• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نے اُن سے پوچھا ’’حضور! بندے اور رب کے رشتے یعنی مالک حقیقی اور مخلوق کے رشتے کا بہترین اظہار کیا ہے؟ عبودیت کا بہترین اظہار کیسے ہوتا ہے؟ اُن کا جواب فقط ایک لفظی تھی، فرمایا ’’دعا‘‘۔ دعا بندے اور اس کے رب کے درمیان مضبوط ترین رشتہ ہے اور عبودیت، اطاعت، غلامی اور بندگی کا بہترین اظہار ہے۔ دعا اللہ پاک کے رحمٰن اور رحیم ہونے پر کامل یقین کا اظہار ہے۔ نماز بھی دعا ہے اور جو لوگ دعا کے حوالے سے تشکیک یعنی شک میں مبتلا ہوتے ہیں یا مبتلا کرتے ہیں وہ گویا رب کی ربوبیت اور رب کے رحمٰن اور رحیم ہونے پر شک کرتے ہیں۔ اسی لئے قرآن مجید کا فرمان ہے ’’یقیناً میرا رب قریب ہے اور وہ دعائوں کا جواب دینے والا ہے‘‘ (سورۃ 11 آیت 61)  تمہارا رب کہتا ہے ’’مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا۔ جو لوگ گھمنڈ میں آ کر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں وہ ضرور ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے‘‘ (سورۃ 40 آیت60) ’’وہ ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کی دعا قبول کرتا ہے اور اپنے فضل سے ان کو زیادہ دیتا ہے‘‘ (سورۃ 42 آیت 26) اللہ سبحانہ ٗ و تعالیٰ اپنی مخلوق کی دعائیں سنتے اور قبول کرتے ہیں۔ قرآن حکیم کے الفاظ میں دعا کی قبولیت کے لئے نیک عمل بھی ایک شرط ہے۔ تیقن یعنی دعا کی قبولیت پر یقین اور اللہ پاک کی رحمت پر کامل بھروسہ بھی شرط ہے۔ عقل کے گورکھ دھندے میں پھنس کر یقین کا ڈانواں ڈول ہو جانا ایمان کو کمزور کرنے کے مترادف ہے کیونکہ دعا ایمان کی مضبوطی کا ثبوت ہوتی ہے۔ حضرت علی بن عثمانؒ ہجویری المعروف داتا گنج بخش نے کشف المحجوب میں ایک ولی کامل کا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک شخص نماز ادا کرنے کے بعد دعا مانگے بغیر جا رہا ہے تو اُسے روک لیا اور پوچھا کیا تمہارے پاس مانگنے کو کچھ بھی نہیں ہے؟ میں تو نمک بھی اپنے رب سے مانگتا ہوں۔ مطلب یہ کہ مانگنا، جھولی پھیلانا، خضوع و خشوع اور یقین سے اپنے رب کے سامنے ہاتھ پھیلانا رب کو بےحد پسند ہے اور اس سے بندے کا اپنے رب سے رشتہ مضبوط تر ہوتا ہے۔ جو لوگ دعا کی تاثیر پر شک میں مبتلا ہوتے ہیں یا مبتلا کرتے ہیں گویا اللہ پاک سے اپنا رشتہ کمزور کرتے ہیں یا گھمنڈ میں مبتلا ہوتے ہیں۔

دعا ایک ذریعہ ہے اپنے رب کو پہچاننے کا۔ مولا علیؓ کا فرمان ہے میں نے رب کو اپنے ارادوں کے ٹوٹنے یا ناکامی سے پہچانا۔ بندہ دعا کے ذریعے اپنے رب کو پہچانتا اور اپنے مالک حقیقی تک رسائی حاصل کرتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’اگر تم اللہ تعالیٰ کو پہچانتے جیسا کہ اُسے پہچاننے کا حق ہے تو تم سمندر پہ چلتے اور اپنی دعا سے پہاڑوں کو اپنی جگہ سے ہٹا دیتے‘‘ (کشف المحجوب صفحہ 267) حضرت علی بن عثمانؒ ہجویری وضاحت فرماتے ہیں ’’جو شخص فی الحقیقت خدا کا بندہ اور اُس کا خلیفہ بن جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ خدا کی مخلوق اس سے سرتابی کرے اور اُس کا حکم نہ مانے‘‘۔

بابِ علم اور شہرِ حکمت حضرت علیؓ نے اپنے بیٹوں کو مثالی زندگی گزارنے کے لئے وصیت کی جس کا ایک ایک لفظ حکمت اور ہدایت کا خزانہ ہے۔ آپ نے فرمایا ’’میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرتے رہنا، اس کا حکم ماننا، اس کے ذکر سے دل کو آباد رکھنا اور اس کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنا، تمہارے اور اللہ کے درمیان جو رشتہ ہے اس سے زیادہ مضبوط کوئی اور رشتہ نہیں، شرط یہ ہے کہ تم اُسے تھام کر رکھو‘‘۔

’’ اس نے توبہ کا دروازہ کھول رکھا ہے۔ جب بھی اسے پکارو، تمہاری پکار سنتا ہے۔ تم اس سے مرادیں مانگتے ہو اور اسی کے سامنے اپنے دل کے بھید کھولتے ہو۔ تم اسی سے اپنے کاموں میں مدد مانگتے ہو اور اس کی رحمت کے خزانوں سے وہ چیزیں طلب کرتے ہو جو کوئی دوسرا کسی حال میں نہیں دے سکتا۔ اس نے دعا کی اجازت دے کر تمہارے ہاتھ میں اپنے خزانے کی کنجیاں دے دی ہیں کہ جب چاہو ان کنجیوں سے رحمت کے دروازے کھول سکتے ہو اور نعمتوں کی بارشیں برسا سکتے ہو۔

ہاں کبھی دعا قبول ہونے میں دیر ہو جائے تو اس سے ناامید نہ ہو کیونکہ دعا کا قبول ہونا تمہاری نیت پر منحصر ہے۔ کبھی کبھی دعا قبول ہونے میں دیر کی جاتی ہے، اس میں مانگنے والے کو اس کی طلب سے زیادہ اور اُمیدوار کو اس کی اُمید سے زیادہ بخشش ہو سکتی ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ تم کوئی چیز مانگتے ہو اور وہ نہیں ملتی مگر آگے چل کر دنیا یا آخرت میں اس سے اچھی چیز مل جاتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ تمہاری بھلائی کی خاطر تمہیں محروم رکھا جائے کیونکہ تم ایسی چیز بھی مانگ سکتے ہو کہ اگر تمہیں دے دی جائے تو تمہارے دین کی بربادی کا خطرہ ہے۔ تمہاری دعا ان ہی باتوں کے لئے ہو جو تمہارے لئے فائدہ مند ہوں اور جو چیزیں نقصان دہ ہیں وہ تم سے دُور رہیں۔ دولت باقی رہنے والی نہیں اور نہ تم اس کے لئے باقی رہنے والے ہو۔

بیٹے، تمہیں آخرت کے لئے پیدا کیا گیا ہے، دنیا کے لئے نہیں۔ تم موت کے لئے بنے ہو، زندگی کے لئے نہیں۔ ایسا نہ ہو کہ تم توبہ کے لئے سوچتے ہی رہ جائو اور موت تمہارے اور توبہ کے درمیان حائل ہو جائے۔ ایسا ہو تو سمجھ لو کہ تم نے اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالا۔‘‘ (معاملاتِ حضرت علیؓ از قیوم نظامی)

مطلب یہ کہ توبہ بھی دعا ہے اور دعا کی قبولیت کے دروازے ہمہ وقت کھلے رہتے ہیں۔ قبولیت میں تاخیر ہو یا ناکامی تو یقین رکھو اس میں تمہارے لئے کوئی بہتری پنہاں ہے۔ یہ بات یاد رکھیں کہ دعا کی قبولیت اور تاثیر کے لئے پیٹ میں رزقِ حلال، دل میں خوفِ خدا، ذہن میں نیک اعمال کا جذبہ اور باطن میں اللہ پاک کے رحمٰن ورحیم ہونے پر پختہ یقین ہونا ضروری ہے۔ قرب الٰہی کی منزلیں یقین سے طے ہوتی ہیں اور شک شیطان پیدا کرتا ہے۔ اللہ کے برگزیدہ بندوں کے منہ سے نکلی بات پتھر پہ لکیر ہوتی ہے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دعائوں کی ایسی کرامات دیکھی ہیں جن پہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین