کہتے ہیں ’’شوق کا کوئی مول نہیں‘‘ اور یہ بات ہے بھی درست۔ کسی کو نوادرات اکٹھی کرنے کا شوق ہوتا ہے، تو کسی کو نت نئی اشیاء جمع کرنے کا۔ کچھ افراد پُرانے سکّے جمع کرتے ہیں، تو بعض پرانی گاڑیاں۔ ایک وقت تھا، جب کُتب بینی کا شوق عام تھا اور ہر گھر میں چھوٹا سا کُتب خانہ ضروری تصوّر کیا جاتا تھا۔ پھر وقت نے پلٹا کھایا اور نئی نئی سائنسی ایجادات سامنے آنے لگیں، تو شوق بھی تبدیل ہونے لگے۔ پرانے سکّوں کی جگہ نوٹوں نے لے لی۔ تلواروں، نیزوں اور کمانوں کی جگہ پستول، بندوق اور دیگر اسلحہ آگیا۔ سواری کے لیے گھوڑوں اور اونٹوں کی جگہ چمچماتی گاڑیوں نے لے لی اور یوں عوام کے شوق بھی بدلتے گئے۔
اب کوئی مختلف برانڈز کے موبائل فون کا شوقین ہے، تو کوئی نئے نئے ماڈل کی گاڑیوں کا۔تاہم، ایک شوق ایسا بھی ہے، جو قدیم اور جدید، دونوں ادوار میں یک ساں مقبول رہا، اور وہ ہے موسیقی کا۔ البتہ، یہ ضرور ہوا کہ سائنسی ایجادات نے فنِ موسیقی کو بہت زیادہ جدّت بخشی اور آواز کے ریکارڈ ہونے کے بعد اس کے شوقین افراد میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا گیا۔ زیادہ تر افراد تو صرف سُننے کی حد تک موسیقی سے شغف رکھتے ہیں، لیکن ایسے افراد کی بھی کمی نہیں،جو اسے محفوظ کر کے دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔ پشتو کے مشہور شاعر، خوش حال خان بابا، موسیقی کو ایک ہنر گردانتے تھے اور اس سے شغف نہ رکھنے والے کو’’ مریض‘‘ کہتے۔
ہم ایک ایسی ہی شخصیت سے آپ کو متعارف کروا رہے ہیں، جنہیں موسیقی سے جنون کی حد تک محبّت ہے اور وہ اسے آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ بھی کر رہے ہیں۔ اُنہوں نے اِس کام میں17 سال لگا دیئے اور ابھی تک اِس مشن پر کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ پشتو کے گم نام گلوکاروں کے ایسے گانے تلاش کر کے جمع کر رہے ہیں، جو کبھی گرامو فون پر سُنے جاتے تھے۔ پُرانے گانوں کی تلاش میں مُلک کے کونے کونے کا سفر کیا، گلوکاروں اور اُن کے گائے گئے گیتوں کے حوالے سے معلومات اکٹھی کیں۔ اب اُن کے پاس پُرانے گانوں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ اکٹھا ہو چُکا ہے، جو اُنہوں نے سی ڈیز پر منتقل کر دیا ہے۔ ہم بات کررہے ہیں، خیبر پختون خوا کے ضلع نوشہرہ کے گائوں، پبی سے تعلق رکھنے والے، حاجی محمّد اسلم خان کی، جو گزشتہ 30سال سے ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہیں۔
حاجی محمّد اسلم نے اپنے کیرئیر کے بارے میں بتایا’’ جب مَیں چھوٹا تھا، تو اپنے چچا، سیف الرحمٰن کے بہت قریب رہا، جو کثرت سے ریڈیو سُنتے تھے۔ اُن کی قربت کی وجہ سے مجھے بھی ریڈیو سے لگائو ہوگیا، لیکن یہ لگائو صرف سُننے کی حد تک نہیں رہا۔ مجھے شوق ہوا کہ میری آواز بھی ریڈیو پر آئے اور لوگ مجھے سُنیں۔لہٰذا اِس شوق کی تکمیل کے لیے مشہور ڈراما نویس، شاعر اور ادیب، سعد اللہ جان برق کے پاس گیا اور اُن سے اپنی خواہش کا اظہار کیا،تو وہ مجھے پشاور ریڈیو لے گئے۔وہاں میرے بولنے کے انداز کی ریکارڈنگ ہوئی، جسے وہاں موجود سینئرز نے بہت پسند کیا۔ اِس طرح 1986 ء میں ریڈیو پاکستان، پشاور سے بطور انائونسر منسلک ہوگیا۔
وہ لمحہ کبھی نہیں بھول سکتا، جب پہلی دفعہ ریڈیو پر کہا’’یہ ریڈیو پاکستان، پشاور ہے۔‘‘ اِس طرح وقت گزرنے کے ساتھ ریڈیو پر کرنٹ افیئرز، دینی پروگرامز، موسیقی اور دیگر پروگرامز کیے، جو سُننے والوں کو بہت پسند آئے۔ بلاشبہ مَیں نے ریڈیو سے بہت کچھ سیکھا، پھر ٹیلی وژن پر بھی کام کیا۔ خبریں پڑھیں اور کئی فوک موسیقی کے پروگرامز کی میزبانی بھی کی۔ مَیں نے ان پرواگرمز میں دُور دراز کے ایسے گلوکار متعارف کروائے، جنھیں کوئی نہیں جانتا تھا، لیکن اُن کی آواز میں ایک جادو تھا اور وہ آج چمکتے ستارے ہیں۔ مَیں آج کل ریڈیو پر سنیئر براڈ کاسٹر ہوں اور پچھلے 20 سال سے موسیقی کا ایک پشتو پروگرام ’’تیر ہیرآوازونہ‘‘(پرانی بھولی ہوئی آواز)کے نام سے کر رہا ہوں، جسے سامعین بہت پسند کرتے ہیں۔
چوں کہ موسیقی سے تو پہلے ہی بہت زیادہ لگائو تھا، ایسے میں ریڈیو اور پی ٹی وی جیسا فورم مل گیا، تو پھر مَیں نے جی بھر کے اپنا شوق پورا کیا۔‘‘’’ پرانے گانے جمع کرنے کا خیال کیسے آیا؟‘‘ اِس سوال پر اُنھوں نے بتایا’’ میرے دوسرے چچا، کریم خان بھی پُرانے گانوں کے شوقین تھے۔ وہ ایک بیٹھک میں رہا کرتے تھے۔ ایک دن تیز بارش میں اُن کا کمرا گر گیا، تو مَیں اُن کے پاس افسوس کرنے گیا۔ مجھے مٹّی کے ڈھیر میں پلاسٹک کی ایک پلیٹ نما چیز پڑی نظر آئی۔ چچا سے پوچھا’’ یہ کیا ہے؟‘‘ تو اُنہوں نے بتایا’’ یہ گرامو فون کا ریکارڈ ہے، اس میں گانے محفوظ ہوتے ہیں، یہ پلیٹ گراموفون پر چلائیں، تو اِس سے گانوں کی آواز آتی ہے۔‘‘ وہاں سے مجھے پُرانے گانے جمع کرنے کا خیال آیا۔
مَیں یہ آئیڈیا ریڈیو پاکستان، پشاور میں اپنے ایک سینئر کے پاس لے گیا اور اُن سے کہا’’آئیں! جو پُرانی اور بھولی ہوئی آوازیں ہیں، اُنھیں اکٹھا کرتے ہیں۔‘‘اُنہوں نے میری بات سے اتفاق کیا اور یوں اس پراجیکٹ پر کام شروع کردیا۔ مَیں نے ایسے پرانے گلوکاروں پر تحقیق شروع کردی، جن کے چہرے تو لوگ بھول چُکے ہیں، لیکن اُن کی آواز آج بھی زندہ ہے۔ مجھے جب پتا چلتا کہ فلاں گلوکار، فلاں علاقے سے تعلق رکھتا ہے، تو مَیں وہاں پہنچ جاتا۔ بیٹوں، پوتوں یا دیگر رشتے داروں اور علاقے کے بزرگوں سے ملتا، اُن سے اُس گلوکار کے بارے میں معلومات، تصاویر اور ریکارڈنگز حاصل کرتا۔ اس مقصد کے لیے خیبر پختون خوا کے کونے کونے میں گیا۔
تاہم، خوشی کی بات یہ ہے کہ مجھے اِس مقصد میں کافی حد تک کام یابی حاصل ہوئی اور پشتو کے تقریباً ساڑھے چار ہزار ایسے پرانے گانے تلاش کر لیے، جو ریڈیو پاکستان کے بھی پاس نہیں تھے۔یہ وہ گانے ہیں، جو صرف گراموفون پر سُنے جاسکتے ہیں۔ پھر مَیں یہ گانے ریڈیو پر چلاتا تھا۔واضح رہے، پشتو کا پہلا گانا 1902ء میں ریکارڈ ہوا ، جسے گوہر جان کلکتہ والی نے گایا تھا، اُس کے بول ہیں’’مورے زما یار نہ دے‘‘( ماں! میرا یار نہیں ہے)۔ ایک دوسری گوہر جان بھی تھیں، جو صرف اُردو گانے گاتی تھیں۔ گوہر جان بنیادی طور پر ایک رقّاصہ تھیں اور فارسی بولتی تھیں۔
اُنہوں نے پہلا پشتو لوک گیت انگلینڈ میں ریکارڈ کروایا، جسے جرمنی کے ایک انجنیئر، ولیم گیسبرگ کی کمپنی’’ ہزماسٹرز ووائس‘‘ نے ریکارڈ کیا تھا۔ چوں کہ اُن دنوں بجلی نہیں ہوا کرتی تھی، اس لیے بیٹری کے ذریعے ریکارڈنگ ہوتی تھی۔ ٹیپ ریکارڈر بھی نہیں تھا، تو یہ گانے گراموفون ہی کے ذریعے سُنے جاتے۔اُس کے بعد دہلی میں ایک سِکھ سردار، سادو سنگھ نے1904ء میں’’ بانگا فون‘‘ کے نام سے ایک کمپنی بنائی، جو زیادہ تر پشتو گانے ریکارڈ کرتی تھی۔
سردار سادو سنگھ نے پشاور میں اپنے ڈیلر مقرّر کیے، جو یہاں سے فن کاروں کو دہلی لے کر جاتے اور گانے ریکارڈ کرواتے۔ مَردوں میں سب سے پہلا گانا، سویڑزی کے اکرم خان نے گایا۔ ہز ماسٹرز ووائس اور بانگا فون کمپنیز دیگر زبانوں کے گانے بھی ریکارڈ کرتی تھیں، لیکن زیادہ کام پشتو گانوں ہی پر ہوتا تھا۔بہرحال، مَیں نے گراموفون ریکارڈ سے یہ سارے گانے کیسٹس اور سی ڈیز میں منتقل کروادیئے۔ نیز، ہم نے ریڈیو پر عوام سے بھی اپیل کی کہ اگر کسی کے پاس پُرانے گانوں کی ریکارڈنگ ہے، تو ہمیں بتائیں۔اس پر عوام ہمیں خطوط کے ذریعے اطلاع دیتے اور ہم اُن کے پاس جا پہنچتے۔ پُرانے گانے، فن کاروں کی تصاویر اور دیگر معلومات اکٹھی کرنے میں 17سال لگ گئے۔مَیں نے جتنے بھی گانے اکٹھے کیے،سب گرامو فون ریکارڈ میں ہیں۔
گوہر جان، اکرم خان، اقبال بانو، باچا زرین جان، دل بر جان(بلیلے)، شیر محمّد(شیرے)، متولی، عبداللہ جان، فضل احمد، گلاب شیر، میر احمد، رحمٰن گل، زر خان، عبدالغنی، محمود خان، خانم جان، روشن زری، امرائو جان، فدا حسین اور دیگر ایسے بے شمار پُرانے فن کاروں کے گانوں کو جمع کرکے محفوظ کیا ہے۔ پھر مجھے خیال آیا کہ گلوکاروں سے متعلق معلومات عوام تک بھی پہنچانی چاہئیں، تو مَیں نے اس مواد کو کتابی شکل دینے کا کام شروع کردیا۔اور پھر جلد ہی ایک کتاب بھی’’تیر ہیر آوازونہ ‘‘ کے نام سے منظرِ عام پر آگئی۔ پشتو زبان میں لکھی گئی اس کتاب میں پرانی موسیقی، قدیم آلات، فن کاروں کے بارے میں تفصیلی معلومات اور تصاویر موجود ہیں۔
شائقین نے اس کتاب کو بھی بہت محبّت دی۔ افغانستان، بلوچستان اور جہاں جہاں پشتو بولی اور سمجھی جاتی ہے، وہاں یہ کتاب منگوائی گئی۔ یہ سب کچھ مَیں نے اپنے شوق کے لیے اور اپنے خرچ پر کیا۔ مجھے چوں کہ اپنے کلچر، زبان اور موسیقی سے بے پناہ محبّت ہے، اس لیے مَیں ان معلومات کو آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ کرنا چاہتا تھا اور دوسری بات یہ کہ ان پُرانے فن کاروں نے پشتو زبان اور موسیقی کی خدمت کی ہے، اس لیے میں اُن سے عوام کو متعارف کروانا چاہتا تھا۔چوں کہ میری پہلی کتاب کی بہت حوصلہ افزائی ہوئی، اس لیے اب اُس کے دوسرے حصّے پر کام کر رہا ہوں، جس میں پشتو فلمز کے بارے میں معلومات ہوں گی۔‘‘
اسلم خان پرانے اور نئے دَور کے فن کاروں اور گانوں کے درمیان فرق کے بارے میں کہتے ہیں’’ کاش! موسیقی کے آلات جدید دَور کے ہوتے اور فن کار پُرانے دَور کے۔ پرانے فن کار ایک، ایک گانے کے لیے مہینوں ریاض کرتے، جب کہ آج کل تو منٹوں میں گانے تیار کر لیے جاتے ہیں۔ پُرانے گانے طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود آج بھی شوق سے سُنے اور پسند کیے جاتے ہیں۔اور اس کی وجہ اُن کے پیچھے کی گئی محنت ہی ہے۔
میرے خیال میں تو آج کے دَور میں فن کار اور موسیقار ہیں ہی نہیں کہ ایک دن گانا مارکیٹ میں آتا ہے،اگلے دن لوگ اُسے بھول جاتے ہیں، جب کہ پرانے گیت آج بھی لوگوں کے دِلوں میں بستے ہیں۔‘‘ موسیقی سے وابستہ لوگوں کے لیے پیغام دیتے ہوئے کہا کہ’’ اپنی ثقافت کی قدر کریں۔ کہا جاتا ہے کہ’’ موسیقی رُوح کی غذا ہے‘‘، تو پھر حقیقی معنوں میں ایسی موسیقی تیار کی جانی چاہیے، جس سے سُننے والوں کو رُوحانی تسکین حاصل ہو۔ نیز، موسیقی اور شاعری ایسی ہونی چاہیے، جس میں کوئی پیغام بھی ہو۔محض اُچھل کود تو لاحاصل پریکٹس ہے۔‘‘