محمد عباس دھالیوال
اہل ادب میں جب بھی شاعری کی بات چلتی ہے تو ایک نام ذہن میںیکدم گردش کر جاتا ہے وہ ہے مرزا غالبؔ ۔، غالب کی نہ صرف شاعری بلکہ ان کی نثر کا جادو بھی اہل ادب کے سر چڑھ کر بولتا ہے یعنی اہل ادب میں غالب آج بھی اسی ذوق و شوق کے ساتھ پڑھے اور پڑھائے جاتے ہیں جیسے آج سے ڈیڑھ سو سال قبل پڑھے جاتے تھے ایسا لگتا ہے، غالب کی تخلیقات کو ادبی دنیا میںرہتی دنیا تک زوال نہیں۔ منفرد انداز بیاں کا نہ صرف انھیں احساس تھا بلکہ اپنے ہم عصر شعراء سے جداگانہ روش اختیار کر کے چلنے پہ انھیں ناز بھی تھا، یہی وجہ ہے کہ وہ اس بات کی خود اپنے منہ سے وضاحت کرتے نظر آتے ہیں کہ:
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور
غالب کو اپنی فارسی شاعری پہ بے حد ناز تھا ۔لیکن ان کی مقبولیت کا باعث ان کا اردو دیوان بنا ۔غالب کی شاعری میں جا بجا قلندرانہ صوفیانہ رنگ ملتا ہے۔
ہاں۔! بھلا کر تیرا بھلا ہوگا
اور درویش کی صدا کیا ہے
غالب میں یہ صفت تھی کہ اچھا شعر کسی کا بھی ہو ، داد دینے میں ذرا بھی بخل نہیں کرتے تھے، کئی مرتبہ تعریف اس قدر کرتے کہ مبالغہ آرائی محسوس ہونے لگتی ،جب انھوں نے مومن کا یہ شعر سناکہ
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
تو برجستہ کہا کہ’’ کاش مومن میرا سارا دیوان مجھ سے لے لیتا اور یہ شعر مجھ کو دے دیتا‘‘۔
مولانا الطاف حسین حالی ،جن کا شمار غالب کے ہونہار شاگردوں میں ہوتا ہے، انہوں نے مرزا غالب کی زندگی کے شب وروز کو بہت قریب سے دیکھا۔وہ لکھتے ہیں کہ ’’ مرزا غالب کے اخلاق نہایت عمدہ تھے۔ وہ ہر ایک شخص جو ان سے ملنے جاتا تھا،بہت کشادہ و خندہ پیشانی سے ملتے تھے ،جو شخص ان سے ایک دفعہ مل آتا تھا،اس کو ان سے دوبارہ ملنے کا اشتیاق رہتا تھا۔دوستوں کو دیکھ کر باغ باغ ہو جاتے تھے۔ان کی خوشی سے خوش اور ان کےغم سے غمگین ہوجاتے تھے۔اس لیے ان کے دوست جو ہر ملت و مذہب سے تعلق رکھتے تھے،نہ صرف دہلی میں بلکہ تمام ہندوستان میں بے شمار تھے۔‘‘حالی نے یاد گارغالب میں مرزاغالب کو ’’حیوان ظریف ‘‘ کہا ہے۔
مرزا غالب کے خطوط کے مطالعہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہےکہ ان کی تحریر میں ’’آورد نہیں‘‘ بلکہ آمد ہے ،یہی وجہ ہے کہ حالی لکھتے ہیں کہ’’مرزا سے پہلے نہ کسی نے خط کتابت کا یہ انداز اختیار کیا اور نہ ان کے بعد کسی سے اس کی تقلید ہو سکی۔‘‘
بے شک غالب جدید اردو نثر کے موجد تھےان کی اس خصوصیت کا ذکر کرتے ہوئے شبلی نعمانی لکھتے ہیں کہ’’اردو انشاء پردازی کا آج جو انداز ہے، اس کا سنگ بنیاد، دراصل مرزا غالب نے رکھا تھا۔‘‘اسی ضمن میںمکاتب غالب کی صفت بیان کرتے ہوئے شیخ اکرم کہتے ہیں کہ’’غالب نے دہلی کی زبان کو تحریری جامہ پہنایا اور اس میں اپنی ظرافت کی ایسی گلکاریاں کیں کہ اردو معلی خاص و عام کو پسند آئی اور اردو نثر کے لیے ایک طرز ِ تحریر قائم ہو گیا،جس کی پیروی دوسروں کے لیے لازم تھی۔‘‘
دراصل غالب کے خطوط ان کی زندگی اور اس وقت کے سیاسی عروج و زوال کی دستاویز ہیں۔وقار عظیم اس ضمن میں لکھتے ہیں کہ’’غالب کے خطوط ان کے عہد کے سیاسی تہذیبی اور معاشرتی انقلاب کی دلکش روداد تو ہیں ہی لیکن اس سے بھی زیادہ لکھنے والے کی زندگی کا آئینہ ہیں۔اس آئینے میں غالب کی بھرپور زندگی کا عکس دیکھائی دیتا ہے‘‘۔
ایک خط میںغالب لکھتے ہیں’’میںتنہائی میں صرف خطوں کے سہارے جیتا ہوں۔یعنی جس کا خط آیا،میں نے جانا وہ شخص تشریف لایا۔خدا کا احسان ہے کہ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جو اطراف سے دوچار خط نہیں آرہےہوتے ہوں۔۔دن ان کےپڑھنے میں اور جواب لکھنے میں گزر جاتا ہے‘‘۔
اسی طرح ان کے کلام میں مختلف جگہ اس کی جھلکیاں صاف دیکھی جاسکتی ہیں، جن سے ان کی خطوط سے رغبت کا صاف پتا چلتا ہے۔ملاحظہ فرمائیں چند اشعار۔
خط لکھیں گے گر چہ مطلب کچھ نہ ہو
ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے
……٭…٭…٭…٭……
مگر لکھوائے کوئی اس کو خط تو ہم سے لکھوائے
ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے
غالب کی شاعری و نثر وقت، مقام اور زبان کی قید سے آزاد ہے۔ ان کی تخلیقات میں جوحسن و د ل کشی پوشیدہ ہے، اس کو ادب کی دنیا میں رہتی دنیا تک زوال نہیں ۔
ہوئی مدت غالب مر گیا پر یاد آتا ہے
وہ ہر اک بات پہ کہنا ،کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا