• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عبدالحکیم ناصف

تیرے ماتھے کی شکن دیکھی، تھکن دیکھی نہیں

تلخ لہجے کی چُبھن دیکھی، دُکھن دیکھی نہیں

سخت حالات میں سانسوں کی گھٹن دیکھی نہیں

ہنسنے والے ترے سینے کی جلن دیکھی نہیں

تجھ سے دوزخ کو فنا ، تجھ سے ہے جنّت آباد

اے مِرے باپ! تری ذات فنا فی الاولاد

تُو نے ہرگام مِرا چاک گریبان سیا

بے شک اس ماں کی محبت سے مَیں دنیا میں جیا

شِیرِ مادر سے ہے روشن مِری ہستی کا دیا

عُمر بھر باپ کی محنت کا لہو بھی تو پِیا

ناتوانی نے تِری مجھ کو جوانی دی ہے

مِری خاطر ہی کمر تُو نے کمانی کی ہے

لُقمہِ بد کی رکھی دُور سدا آلائش

اور محدود کمائی میں کہاں گنجائش

مار کر خود کو مگر دی مجھے ہر آسائش

خُوب کی زیورِ تعلیم سے عقلِ آرائش

دیکھتے دیکھتے بالوں میں سفیدی دیکھی

آہ! وہ تیز نظر چشمے کی قیدی دیکھی

تیز حِدّت کا مرض ہوتا جو طُغیانی پر

تیرتی دیکھیں، تِری آنکھیں سداپانی پر

پٹّیاں دیکھیں دہکتی ہُوئی پیشانی پر

ناز کرتے تھے ملَک خدمتِ انسانی پر

مَیں جوبیمار ہُوا تجھ کو تڑپتے دیکھا

صبح جب ہوش میں آیا تجھے تپتے دیکھا

خواب جیسے وہ ہر اِک عید سہانے کپڑے

جو لگا دیتے تھے تنخواہ ٹھکانے کپڑے

آسماں گھوم، دِکھا ایسے زمانے!کپڑے

ماں کے ہاتھوںدُھلے ابّاکے پرانے کپڑے

گرم کمبل بھی دیا اور تُو شب بھر کانپا

تیرا ایثارِ بدن رشکِ ملائک ٹھہرا

اپنی بھرپور جوانی کو بسایا مجھ میں

جو تِرے پاس تھا لے دے کے لگایا مجھ میں

اے مِرے باپ! تِری ذات کا سایہ مجھ میں

رُوح سے جسم جُدا ہو کے سمایا مجھ میں

اے پِدر قبر نشیں! اشکِ حزیں لایا ہوں

پر یہ لگتا ہے تِرا جسم پہن آیا ہوں

محوِ پرواز ہوئی رُوح یہ تن تیرا ہے

میرا اندازِ تکلّم یہ دہن تیرا ہے

ظاہری، باطنی سب چال چلن تیرا ہے

یہ تبّسم، یہ تجسّم، یہ سخن تیرا ہے

تیری عادات میں اخلاصِ علی کی خُوبی

مَیں تو یوسف سا نہیں، تُو ہے مگر یعقوبی

تازہ ترین