائے صائب تھی کہ حکومت مہنگائی اور دیگر خرابیوں کا پرانی حکومتوں کو ذمہ دار قرار دینے پر اپنی توانائی خرچ کرنے کے بجائے مہنگائی کو مہمیز دینے والے حقائق کا جائزہ لے اور ان اسباب کو تلاش کرکے ختم کرے جو گرانی کا باعث بنتے ہیں۔ غالباً بجلی، گیس کی قیمتوں کے انجماد کا فیصلہ اور پھر پٹرول اور ڈیزل کے بارے میں بھی ایسا ہی لائحہ عمل مرتب کرنے کا عندیہ اسی تناظر میں ہے۔ کون نہیں جانتا کہ ملک میں مہنگائی کو آسمان تک پہنچانے میں انہی تین اشیا کا بنیادی کردار ہوتا ہے، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں اتار چڑھائو کا شکار ہوں تو معاشی ڈھانچہ ہل کر رہ جاتا ہے اور یہی حالت بجلی اور گیس کی گرانی کے سبب پیدا ہوتی ہے۔ کابینہ کا حالیہ فیصلہ صورتحال کے گہرے تجزیے کا نتیجہ نظر آتا ہے جس کا مقصد بجلی اور گیس کی قیمتیں فوری طور پر منجمد کرتے ہوئے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو ایک منصوبہ بندی سے قابو میں لانا اور ان میں کمی کرنا ہے۔ حکومت اگر پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں کو ایک حکمتِ عملی کے تحت اسی سطح پر رکھنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو مہنگائی کی منہ زوری کو بہ سرعت لگام دینا کٹھن نہ ہوگا۔ وزیراعظم اس حوالے سے انتہائی پُرعزم ہیں، جس کا ثبوت اسی ماہ کے اوائل میں اپنے ساتھیوں کو دی جانے والی ان کی یہ ہدایت ہے کہ ’’عوام کو ریلیف بہرحال دینا ہو گا ورنہ ہمیں حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں‘‘ ان کی ٹیم کو اس ہدایت پر عمل کرتے ہوئے اپنی تمام تر توانائیاں بروئے کارلانا ہوں گی تاکہ کمرتوڑ مہنگائی کے بوجھ تلے سسکتے عوام، سکھ کا سانس لے سکیں۔

تازہ ترین