• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مشرق وسطیٰ اور اطراف کے ممالک میں 2011میں اچانک عرب اسپرنگ یا عرب بہار تحریک کا آغاز ہواتو اس میں زیادہ تر طلبہ اور ٹریڈیونینز سینٹر انسانی حقوق کی تنظیموں نے اپنی اپنی حکومتوں کے خلاف جمہوریت کی بحالی اور دیگر بنیادی حقوق کے ساتھ بیروز گاری اور خراب حکومتی کارکردگی کے خاتمے کے مطالبات شامل تھے۔ مغربی ذرائع ابلاغ نے اس تحریک کا خوب چرچا کی ا ور اسی کو عرب اسپرنگ سے تشبیہ دی۔ یہ تحریک خاص طور پر مصر، شام، عراق، لیبیا ، تیونس، الجزائر اور یمن میں زیادہ زور پکڑ تی رہی جب کہ سوڈان، صومالیہ، ایران اور دیگر چند افریقی ممالک میں تحریک مدھم رہی۔ مصر میں فوجی حکومت واپس آئی۔ الجزائر اور تیونس میں بھی تبدیلی آئی۔ عراق میں بیرونی مداخلت میں اضافہ ہوا۔ لیبیا میں صدر معمر قدافی کا تختہ الٹا انہیں ہلاک کر دیا گیا اور شام میں تاحال بہت اذیت ناک صورت حال ہے۔ لاکھوں افراد ہلاک ہوئے لاکھوں بے گھر ہوئے ،شام مکمل طور پر تباہی سے دوچارہوا، اب بھی وہاں پروکسی جنگ وجدل جاری ہے۔

اس حوالے سے شمالی افریقہ اور بحیرہ روم کے ساحلوں پر واقع قدیم ملک لیبیا میں بھی شام جیسی صورت حال جاری ہے۔ 2011 میں لیبیا کی خانہ جنگی کے دوران انتہا پسند مذہبی مسلم گروہوں نے نہایت سفا کانہ طور پر صدر قدافی کو نہ صرف ہلاک کیا بلکہ ان کی لاش کی بے حرمتی بھی کی۔ لیبیا کی عوام کا ایک بڑا حصہ صدر قدافی کی آمرانہ حکومت سے نالاں اور تبدیلی کا خواہاں تھا جن میں زیادہ تر رجعت پسند مذہبی دھڑے آگے تھے جو ملک میں شرعی نظام لاگو کرنے کی جدوجہد کر رہے تھے۔ صدر قدافی کا تختہ الٹنے کے بعد ملک کی مسلح افواج جو بکھر چکی تھی ملک میں خانہ جنگی اور مختلف مسلح گرواہوں کی کارروائیاں جاری تھیں۔ بکھری ہوئی فوج کو سمیٹ کر لیبیا کے فوجی جنرل خلفیہ حفتار جن کو صدر قدافی کا حامی تصور کیا جاتا ہے مشرقی لیبیا میں تبروک شہر کو اپنامرکز بنا کر لبین نیشنل آرمی ترتیب دی اور اس کی کمان سنبھال کر اپنی علیحدہ حکومت کا اعلان کر دیا ،جب کہ طرابلس میں جو لیبیا کا دارالخلافہ ہے وہاں مسلح گروہوں اور جہادیوں پر مشتمل فوجی دھرنا تیار کر لیا ،جو جی این اے کہلاتا ہے۔ اور فیض السراج اس کے کمانڈر اپنی حکومت کے وزیر اعظم بن گئے۔فیض السراج کو اسلامی ملیشیا انصار الشرامیہ کی مکمل تائید حاصل ہے۔ اسلامی ملیشیا ملک میں شریعت نافذ کرنےکی جدوجہد کر رہی ہے ،اس نے 2012 میں بن غازی شہر میں امریکی قونصل خانہ پر حملہ کر کے سفیر کا سر قلم کر دیا، سیکورٹی اہلکاروں کو ہلاک کر دیا اور پوری عمارت تباہ کر دی ،جس پرسابق امریکی صدر اوباما اور سیکریٹر ی خارجہ ہلیری کلیٹن کے خلاف امریکی عوام نے شدید ردعمل کیا تھا۔ اس کے علاوہ فیض السراج کے حامیوں نے طرابلس ایئر پورٹ پر بھی حملہ کر دیا، پروازیں بند رہیں۔ 2014 میں جنرل خلفیہ حفتار نے فیض السراج کی حامی فوج اور جہادیوں پرحملے شروع کر دیئے۔ اسلامک اسٹیٹ کے قیام کے حامیوں نے پڑوسی مسلم ممالک جہادی جنگجوں کو لیبیا آنے کی دعوت دی اور اپنی قوت میں اضافہ کیا ،مگر جنرل خلفیہ حفتار کی فوجیں انہیں روکے ہوئے ہیں۔

جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل نے حال ہی میں اکناملک فورم میں کہا تھا کہ لیبیا دوسرا شام بننے جا رہا ہے اس طرف توجہ دیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خلیفہ حفتار کو مصر، متحدہ عرب امارت اور روس کی سیاسی و عسکری حمایت حاصل ہے، جب کہ فیض السراج کی حکومت اور جہادیوں کو ترکی کی پوری حمایت حاصل ہے۔ ترکی نے حال ہی میں شام سے چار ہزار سے زائد کرایہ کے فوجی تیار کر کے انہیں طرابلس روانہ کیا ہے جن کو ایک ہزار سے زائد ترک فوجی افسر تربیت دے رہے ہیں ۔ اس کے علاوہ فیض السراج کی اسلامی اسٹیٹ کی بیشتر جہادی تنظیمیں کر رہی ہیں جن میں سے دو چار گروہ طرابلس پہنچ چکے ہیں۔

لیبیا میں صدر قدافی کی حکومت کے خاتمے کے بعد اقوام متحدہ نے خانہ جنگی کے دوران ایک عبوری حکومت بنائی اور ایک عبوری پارلیمان بھی تشکیل دی گئی کہ یہ نیا دستور تیار کرے مگرخانہ جنگی کی وجہ سے اور سابق فوجی افسران کی بڑی اکثریت نے جنرل خلفیہ حفتار کی حمایت میں نئی فوج ترتیب دی جس نے فیض السراج کی طرابلس میں قائم حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔اقوام متحدہ نے لیبیا میں تیز ی سے بگڑتی صورت حال کو مد نظر رکھتےہوئے لیبیا کو ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندی عائدکر دی اور دونوں متحارب دھڑوں کی صلح کرانے کے لیے یورپی یونین کے رہنمائوں کا اجلاس برلن میںمنعقد کیا ۔اس اجلاس میں فرانس ، جرمنی ، روس، متحدہ عرب امارات، مصر اور دیگر ممالک نے شرکت کی مگر کوششو ں کے باوجود کوئی معاہدہ نہ ہو سکا۔

ایسے میں ترکی کی لیبیا میں مداخلت اور خلفیہ حفتار کی مخالفت کو مد نظر رکھتے ہوئے خلیفہ حفتار نے حال ہی میں دمشق کے صدر بشارالاسد سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں صدر اسد نے لیبیاکو دمشق میں سفارت خانہ کھولنے کی اجازت دے دی، جب کہ متحدہ عرب امارت نے پہلے ہی اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھول دیا ہے۔ اس طرح صدر بشار الاسد کو نیا اتحادی میسر آگیا۔ یہ سب کچھ ترکی کی لیبیا میں مداخلت کی وجہ سے ہوا ،کیونکہ ترکی ایک عرصہ سے شام میں صدر اسد کی حکومت کے خاتمے کے لیے فوجی مداخلت کر رہا ہے۔ عرب تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ خلیفہ حفتار کو شا م کی حمایت کے بعد روس اور متحدہ عرب امارات کو مصر کی حمایت سے خاص تقویت حاصل ہوئی ہے اسلامی ملیشیا انصار السراج اور اس کے اتحادی گروہ فیض السراج کی حمایت میں سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔

لیبیا کی اس خانہ جنگی اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے تیل کی پیداوار میں کمی آرہی تھی اب لبین قومی آئیل کارپوریشن نے متحارب گروہوں کے حملوں کی وجہ سے تیل کی پیداوار بند کر دی ہے ۔کارپوریشن کے سربراہ نے سب کو خبر دار کیا ہے کہ اسلامی ملیشیا ، جہادی گروہوں اور لبین نیشنل آرمی کی جنگ وجدل تیل کے مراکز پر قبضہ کے لیے ہے ،ایسے میں کارپوریشن کو شدید خطرات کا سامنا ہے ا س لیے وہ حالات بہتر ہونے اور پائیدار امن قائم ہونے تک کام کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ واضح رہے کہ لیبیا کی فوجی آمدنی میں تیل کا نوے فیصد حصہ ہے،جب کہ لیبیا کی آبادی اڑتسھ لاکھ (38)کے قریب ہے۔ رقبہ ستر لاکھ مربع کلو میٹر سے زائد ہے ۔ تیل کی وجہ سے فی کس سالانہ آمدنی آٹھ ہزار ڈالر ہے۔ تیل کی ذخائر دنیا کے دس بڑے ذخائر میں شمارہوتے ہیں۔ لیبیا کا صحرائی علاقہ آٹھ لاکھ مربع کلو میٹر سے زائد پر پھیلا ہوا ہے۔ اس علاقے میں مختلف قدرتی معدنیات کی وافر مقدار موجود ہے۔ مگر فی الفور لیبیا تیل پر انحصار کر رہا ہے۔فیض احفتارلسراج کے حامی سیاسی رہنمائوں نے امریکا پر زور دیا ہے کہ لیبیا میں اپنا فوجی ہوائی مستفر قائم کرے تاکہ روس کے خطے میں بڑھتے ہوئے اثرات کو روکا جا سکے۔ امریکا نے اس پیش کش کو مسترد کر دیا ہے، امریکی ذرائع کہتے ہیں کہ امریکا کو اپنے سفارت کاروں اور فوجیوں کی بن غازی میں جہادیوں کے ہاتھوں ہلاکت پر تاحال شدید غم و غصہ ہے۔ وائٹ ہائوس جب تک لیبیا میں خانہ جنگی جاری ہے ، کوئی کردار ادا کرنےکے تیار نہیں ہے۔

دوسری طرف روس نے تین ہزار کرائے کے فوجی خلفیہ کی حمایت میں لڑنے کے لئے تبوک بجھوائے ہیں۔ خلفیہ کی خواہش ہے کہ روس اپنی فضائی قوت استعمال کر کے لیبیا میں جہادی ملیشیا کو ختم کر دے مگر روس فی الفور لیبیا میں اپنی فضائی طاقت کے استعمال سے اجتناب برت رہا ہے۔ اگر رو س نے لیبیا میں اپنی فضائیہ کو استعمال کیا تو پھر امریکا بھی میدان میں اترنے کے لئے اپنے پرتولے گا۔

تازہ ترین