اب پچھتائے کیا ہوت
جب چڑیاں چگ گئیں کھیت
آج کل ماروی سرمد اور خلیل الرحمٰن قمر کے قضیے کو لیکر خوب بحثا بحثی ہے۔ ہمارے سماج کے غالب طبقات خلیل کو اپنا ہیرو مانتے ہیں، وہ نہال ہیں کہ آخر کار کسی تو مرد کے بچے نے تقدیسِ مشرق کے گنگا جل کو جدیدیت کی آلائشوں سے پوتر رکھنے کا بیڑہ اُٹھایا۔ اُن کے تئیں عورت کے حق انفرادیت کی آواز ہمارے سماجی وراثت پر ایک مہلک حملہ ہے۔ جب جان خدا کو دینی ہے تو خدا لگتی سے کیا گھبرانا، سماج کے یہ غالب طبقات کہتے تو درست ہی ہیں۔ حملہ تو یہ جاںِ فرسا ہی ہے۔ وائے بدبختی کہ ہماری سماجی وراثت کے تاج محل کے ستون عورت ذات کے اُن بنیادی حقوق کی لاش پر رکھے گئےہیں جن کے بغیر سماجی ارتقا کا تصور ہی نا ممکن ہے، ماروی سرمد پر یہ الزام بھی کچھ غلط نہ ہے کہ اُس نے ہمارے سماج کے رومانوی تصور کے شیش محل کی چھت میں دن دہاڑے نقب لگائی ہے اور نقب بھی کیا خوب کہ سماج کے بھیتر کا سارا تعفن ایک بیچارے خلیل کی زبان سے بہہ نکلا ہے۔
خلیل کی سی عقل و دانش کسی معاشرے میں یکا یک جنم نہیں لیتی، اِس کیلئے کئی دہائیوں تلک کشٹ کا ٹنا پڑتا ہے، بار بار آئین اور جمہوریت سے توبہ کا سنیاس لینا ہوتا ہے۔ یہودو ہنود کے گٹھ جوڑ کا بیانیہ از بر کرنا ہوتا ہے، معاشرتی علوم کی کتاب میں افسانہ طرازی کرنا پڑتی ہے، تاریخ کی کتاب حالاتِ حاضرہ کی نظریاتی بھٹی میں ڈال کر صالحینِ تخلیق کے ہاں ترازو کرنا پڑتی ہے۔ نیم خواندہ فقرہ بازوں کو دانشوری کے سنگھاسن پر بٹھانا پڑتا ہے۔ اور آخر کار انسان اور انسان میں فرق کے کلیے دریافت کرنا پڑتے ہیں، کبھی عقیدے کی بنیاد پر، کبھی جنس کی بنیاد پر اور کبھی بغیر کسی بنیاد کے۔
ایسے دیدہ ور انسان یونہی پردہ سیمیں پر نمودار نہیں ہو جاتے، اِس کیلئے حب الوطنی کی انی پر بانیٔ پاکستان کی بھول چوک والی تقاریر کی قطع و برید کرنا پڑتی ہے۔ ایک آدھ وزیراعظم کو تختہ دار پر چڑھانا پڑتا ہے اور بہتوں کو غداری کی دُشنام پر۔ منطق اور فلسفے جیسے ابلیسی علوم کو ملک بدر کرنا پڑتا ہے، فرائیڈ و ڈارون کے نظریات کو یک جنبشِ قلم جھٹلانا پڑتا ہے، جدیدت سے نہ صرف منہ موڑنا پڑتا ہے بلکہ ایسی ایسی تاویلیں گھڑنا پڑتی ہیں جو کسی کے وہم و گماں میں بھی نہ ہوں، تب جا کر یہ منزل آ سان ہوتی ہے۔
وہ علامہ کیا کہتے تھے:
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
یہ اس ملک خداداد کا دیدہ ور ہی تو ہے۔ اس کا عمل بہت قبیح مگر اس کی مذمت میں جاں بےکل نہ کیجئے، یہ تو بس ایک علامت ہے جو بیماری کا پتا دیتی ہے، علامت کسی صورت بیماری نہیں ہوتی، علامت کے علاج سےکچھ حاصل نہ ہوگا۔
افسوس صد افسوس کہ ہمارے ہاں بظاہر خواندہ طبقات علی عباس جلالپوری یا سبطِ حسن کے نام سے تو نابلد ہیں (اور اگر یقین نہ آئے تو اپنے آس پاس پوچھ کر دیکھ لیں) مگر ایسے دیدہ وروں سے حاجات علمی میں رہبری کے طالب ہیں۔
غالب طبقات کے ہاں پائی جانے والی فکری ناخواندگی سماجی سیاسی اور معاشی ارتقا کے راستے میں ایک ایسی سد سکندر ہے جو گزرتے وقت کیساتھ بلند سے بلند تر ہوتی جا رہی ہے۔ عورت کے معاملے میں تو گنگا جمنی تہذیب (کہ مسلمانانِ پاکستان جس کی تمدنی وراثت کے دعویدار ہیں) بھی نہایت غبی تھی مگر عقیدے اور ادب آداب کے معاملے میں وسیع المشربی کی قائل تھی۔ پھر آزادی کے بعد ہم نے نہایت منظم طریقے سے عقیدے کے معاملے میں تنگ نظری کی درجنوں دیواریں کھڑی کر دیں اور دیواریں بھی ایسی مضبوط کہ اب اُن کے آر پار دیکھنا بھی ناممکن ہو چلا ہے۔
اسی طرح ہم نے آہستہ آہستہ قرینے سے بات کرنے کا ڈھنگ بھی بھلا دیا ہے اور وہ اندازِ رسا بھی کہیں گم کر دیا ہے جس پر مرزا کو فخر تھا۔
اور تو رکھنے کو ہم دہر میں کیا رکھتے تھے
فقط اِک شعر میں اندازِ رسا رکھتے تھے
تو صاحب یوں کہنا کچھ بیجا نہ ہوگا کہ یہ ہماری محنتوں کا ثمر ہے۔ ترقیٔ معکوس کیلئے ہماری شبانہ روز تگ و دو کا حاصل۔ سو اس سے کیا جھگڑا؟ جھگڑنا ہے تو ریاست گری کے اُس ارفع فہم سے جھگڑئیے جو سماجی ارتقا کے سیدھے اور سادے راستے کو فساد فی ا لارض سمجھتا ہے،یہ تو بیماری کی محض ایک علامت ہے سو علامت کو کیا کھوجنا؟ کھوجنا ہے تو ریاست گری کے اس فہم کو کھوجئے جو جمہور، آئین اور عورتوں کے مساوی حقوق کو ریاست گری کے اجزائے ترکیبی سے متصادم سمجھتا ہے مگر کھوجنے کیلئے سوال کرنا پڑتا ہے اور سوال کے معاملے میں احتیاط واجب ہے ۔
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)