• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ان سے میری پرانی یاد اللہ ہے، یہ میرے دوست اور مہربان ہیں۔ چند دن پہلے ملاقات ہوئی تو مجھ سے پوچھنے لگے کہ حجازِ مقدس کا سفر کیسا رہا۔ میں نے حیرانی سے ان کو دیکھا، وہ مسکرائے، میں بھی چپ ہی رہا۔ اتنے میں کوئی اور ملاقاتی آ گیا اور وہ مصروف ہو گئے۔ میرے یہ دوست بہت پرانے شناسا ہیں، تیس سال سے زیادہ کا تعلق ہوگا۔ میں سرکار کا ملازم تھا اور یہ بھی نئے نئے افسر بنے تھے۔ کوئی کام ہوتا تو تشریف لاتے یا فون کرتے۔ اللہ کی کرنی ایسی ہوتی کہ میں فقط کوشش کرتا اور کام ہو جاتا۔ مقامِ شکر ہے کہ مجھے کبھی ان سے کام کی حاجت نہیں ہوئی۔ البتہ وہ مجھے کہتے تھے کہ لوگوں پر زیادہ اعتبار نہ کرو۔ میں نے عرض کی کہ حضور میرا اصول ہے کہ کوئی بھی شخص جو بات مجھ سے کر رہا ہے، بس وہ بات ہی قابل اعتبار ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں اور میں لوگوں کی باتوں میں آتا نہیں ہوں۔ وہ اس روز بدمزہ ضرور ہوئے مگر تعلقات کی گرمجوشی برقرار رہی۔ اس وقت ملک میں جو سیاسی و معاشی خلفشار ہے اس میں وزیراعظم عمران خان کا کردار بہت اہم ہے۔ اگر وہ ملک کی معیشت کو غیر ملکی آقائوں کے حوالے کرکے درست کر رہے ہیں تو ان کو حکمرانی کا حق نہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ اپوزیشن کے لوگ بھی ملک کے مستقبل سے زیادہ اپنے مستقبل کیلئے پریشان نظر آتے ہیں۔ میرے دوست کا خیال ہے کہ عمران خان ملک کو مستحکم کر سکتے ہیں۔ کل جب ان سے ملاقات ہوئی تو ان کو ذرا تشویش میں پایا۔ میں نے پوچھا کیا ہونے جا رہا ہے؟ فرمانے لگے کئی دنوں سے فیصلہ ساز تہیہ کرتے ہیں کہ عمران خان کو فارغ کر دیا جائے اور سرجوڑ لیتے ہیں کہ کون اس کی جگہ کون آ سکتا ہے، پھر کوئی نظر نہیں آتا تو بات ٹل جاتی ہے۔ اس دفعہ جب میں ان سے ملنے گیا تو خلافِ توقع ان کی اسٹڈی میں چار لوگ اور بھی تھے۔ مجھے دیکھتے ہی خاموشی چھا گئی۔ چند منٹ بعد ایک ملازم آیا اور بولا، چوہدری نثار صاحب کا فون آیا تھا، ان سے بات کر لیں۔ انہوں نے ملازم پر گھوری ڈالی اور بولے ٹھیک ہے، تم چائے کا بندوبست کرو۔ ایک صاحب نے پوچھا کہ چوہدری نثار کا کیا پروگرام ہے؟ بولے، چوہدری نثار کا کردار بہت اہم ہے مگر ابھی ان کو انتظار کرنا پڑے گا۔ شہباز شریف ان کے دوست اور ساتھی ہیں، وہ ان کی مدد کرنا چاہتے ہیں، بات چیت بھی جاری ہے مگر معاملات طے نہیں ہو سکے۔ میں نے کچھ کریدا تو بولے کہ کہ میرا قصہ تو بالکل درست ہے، بس ذرا کرداروں کے نام بدل دیے ہیں۔ ’’جنگل میں ایک ’’خرگوش‘‘ کی اسامی نکلی، مگر کسی خرگوش نے درخواست نہ دی۔ ایک بیروزگار ریچھ نے اپنی درخواست جمع کروا دی۔ بدقسمتی سے سب خرگوش نوکر شاہی میں مصروف تھے سو اعلیٰ و ارفع لوگوں نے اس ریچھ کو ہی خرگوش تسلیم کرکے ملازمت دے دی۔ ملازمت کے دوران ریچھ کو اندازہ ہوا کہ اس کی اصل اسامی پر تو ایک خرگوش براجمان ہے۔ اس کو سخت غصہ آیا کہ کیا مقابلہ ریچھ اور خرگوش کا،پہلے یہ کہ وہ کچھ کرتا، کسی تیسرے نے مداخلت کی۔ ریچھ نے اپنے دوستوں سے مشاورت شروع کی، سب نے مشورہ دیا کہ اس ظلم کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے، ریچھ فی الفور جنگل کے بادشاہ کے پاس گیا اور اسے درخواست دی۔ بادشاہ نے یہ فائل اپنی خصوصی ٹیم کے چیتوں کی کمیٹی کو شنوائی کیلئے روانہ کر دی۔ کمیٹی نے خرگوش کو نوٹس جاری کر دیا کہ ثابت کرو کہ تم ریچھ ہو۔ خرگوش نوکر شاہی کا اعلیٰ ستون تھا، وہ اگلے دن اپنے کاغذات اور سندیں لے کر پیش ہو گیا اور ثابت کر دیا کہ وہ نہ صرف ریچھ بلکہ اصلی ریچھ ہے۔ اس پر کمیٹی نے ریچھ کو شوکاز جاری کر دیا کہ وہ ثابت کرے کہ وہ خرگوش ہے۔ ریچھ پریشان تھا، اس نے تسلیم کیا کہ وہ غلطی پر ہے اور غلط فہمی کی وجہ سے ایسا ہوا۔ کمیٹی نے فیصلہ دیا خرگوش ہی ریچھ ہے اور ریچھ دراصل خرگوش ہے۔ اس لئے کسی تبدیلی کے بغیر دونوں اپنے اپنے فرائض سرانجام دیتے رہیں۔ ریچھ نے فیصلہ قبول کیا۔ دوستوں نے ریچھ سے اس بزدلی کا سبب پوچھا تو بیچارہ ریچھ پھوٹ پڑا کہ بھلا چیتوں کی کمیٹی کے خلاف کون بات کر سکتا ہے حالانکہ کمیٹی کے سارے چیتے درحقیقت گدھے ہیں لیکن ان کے پاس بھی اپنا آپ ثابت کرنے کیلئے اسناد ہیں‘‘۔

سب دوست بلند آواز میں قہقہہ لگا رہے تھے، ہنسی تو مجھے بھی آ رہی تھی مگر حیرانی زیادہ تھی کہ کیا زمانہ آ گیا ہے، جانداروں کو اپنی پہچان ہی نہیں رہی۔ کیسا جنگل ہے کہ جانور بھی بہروپیے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ جنگل میں ایسا کب سے ہو رہا ہے؟ بولے، جمہوریت کے زمانے سے ہوتا آ رہا ہے۔ کسی دور میں یہاں گھوڑے سرکار کے امین تھے جو در اصل اونٹ تھے اور آپ کو اونٹ کی زبردستی خیمے میں گھسنے والی کہانی تو یاد ہو گی، پھر شیروں کی حکومت آئی مگر اصل میں خچر سرکار چلا رہے تھے پھر ریچھ نما لوگ آ گئے مگر اصل میں سب گدھے ہیں، اب ایسی صورتحال میں سرکار کیسے چلے گی؟ پوچھا کہ اگر گدھے ناکام ہو گئے تو پھر کون جنگل چلائے گا؟ بولے، بھائی یہ کہانی جنگل کی ہے اور فرضی ہے۔ ملک میں تو کپتان کوشش کر رہا ہے، نوکر شاہی نے ملک کی سیاست اور معیشت کو خرابی سے دوچار کیا ہے۔ وزیراعظم کو بلیو بک نے قید کر رکھا ہے اور ایک قیدی کیا کر سکتا ہے۔

ابھی ملک سیاست اور معیشت سے لڑ رہا ہے کہ ایک نئی مصیبت کورونا کا آسیب نازل ہو چکا ہے۔ مرکزی سرکار اور صوبائی حکومتوں کو مشکلات کا اندازہ نہیں۔ کورونا کی وجہ سے حکومت کو کچھ اور وقت مل سکتا ہے، ایک طرف افغانستان کی سیاست خطے کیلئے پریشان کن ہے تو دوسری طرف برادر ممالک کی سیاست نے پریشان کر رکھا ہے۔ کورونا کی وجہ سے اس وقت ہنگامی صورتحال ہے مگر ملک کی اشرافیہ اقتدار کی جنگ لڑ رہی ہے، پھر ڈالر کی اڑان نے کئی سوال اٹھا دیے ہیں۔ گندم، چینی کے بحران کے بعد ڈالر کے ذریعے نوٹ بنانے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ معاشی ٹیم کے دو اہم کرداروں حفیظ شیخ اور رضا باقر کو ڈالر کی اڑان کی وجہ تلاش کرنی چاہئے۔ پاکستان میں خبروں نے بھی ایک طوفان مچا رکھا ہے۔ خبر کی سچائی خود ایک سوال ہے۔ عمران سرکار کو بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے قانون کو مستحکم کرنا چاہئے تاکہ ہمارے سیاسی نیتا بولنے سے پہلے سوچیں کہ الزامات بھی بنیادی حقوق کو متاثر کرتے ہیں۔ بس خبر اور الزام کا فرق محسوس کرنا ضروری ہے۔

تازہ ترین