سید اطہر حسین نقوی
اقوام عالم میں ترقی کا اہم راز ایک صحت مند معاشرے کاقیام ہے اور وہی قومیں ترقی کی منازل طے کرتی ہیں، جو بنیادی سطح سے ہی ذہنی، جسمانی اور اخلاقی طورپر صحت مند، مضبوط اور توانا اعصاب کی مالک ہوتی ہیں کیونکہ ان کی افرادی قوت میں وہ تمام عناصر موجود ہوتے ہیں جس سے ترقی خود ان کی طرف بڑھتی ہے، اس کے برعکس وہ اقوام جو ذہنی، جسمانی اور اخلاقی طورپر کمزور اور لاغر ہوتی ہیں وہ ہمیشہ تنزلی کا شکار رہتی ہیں۔ پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں نوجوانوں اور نسل نو کا تناسب دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے، جس سے یہاں کی افرادی قوت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور دنیا کے معاشی ماہرین بھی اس کی تائید کرتے ہیں۔
گزشتہ چند دہائیوں سے دنیا کے زیادہ تر ممالک میں منشیات اور نشہ آور اشیاکا استعمال کثرت کے ساتھ بڑھا ہے اور عام افراد کے ساتھ نوجوان نسل کی بڑی تعداد اس برائی کی طرف مائل ہورہی ہے اور اس نیٹ ورک کی لپیٹ میں مشرقی ممالک کے علاوہ مغربی ممالک بھی آرہے ہیں ، اسی وجہ سے روزانہ نشے کے عادی تقریباً 700افراد اپنے ہی ہاتھوں اپنی زندگی ختم کررہے ہیں۔
قدیم ادوار میں اٹھارویں صدی کے اوائل تک قومیں شراب نوشی اور تمباکو، کو نشے کی علامت سمجھتے تھے لیکن 1874میں ایک انگریز ماہر کیمیاداں نے ڈی اسٹیل مرفین نامی مرکب تیار کیا جس کو دنیا ’’ہیروئن‘‘ کے نام سے جانتی ہے جس کا اہم مقصد دشمنوں کو تسخیر اور زیر کرنے کا تھا۔ دوسری جنگ عظیم میں اس کے بھی اثرات پائے جاتے ہیں اس کے بعد بہت سے ممالک میں اس کا پوشیدہ استعمال شروع ہونے لگا اور یہ وبا ہر عمر کے افراد کو اپنی لپیٹ میں لینے لگی اور اس کا خاص نشانہ نوجوان نسل بنی۔
ہیروئن جیسی منشیات سے منسلک مختلف نوعیت کی نشہ آور دیگر منشیات بھی سامنے آنے لگیں۔ 2019ءکی ورلڈ ڈرگ رپورٹ کے مطابق دنیا کے تقریباً 35ملین افراد منشیات کو مختلف طریقوں سے استعمال کررہے ہیں، جن کی عمریں 12سے 64سال تک کی ہیں۔ افریقا، ایشیا، یورپ اور نارتھ امریکا جیسے بڑے بڑے خطے ڈرگ مافیا کے نیٹ ورک سے منسلک ہیں، اب تو مغربی دنیا سے بھی حیران کن انکشافات سامنے آنا شروع ہوگئے، وہاں بھی اسکول لیول کے بچے مختلف اقسام کی نشہ آور ڈرنک اور سگریٹ نوشی میں مبتلا ہیں اور اسی رپورٹ میں درج ہے کہ ہر سال 11.8ملین افراد منشیات کے کثرت سے استعمال کی وجہ سے بھی مرجاتے ہیں۔
پاکستان میں بھی منشیات اور الکحل کے عادی افراد کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ پاکستان میں ہیروئن، افیون، بھنگ، چرس، حشیش اور کرسٹل میتھ (شیشہ) سرفہرست ہے ایک اندازے کے مطابق ایک سال میں 44ٹن ہیروئن پاکستانی افراد استعمال کررہے ہیں گزشتہ چند سالوں میں 6.7 ملین نوجوان لڑکے، لڑکیاں جن کی عمریں 16سے 35سال تک ، جن میں 78فی صدلڑکے اور 22 فی صدلڑکیاں خطرناک اقسام کی منشیات استعمال کررہے ہیں خواہ ان کا تعلق کسی بھی طبقے سے ہو۔
آج کل پاکستانی معاشرے میں نوجوان نسل میں سب سے زیادہ مقبول منشیات ’کرسٹل میتھ‘ ہے۔درحقیقت کرسٹل میتھ ایم فٹامین کا ہی مخفف ہے اس سے انسانی جسم کو غیرمعمولی نوعیت کی طاقت کی تحریک پیدا ہوتی ہے ہماری نوجوان نسل اپنی پارٹیوں میں یا مختلف کیفے میں اس کا آزادانہ استعمال کررہے ہیں، اسے سانس کے ذریعے اندر کھینچ کر استعمال کیا جاتا ہے یا پھر سوئی کے ذریعے انجکشن میں محلول کی شکل میں جسم کے اندر داخل کیا جاتا ہے۔ یہ بے رنگ ہوتی ہے۔
اس میں کسی بھی قسم کی خوشبو نہیں ہوتی اسی لئے اس کا نام شیشہ یا کرسٹل کے ٹکڑوں کی مشابہت کے باعث دیا گیا ہے۔ مزید تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ بازار میں اس کو ’’Desoxyn‘‘ کے نام سے فروخت کی جاتا ہے اور طبی اعتبار سے ماہرین ڈاکٹرز ’’Narcolepsy‘‘ بہت زیادہ ذہنی دبائو کی وجہ سے علاج کے لیے مریضوں کو دیتے ہیں، جن میں چند مریض اس دوا کو اپنی عادت اور روزمرہ کے استعمال میں شروع کردیتے ہیں کیونکہ اس کے اندر پائے جانے والے مرکبات میں کوکین جیسے اثرات ملتے ہیں۔
موجودہ دور میں تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال کا رجحان بہت زیادہ بڑھ چکا ہے جس سے طلباءو طالبات کی صحت اور زندگی پر مضر اثرات پڑ رہے ہیں ایک سروے کے مطابق پاکستانی اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور دیگر تعلیمی مراکز پر ہر دس میں سے ایک طالب علم منشیات کا عادی ہے جبکہ شہری علاقوں میں تناسب بہت زیادہ ہے اور تیزی کے ساتھ نوجوان نسل اس طرح راغب ہورہی ہے۔ آج کل پوش علاقوں میں مختلف اقسام کے حقہ لائونچ، شیشہ گھر، کیفے ٹیریاز کھلے ہوئے ہیں جہاں ہماری نوجوان نسل گروپ کی شکل میں منشیات کا استعمال کرتے ہیں۔ اب تواسے فیشن کا درجہ حاصل ہوتاجارہا ہے اور ہماری نوجوان نسل تعلیم یافتہ اور باشعور ہونے کے باوجود اس دلدل میں دھنستی جارہی ہے۔
دنیا کے طبی ماہرین، ڈاکٹرز کے علاوہ مختلف عالمی تجزیاتی رپورٹوں نے ان عوامل اور خدشات کی باقاعدہ نشاندہی کی ہے ،جن کی وجہ سے نوجوان استعمال کرتے ہیں۔
-1اخلاقی تربیت کا فقدان، -2عدم تحفظ کا احساس، -3احساس کمتری یا مایوسی، -4 دوستوں کی بری صحبت، -5گھریلو مسائل، -6 شدید ذہنی دبائو، -7معاشرتی ناانصافی (حق تلفی) -8بیروزگاری، -9انٹرنیٹ اور موبائل کا استعمال، -10مقابلہ بازی،یہ وہ چند اہم عوامل ہیں، جن کی بناء پر نئی نسل کے جسم میں منشیات کا زہر سرائیت کرتا جارہا ہے، پھر وہ ایسی جگہوں کا اور ایسے دوست احباب کا انتخاب کرتے ہیں۔
جہاں سے ان کی مطلوبہ چیز (نشہ) باآسانی مل جائے ان کو پھر کسی بات کی فکر نہیں ہوتی۔ وہ اپنی مرضی کے مالک بن جاتے ہیں جو بھی ان کی اصلاح کی کوشش کرتا ہے اس کو وہ اپنا دشمن تصور کرنے لگتے ہیں، اسی وجہ سے وہ جسمانی، ذہنی اور اخلاقی پستی کی طرف گامزن رہتے ہیں اورمختلف بیماریاں جن میں منہ اور پھیپھڑوں کا کینسر، تپ دق، ہیپاٹائٹس، جگر کی بیماریاں، ایڈز، معدرے کی کمزوری، جلدی امراض، ذیابیطس، ہارٹ اٹیک، دماغی امراض، نفسیاتی مسائل سے دوچارہوتے ہیں۔
والدین اور گھر کے سرپرست کی سب سے پہلی ذمے داری ہے کہ وہ اپنی نوجوان نسل کی مشکوک سرگرمیوں پر بھرپور نظر رکھیں اور ساتھ ہی اساتذہ کرام کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے اردگرد کے ماحول کو دیکھیں اور طالب علم کی حرکات و سکنات کو مسلسل نوٹ کریں اور اُن وجوہات پر بھی توجہ دیں کہ آپ کے بچے کے اندر روزمرہ کے معمولات میں کیوں تبدیلی رونما ہورہی ہے۔
شدید غصہ یا ہیجانی کیفیت،جسمانی طورپر کمزور ہونا،تدریسی مراکز اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں سے غیر حاضری،امتحانات میں ناکامی،والدین، رشتے داروں اور دوستوں سے زیادہ رقم کی فرمائش یا قرضہ لینا،جھوٹ بولنا،مختلف اقسام کی ادویات کا استعمال۔ان باتوں کی نشاندہی بین الاقوامی ادارے WHOنے اپنی رپورٹ میں بھی درج کی ہے۔ اگر یہ عادتیں والدین اور دیگر افراد محسوس کریں تو فوری طورپر آپ پیار و محبت کے ساتھ اپنی نسل نو اور نوجوانوں کو سمجھائیں اور ان کو علاج کے لیے مستند میڈیکل سینٹرز لے کر جائیں۔
پاکستان میں بھی منشیات میں مبتلانوجوان نسل اور عادی افرادکی اصلاح اور علاج کے لئے حکومتی سطح پر اور اس کے علاوہ دیگر تنظیمیں اور فلاحی ادارے بھرپور کام کررہے ہیں تاکہ ایک صحت مند معاشرہ قائم کرسکیں اس کے لئے ضروری ہے،
1۔والدین اپنی خصوصاً نوجوان اولاد کی طرف سے غفلت کا مظاہرہ نہ کریں بلکہ ان کی ذہنی پختگی کی صحیح نشوونما کریں۔ صحت، تعلیم اور ان کے دیگر مسائل کا بغور مشاہدہ کریں ،ان سے دوستوں کا ماحول رکھیں اور ان کی جائز ضروریات کو پورا کریں۔
2۔اساتذہ اکرام اور ٹیچرز کا بھی فرض ہے کہ مستقبل کے معماروں کی بھرپور طریقے سے رہنمائی کریں انہیں اخلاقیات اور معاشرے میں گمراہ کن مسائل کے بارے میں آگہی دیں تاکہ وہ اپنے مستقبل کے بارے میں بہتر اور اچھے فیصلے کرسکیں۔ غیر متعلقہ افراد کی آمدورفت کے بارے میں انتظامیہ سے رابطہ رکھیں اور تعلیمی اداروں میں مشکوک سرگرمیوں کی نشاندہی کریں۔
3۔تعلیمی اداروں، درس گاہوں اور مختلف فورم پر آگہی پروگرام منعقد کرنے چاہئیں تاکہ منشیات کی عادی نوجوان نسل ’’بچائو مہم‘‘ کا آغاز کرنا چاہئے۔
4۔وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو چاہئے کہ منشیات کے عادی نوجوانوں اور دیگر افراد کے لئے ملک کے تمام اضلاع میں میڈیکل سینٹرز قائم کریں بلکہ موبائل میڈیکل ڈرگ ایڈ کے نام سے ایک موبائل سروس شروع کی جائے تاکہ ان افراد کی نشاندہی ہوسکے اور انہیں علاج کی سہولت مہیا کی جائے۔
5۔حکومت منشیات کی روک تھام کے لئے ملکی سطح اور مستقل بنیادوں پر بین الاقوامی منشیات کے قوانین کے مطابق اپنی پالیسیوں کو مزید مضبوط اور مستحکم کرے تاکہ ان اسباب کا خاتمہ ہوسکے،جہاں سے منشیات کی رسد پاکستان میں آتی ہے کیونکہ نوجوان نسل ہی ہماری قوم کا اثاثہ ہ ہے اور ایک صحت مند معاشرے کے قیام میں اس افرادی قوت سے ہم ترقی کے مراحل طے کرسکتے ہیں۔
اس سلسلے میں پاکستانی افواج، رینجرز، کوسٹ گارڈز، پاکستان کسٹم، اینٹی نارکوٹکس فورس اور دیگر اہم اداروں کے نوجوان اور افسران اپنی خدمات پیش کررہے ہیں تاکہ وطن عزیز سے منشیات کا ناپاک زہر جو کئی دہائیوں سے نوجوانوں کو گمراہ اور تاریک راہوں پر ان کے مستقبل کو دائو پر لگا رہا ہے، اس سے مکمل طورپر آزادی مل سکے اور ہم ایک زندہ قوم کی حیثیت سے ہمیشہ جاوداں رہیں۔