• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صورتحال…الطاف حسن قریشی

نائن الیون کی صبح نیویارک میں دو طیارے ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ٹکرائے اور ایک طیارے نے واشنگٹن میں ایک حساس ادارے پر پرواز کی تو امریکہ میں ایک بھونچال سا آ گیا۔ اِس دہشت گردی کا سارا الزام القاعدہ کے امیر اُسامہ بن لادن پر دھرا گیا جو اُن دنوں افغانستان میں پناہ لیے ہوئے تھے جہاں طالبان کی حکومت قائم تھی جس نے شدید دباؤ کے باوجود اُسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ امریکہ جسے سپرپاور ہونے کا گھمنڈ اور قومی سلامتی پر گہرے زخم لگ جانے کا ملال تھا، اس نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا دروازہ کھٹکھٹایا جس پر طالبان حکومت کے خلاف قرارداد منظور ہوئی۔ امریکہ نے نیٹو افواج کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا اور جنرل پرویز مشرف کو ساتھ دینے کا حکم صادر کیا جو اپنی حکومت کے قانونی جواز کے لیے امریکی حمایت کے طلب گار تھے۔ امریکہ نے افغانستان پر فضائی حملوں کے لیے پاکستان سے ہوائی اڈے حاصل کر لیے۔ امریکہ، افغانستان پر جدید ترین ہتھیاروں اور تباہ کُن بموں کے ساتھ حملہ آور ہوا اور اِس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔

یہ جنگ 19سال جاری رہی جس میں لاکھوں افغانی اور ہزاروں امریکی لقمۂ اجل بنے۔ اسامہ بن لادن جو بےدست و پا ہو کر ایبٹ آباد میں پناہ گزین تھے، امریکی طیاروں نے اُنہیں بڑی بےدردی سے قتل کر کے اُن کی لاش سمندر میں بہا دی۔ طویل خونریزی کے نتیجے میں پاکستانی قیامت خیز دہشت گردی کا شکار ہوئے جس میں ستر ہزار سے زائد شہری اور دس ہزار کے لگ بھگ جواں ہمت فوجی جامِ شہادت نوش کر گئے۔ امریکہ دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت ہونے اور کھربوں ڈالر افغانستان میں خرچ کرنے کے باوجود سرفروش طالبان پر غالب نہ آ سکا اور آخرکار اُن کے ساتھ امن کا سمجھوتہ کرنا پڑا۔ ’دوحہ ڈیل‘ کی منزل تک پہنچانے میں پاکستان نے کلیدی کردار ادا کیا۔ طالبان کو اپنے اِس موقف سے پیچھے ہٹنا پڑا کہ افغانستان میں غیرملکی فوجوں کی موجودگی میں ہم امریکہ اور افغان حکومت سے مذاکرات نہیں کریں گے۔ 19سالہ جنگ میں افغانستان کا سارا فزیکل اسٹرکچر تباہ ہو گیا ہے اور قبائلی، نسلی اور مذہبی اختلافات پہلے سے کہیں زیادہ گہرے ہو گئے ہیں۔

10مارچ کو ڈاکٹر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ نے صدرِ مملکت کے طور پر حلف اُٹھائے ہیں۔ اشرف غنی پشتون ہیں اور اُنہیں صدارتی انتخاب میں 15فیصد سے بھی کم ووٹ ملے ہیں جبکہ انتخابی نتائج کا اعلان پانچ ماہ بعد ہوا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اُن کا اقتدار صرف کابل تک محدود ہے۔ عبداللہ عبداللہ فارسی زبان بولتے ہیں اور اُن کا اثرونفوذ ایران کے علاوہ وسطی ایشیا کی ریاستوں تک پھیلا ہوا ہے۔ اِس اعتبار سے طالبان کے بین الافغانی مذاکرات کچھ سہل نہیں ہوں گے اور تشدد پر قابو نہیں پایا جا سکے گا مگر بدلتے ہوئے عالمی حالات اِس امر کا تقاضا کرتے ہیں کہ افغانستان میں ہر قیمت پر امن قائم ہونا چاہئے جس پر پورے خطے کے امن و امان کا دارومدار ہے، چنانچہ تمام عالمی اور علاقائی طاقتوں پر لازم آتا ہے کہ وہ تمام افغان دھڑوں کے مابین اختلافات ختم کروانے میں کامل دانش مندی اور فراخ دلی سے کام لیں۔ طالبان کو بھی اپنی سوچ، رویوں اور ورلڈ ویو میں بنیادی تبدیلی لانا ہو گی۔ اُنہوں نے عملی طور پر ثابت کر دیا ہے کہ وہ اب عصری تقاضے بھی سمجھ چکے ہیں اور شدت پسندی سے کنارہ کش دکھائی دیتے ہیں۔ اِس کے علاوہ پائیدار قیامِ امن میں امریکی رول بہت اہم رہے گا۔ اُسے صدر اشرف غنی کو حدود میں رکھنا، حکومت میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو نمائندگی دینا اور تعمیری کردار ادا کرتے رہنے کے لئے پاکستان کے ہاتھ مضبوط کرنا اور شفاف انتخابات منعقد کرانا ہوں گے۔ یہیں سے عالمی تاریخ ایک نیا موڑ لے گی۔

دیکھا جائے تو تاریخ ایک نئی کروٹ لے چکی ہے۔ چین کے اندر سے جو کورونا وائرس نمودار ہوا ہے، اس نے دنیا کے بہت بڑے حصے کو متاثر کیا ہے اور عالمی معیشت کو تہہ و بالا کر ڈالا ہے۔ اِس وائرس سے لاکھوں انسان شدید اذیت میں گھرے ہوئے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ خوف و ہراس کا یہ عالم ہے کہ یورپ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں زندگی منجمد ہوتی جا رہی ہے۔ پاکستان جو بفضلِ خدا ابھی تک اِس وبا کی ہولناکیوں سے بڑی حد تک محفوظ ہے مگر اس میں یہ مناظر دیکھنے میں آ رہے ہیں کہ نفس پرستوں نے ماسک کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کر دیا ہے اور ایسے سنگ دِل بھی ہیں جو باہر بھی اسمگل کر رہے ہیں۔ معاشرے کے اندر اِس طرح کی خرابیوں نے ہمارے وطن کا چہرہ بگاڑ ڈالا ہے اور عام لوگوں کو مسائل میں جکڑ دیا ہے۔ اِس نازک دوراہے پر یہ امر حددرجہ خوش آئند اور تاریخ ساز ہے کہ 10مارچ کی سہ پہر پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر جناب ڈاکٹر نیاز احمد نے یونیورسٹی میں ’مرکزِ فروغِ تہذیب و دَیانت‘ قائم کرنے کا اعلان کیا۔ اِس منصوبے پر وہ کئی ماہ سے کام کر رہے تھے۔ انگریزی میں اِس کا نام Centre for Civility & Integrity Development ہے۔ اِس کا مقصد طلبہ اور طالبات میں تہذیب و شائستگی اور دیانت داری کو فروغ دینا، باہمی خیرخواہی کی پرورش کرنا اور اُنہیں سختی سے وقت کا پابند بنانا ہے۔ اِس تقریب سے یونیورسٹی کے پرووائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر مظہر سلیم نے علمی لہجے میں خطاب کیا۔ معروف صحافی جناب قیوم نظامی، ہمارے عہد کی عظیم شخصیت محترمہ جسٹس (ر) ناصرہ جاوید اقبال اور مواخات تحریک کے زندہ جاوید قائد ڈاکٹر محمد امجد ثاقب نے اِس مرکز کے قیام پر یونیورسٹی کو ہدیۂ تبریک پیش کیا۔ پنجاب یونیورسٹی کے پولیٹکل سائنس کے نامور استاد جناب شبیر احمد خان اِس مرکز کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے ہیں۔ ہم توقع کر سکتے ہیں کہ نوجوانوں کی صحیح خطوط پر اخلاقی تربیت کی تحریک اگر کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پھیل جاتی ہے اور اساتذہ مکارمِ اخلاق کا ایک اچھا نمونہ بن جاتے ہیں، تو تاریخ یقیناً ایک مثبت رُخ اختیار کرے گی اور انسانیت کی فلاح کے امکانات روشن ہوتے جائیں گے۔

تازہ ترین