• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پلاٹوں میں پڑے کچرے

ہمارئے مسائل اتنے زیادہ ہیں کہ ہر مسئلہ دوسرے میں چھپ جاتا ہے، اور اس چھپن چھپائی کھیلنے والوں کی کبھی چاندی ہو جایا کرتی تھی اب سونا ہو جاتا ہے، عدالت عظمیٰ نے کہا ہے ’’جب تک ڈنڈا اوپر سے نہیں آتا آپ لوگ کام نہیں کرتے‘‘، اور اگر اوپر والے بھی ڈنڈا اپنے مفاد میں چلائیں تو اوپر والے مزید اوپر اور نیچے والے پاتال میں چلے جاتے ہیں، اچھا برا سب کچھ اوپر سے ہو تو اثر رکھتا ہے نیچے والے نیچے ہی رہتے ہیں دولت ملتی ہے نہ عزت، ہم موضوع سے دور نکل کر بھی اس کے قریب ہیں کیونکہ کچرا شہر کوئی ایک نہیں مگر دو شہروں نے بڑا نام کمایا، گویا باغوں اور روشنیوں کی جگہ اب کراچی ہو لاہور ہو دونوں میں کچرے کے ڈھیر ہیں۔ صفائی نصف ایمان ہے اب یہ نصف بھی نہیں رہا، گویا کہ اس وطن سے ایمان ہی اٹھ گیا، جھاگ بیٹھ گیا۔ کراچی کچرے پر تو شاعری کی حد تک لکھا گیا، یہی وجہ ہے کہ لاہوری کچرا اُس کی اوٹ میں چھپ گیا، لاہور میں ضلعی حکومت ہو، ایل ڈی اے ہو یا سی ایم ہائوس کچرا اب کچرا مافیا اٹھاتا ہے، اور ہر گھر سے پیسے وصول کرتا ہے، جو ٹیکس ہم سے وصول کیا جاتا وہ نہ جانے کس خچرے کے گھر جاتا ہے یہ تو کوئی خچر ہی بتا سکتا ہے۔ پیلے رنگ کے کنٹینر اب بھی پڑے ہیں راہوں میں مگر کچرا کھیلتا ہے شہر کی بانہوں میں، وہ کیا زمانہ تھا منہ اندھیرے پورا شہر صاف کیا جاتا، ماشکی بھر بھر مشکیں سڑکوں پر خالی کر دیتے، یہ حال ہے باغوں کے شہر لاہور کا، یہاں تو کچرا خوراک میں، خوراک کچرے میں ضم ہو چکی ہے، اور یوں نصف ایمان بھی جاتا رہا، صفائی کا عملہ تنخواہ لیتا ہے کچرا نہیں اٹھاتا، اگر کچرا مافیا بھی نہ ہوتا تو باقی ملک کو بھی مافیاز یاد آتے، حکومت ہر شعبے میں مافیا تلاش کرتی ہے، اسے کچرا مافیا کیوں دکھائی نہیں دیتا؟ باغوں میں پڑے جھولے کے بجائے، باغوں میں پڑے کچرے تم کچرے کو بھول گئے ہم نہیں بھولے۔

٭٭٭٭

یہ جو سیاست ہے بس اس کا ہے کام

جب پاکستان بنا تھا تو یہاں مسلمان، ہندو ساہو کاروں کی مزدوری کرتے تھے، صرف چند خاندان ہی امیر تھے جو انگریز بہادر نے آج ہونے والی لوٹ مار کے لئے تیار کئے تھے پھر ان خاندانوں نے انڈے بچے دیے اور یوں یہاں اونچے درجے کی ایک دو نمبر اشرافیہ وجود میں آ گئی، 72برس ہو گئے یہی اس ملک کی دولت، عزت، وسائل اور محکموں پر قابض ہیں، ہر نا اہل کو ترقی اور اہل کو او ایس ڈی بنا دیا جاتا ہے، ایک گریڈ سے دوسرے میں جانے کے لئے امتیازی پیمانوں سے کام لیا جاتا ہے، اکثر سیاستدان ہر حکومت میں وزیر ہوتے ہیں، یہ جو سیاست ہے بس اس کا ہے کام جس کے پاس ہوں وافر دام، رزق حرام میں وہ ’’بڑھوتری‘‘ دیکھی کہ کسبِ حلال چھوڑ دیا ہم نے، پہلے دو بڑی تھیں اب تین بڑی ہو گئی ہیں، یہ تیسری پچھلوں کا سارا گند صاف کر کے اپنی زنبیل میں ڈال رہی ہے، ایک کو ایماندار مان کر اس کے اردگرد بے ایمانی کا وہ بازار گرم ہے کہ الامان والحفیظ، بھولے بھالے عوام نے تیسری کو چن لیا اس نے بھی انہیں چن چن کر دیوارِ غربت میں چُن دیا، گویا سُن بابا سُن میں نے تجھے چن لیا تو بھی مجھے چُن، اور یوں یہ آرزو بھی عوام کالانعام کی پوری ہو گئی، جب کسی قوم کو سابقہ بُرے اچھے لگنے لگیں تو موجودہ کی سمت صحیح ہو گی نہ غلط، بس عوام مہنگائی کی کھائی میں دہائی دیتے سنائی دیں گے تاآنکہ پہلوان اپنے پارٹنر کو ہاتھ دیدے ،پھر وہ تازہ دم خوب مرمت کرے گا، یہی اندازِ سیاست چلتا رہے گا۔ کہتے ہیں اب ہر محکمہ سنبھل گیا ہے مگر ہاتھ کنگن کو آر سی کیا کہ میں جو ایک پنشنر ہوں مجھے پچھلی حکومت میں جو پنشن ملتی تھی اب ہر ماہ پونے سات ہزار کاٹ کر ملتی ہے، کوئی جو ان سے پوچھے کہ ایک پنشنر کے ساتھ یہ مہربانی کیوں؟ ہم اکثر مسائل کا آنکھوں دیکھا احوال بیان کرتے رہتے ہیں مگر مجال ہے جو کوئی ایکشن لے، شاید انہیں میڈیا کا سچ بھی جھوٹ معلوم ہوتا ہے۔

٭٭٭٭

آپ کی آواز مکے مدینے

چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا ہے:ادارے چور، نہیں چھوڑیں گے۔ ریاست مدینہ کی آوازیں تو برابر سُن رہے ہیں مگر اس کے باوجود بھی اگر عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس اداروں کے چور ہونے کی صدا بلند کر رہے ہیں، تو ہم کیا کہیں حکومت کو، اگر مدینہ کی ریاست میں ہر ادارہ چور ہے تو پھر ریاست مدینہ کے دیوانے کہاں جائیں۔اوپر کے ڈنڈے کو جناب منصف اعلیٰ پاکستان ہی متحرک کر سکتے ہیں، ان کا یہ کہنا کہ عمارتیں باپ کی زمین سمجھ کر بنائی گئیں اس لئے کہ اوپر کا ڈنڈا حصہ دار تھا، ڈنڈا کسی بھی عہد کا ہو امتیازی سلوک کرتا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ چیف جسٹس کی صدائے حق کو پذیرائی اور اثر عطا فرمائے کہ اس ظلم کی بستی کا علاج فقط عدل میں ہے، آج پھر عدل فاروقی کی ضرورت ہے، بلکہ پوری مسلم امہ کو درکار ہے، ہم کیوں چھوٹے منہ سے بڑی بات کرتے ہیں پہلے اپنا منہ تو بڑا کر لیں، اک گونہ قرار مل گیا کہ کسی بھی ادارے میں موجود کسی مہا چور کو جانے نہیں دیا جائے گا، حساب بھی ہو گا کتاب بھی، باطل کا بڑھاپا ہو گا حق کا شباب بھی کہ یہ ملک لا الٰہ الا اللّٰہ کی اساس پر حاصل کیا گیا مگر اس پر کھڑا نہیں، یہ اجتماعی جرم ہے جس کی اجتماعی سزا ہے، اس ملک کو جس بیدردی سے لوٹا گیا، لوٹا جا رہا ہے اب یہ نہ ہو کہ اسے مستقبل میں بھی لوٹا جائے، آنر ایبل چیف جسٹس میڈیا بارے بھی حکومت سے پوچھیں کہ اسے معاشی طور پر اتنا کیوں کمزور کر دیا گیا ہے کہ میڈیا اپنے ورکرز کا چولہا جلانے سے بھی عاجز آ چکا ہے۔ یہ آوازۂ حق ضرور رنگ لائے گا کہ ادارے چور، نہیں چھوڑیں گے۔ مشتری ہوشیار باش ہو کر نوشتہ عدل پڑھ لیں۔

٭٭٭٭

ہنسانا ہی ان کا رونا ہے

....Oکامیڈی کنگ امان اللّٰہ روتوں کو ہنسا ہنسا کر ہماری محفل سے ہمیشہ کے لئے اٹھ گئے

یہ جو ہنساتے ہیں یہی ان کا رونا ہوتا ہے، کچھ اس کا بھی علاج اے چارہ گراں ہے کہ نہیں، حق مغفرت کرے اور پسماندگان کو صبر عطا فرمائے۔

....Oگلیوں میں اشیاء بیچنے والوں کو لائوڈ اسپیکر استعمال کرنے کی اجازت نہیں دینا چاہئے، یہ کسی کے کان میں جاکر اسے ڈسٹرب کرنے کی کوشش ہے، شادی بیاہ اور محافل میں لائوڈ اسپیکر ایکٹ کی خلاف ورزی کیا کم تھی کہ اب قلفی بھی لائوڈ اسپیکر پر بیچی جائے گی۔ پنجاب انتظامیہ جہاں کہیں ہے نوٹس لے۔ یہ بھی انسانی حقوق کی پامالی ہے۔

....O ہوائی فائرنگ کا سلسلہ کیوں بند نہیں ہوتا جبکہ یہ متعلقہ قریبی تھانے کی ذمہ داری ہے کہ ایکشن لے۔

....Oعورت مارچ: پیمرا نے الیکٹرونک کوریج کیلئے ہدایت نامہ جاری کر دیا۔

عورت مارچ اور مارچ کا مہینہ جواز تو بنتا ہے، ویسے بھی عورت کی جائز آواز کو دبانا غیر شرعی ہے، ہدایت نامہ جاری کر دیا غور نامہ بھی جاری کر دیتے۔

٭٭٭٭

تازہ ترین