توصیف خان
انسانی زندگی میں سائنس کی اہمیت روزاوّل سے ہی مسلّم ہے لیکن اس طرف توجہ کافی بعد میں دی گئی۔ دھیرے دھیرے انسان کا مزاح بدلا اور جب اسے سائنس کی افادیت کا اندازہ ہوا تب اس نے سائنس کو کھلے دل سے قبول کرنا شروع کیا۔ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ سائنس نے جہاں انسانی زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا وہیں ادب بھی اس سے متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکا۔ دنیا کے ہر ادب میں وقتاً فوقتاً سائنس کی شمولیت ہوتی چلی گئی۔ اردو شاعری اور فکشن میں یہ سلسلہ دور قدیم سے جاری ہے۔ہم میر و غالب کے اشعار میں بھی سائنس کاپہلوتلاش کر سکتے ہیں اور طلسم ہوش ربا اور باغ و بہار جیسی داستانوں میں بھی۔
اردو ادب میں سائنس کی ایجادات اور نظریات وقت کے ساتھ ساتھ شامل ہوتے گئے۔ان کےمطالعے سے یہ پتا چلتا ہے کہ ہم نے ادب میں کس طرح کے سائنسی عناصر شامل کیے ہیں اور دور حاضر کے تقاضے کیا ہیں۔
غالباًہرزبان کا سائنسی ادب نئی نئی ایجادات کو ضرور پیش کرتا ہے خواہ وہ منظر عام پر آئی ہوں یا نہیں۔اکثر سائنس فکشن لکھنے والے ادیبوں نے صرف قاری کی دلچسپی اور تجسس برقراررکھنے کے لیے اس طرح کے آلات یا مشینری کا استعمال اپنے ناولوں یا افسانوں میں کیا ہے۔
کسی بھی سائنس فکشن میں اگر کسی جنگ یا کوئی چھوٹے موٹے گروہوں کی جھڑپ کا منظر پیش کیا جاتا ہے تو عجیب و غریب قسم کے آلات کی وجہ سے ہیرو یا ڈٹیکٹو بچ کر بدمعاشوں کو شکست دے دیتا ہے یا کسی سائنسی ناول میں جنگ کا سین ہے تو وہ ریڈیائی یا دیگر جدید اسلحوں سے لڑی جاتی دکھائی دیتی ہے۔
سائنس کی ترقی کی وجہ سے آج کمیونکیشن میں جو آسانیاں پیدا ہو گئی ہیں وہ اب سے کچھ سال پہلے نہیں تھیں لیکن سائنس فکشن لکھنے والے ادیبوں نے کافی پہلے ہی موبائل، کمپیوٹر، انٹرنیٹ، ویڈیو کالنگ شاید ہی ایسا کچھ ہو جس کا استعمال انھوں نے اپنے ناولوں یا افسانوں میں نہ کیا ہو۔آج ہم کسی سے رابطہ کرنے کے لیے یا اپنی بات کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے کے لیے طرح طرح کے سوشل سائیڈ اور چیٹنگ ایپ کا استعمال کرتے ہیں۔سائنس فکشن میں ان کا ذکر بہت پہلے سے کیا جا رہاہے۔اس ضمن میں اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’انٹرنیٹ پر چیٹنگ کے دوران ایک دوسرے کی تصویریں اسکرین پر دیکھتے ہوئے بات چیت کرنا آج ایک عام سی بات ہے کسی بھی اسمارٹ موبائل فون میں یہ خوبی موجود ہے اور آپ مخاطب کی تصویر اسکرین پر دیکھ سکتے ہیں۔لیکن سب سے پہلے یہ تصورایک سائنس فکشن نگار کے ہی ذہن میں آیا۔1911 میں Hugo Gernsback نے اپنے ناول Ralph124 C 41+ میں پیش کیا۔اس کے 53 سال کے بعد 1964 میں ایک کمپنی نے پکچر فون کا پہلا نمونہ نیو یارک ورلڈ فئیر میں پیش کیا تھا اور آج اسکائپ نامی سروس کی مدد سے ہم بڑی آسانی سے اپنے موبائل فون،لیپ ٹاپ یا ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر پر ایک دوسرے کو آمنے سامنے دیکھتے ہوئے باتیں کرتے ہیں۔‘‘.
گزرے وقتوں میں مختلف قسم کے ا آلات تجسس کا سامان ہوتے تھے لیکن عہدِحاضر میں اس طرح کے آلات سے وہ تاثر نہیں پڑ تا ،دوسرے یہ کہ کبھی کبھی ایسا بھی لگنے لگتا ہے کہ ان آلات یا اشیاءکی صرف تشہیر کی جا رہی ہے۔آج کل فلموں میں باقاعدہ معاہدے کے تحت یہ کام ہوتا ہے۔
بعض اوقات سائنس فکشن پر مبنی فلموں کو دیکھنے یاجاسوسی ناولوں کو پڑھنے سے ایسا لگتا ہے کہ سامعین کوصرف مرعوب کرنے کی عمدہ کوشش کی گئی ہے۔
.6 ادب ہمیشہ سے انسان کے لیے تفریح کا ذریعہ رہا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ادب بامقصد زندگی کا ذریعہ بنتا گیا۔اگر ہم ادب کا بہ نظرِغائر مطالعہ کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ سائنس فکشن میں صرف تجسس اور ایڈونچرنظر آتا ہے مقصد نہیں۔ کسی سائنسی ناول میں کوئی جاسوس یا ڈٹیکٹو اپنی ہوشیاری اور جدید آلات کی مدد سے کامیابی حاصل کر لے یا کوئی کیس سلجھا لے تو اس میں ایڈ ونچراور تفریح طبع تو ہے لیکن مقصد نہیں۔
اب ہم سائنسی ادب (سائنس فکشن/ شاعری) سے دور حاضر کے تقاضوں کی نشان دہی کی ہے مثلاََ.1 گلوبل وارمنگ،.2 ایکو ٹیررزم،.3 آلودگی ,فضائی آلودگی/ ہوائی آلودگی،صوتی آلودگی،زمینی آلودگی،آبی آلودگی،ریڈیائی آلودگی وغیرہ۔
.4 اوزون پرت،.5 نفسیات کا مثبت ارتقا ء،.6 نظم و ضبط،انداز اور آداب کا ارتقاء وغیرہ۔
پوری دنیا کے لیے گلوبل وارمنگ ایک مسئلہ بنا ہوا ہے۔اس کی وجہ سے سمندرکی سطح تیزی سے اوپر اٹھ رہی ہے جس کے سبب آس پاس کی بستیوںیا پھر جزیروں پر بسنے والے لوگوں کے لیے پانی کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ کِریباتی جزیرے پرپانی کی سطح اس قدر اوپر اٹھ گئی ہے کہ وہاں کے صدر نے فِجی میں زمین خرید کر اپنے ملک کے لوگوں کو وہاں بسانے کا اعلان کیا۔
کیا اب وہ وقت نہیں آ گیا جب سائنسی ادب میںگلوبل وارمنگ کے بارے میں لکھا جائے ، تاکہ لوگوں میں آگاہی ہو۔
ایکو ٹیررزم ایک ایسی دہشت گردی کو کہتے ہیں جو ایکو سسٹم اور ماحول کو بری طرح متاثر کرتاہے۔اس میں صارفین اور کافی حد تک ذمے دار ہیں۔اردو افسانہ نگاانور قمرنے اپنے ایک افسانے ’ہاتھیوں کی قطاراسی تناظر میں لکھا ہے۔ افسانے کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’گزشتہ دس سالوں سے بیرام جی محسوس کر رہے تھے کہ ان کے کھیل اور تفریح کے میدان،وہ بنگلے،وہ پہاڑیاں،وہ بل کھاتی سڑکیں رفتہ رفتہ غائب ہوتی جا رہی ہیں اور ان کی جگہ دیو پیکر،آہنی سنگلاخ کی سیدھی اور سپاٹ عمارتیں کھڑی ہوتی جا رہی ہیں۔رفتہ رفتہ قدرتی حسن پامال ہو رہا ہے۔اب نہ تو سبزہ ہے نہ درخت،نہ پھول ہیں نہ پتے،نہ چڑیاں ہیں نہ گلہریاں،نہ تتلیاں ہیں نہ بھنورے،نہ گرگٹ ہیں نہ ٹڈّے،کچھ بھی تو نظر نہیں آتا!او گاڈ،وہ سب کہاں گئے؟کیا ہوئے؟انھیں زمین کھا گئی یاآسمان نگل گیا؟کئی دنوں تک وہ بڑے فکر مند رہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ کیوں ہو رہا ہے؟ کیسے ہو رہا ہے؟ کتنا ہو چکا ہے؟ اور کتنا ہونا باقی ہے؟ اس کی کوئی انتہا بھی ہے؟ اس کا کوئی خاتمہ بھی ہے؟ یا یہ اسٹیل اور سیمنٹ کا جنگل جو ہر لمحہ اور ہر پل اپنے پھیلاؤ میں بڑھتا ہی جا رہا ہے،کہیں ایسا نہ ہو کہ انسان کی ہر سانس کا احاطہ کر لے اور اس کا جینا دوبھر کر دے یہ تو اس کے ذہن،قلب اور روح پر ظلم کا پہاڑ بن کر ٹوٹ رہا ہے؟مجھے اس کی مخالفت کرنی ہی پڑے گی۔‘‘
راشد انور راشد کے شعری مجموعے ’گیت سناتی ہے ہوا‘کی ساری نظمیں اور غزلیں ایکو سسٹم کی حمایت میں تخلیق کی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر ان کی ایک غزل کے دوشعرملاحظہ فرمائیں:
چہار سمت سے اب کاٹتا ہے جنگل کو
یہی قبیلہ کسی وقت پوجتا تھا درخت
نہ کر سکا وہ مسافر کا دل سے استقبال
خود اپنی چھاؤں سے محروم ہو چکا تھا درخت
ہمیں اپنے سائنسی ادب کا احتساب کرنا ہوگا ۔آج ہمیں ماحولیات کے تناسب کو برقرار رکھنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرنے کی ضرورت ہے، اس کام میں سائنسی ادب بھی اپنا مثبت رول ادا کر سکتا ہے۔